نیشنل ڈائیلاگ :کیا ممکن ہو سکے گا؟


قومی مکالمہ یا ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ یہ مکالمہ کسی ایک یا دو فریق کے درمیان نہیں بلکہ ریاست یا سماج سے جڑے تمام فریقین جو فیصلہ سازی کے عمل میں اہمیت رکھتے ہیں کو اس کا حصہ بننا ہوگا۔ سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بہت سے اہل علم یا اہل سیاست کے بقول ملک میں جو بحران موجود ہے اس کا ایک بڑا حل یا اس کی ابتدائی کوشش قومی ڈائیلاگ سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سوچ اور فکر کوئی نئی نہیں اس سے قبل بھی ہم بہت سے اہل دانش کی جانب سے اس تجویز کو سن چکے ہیں۔ لیکن ہمارا سیاسی ماحول، تناؤ یا محاذ آرائی بداعتمادی، ایک دوسرے کے سیاسی قد یا وجود کو قبول نہ کرنے کے کلچر نے عملاً ڈائیلاگ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

جو لوگ عمومی طور پر مختلف فریقین کے درمیان ڈائیلاگ پر زور دیتے ہیں ان کے سامنے دو سوچ اور فکر کا غلبہ ہے۔ اول ایک طبقہ کے بقول اس ڈائیلاگ میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، بار ایسوسی ایشن، میڈیا سمیت حکومت اور حزب اختلاف اس کا حصہ ہوں۔ جبکہ دوسرے طبقہ کے بقول ڈائیلاگ صرف اور صرف حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہی ہونا چاہیے اور ہر اس عمل سے گریز کرنا چاہیے جو آئینی حدود سے تجاوز کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک داخلی اور خارجی محاذ پر لاتعداد سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہے۔ مسائل کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی بھی فریق سیاسی طور پر تنہائی میں یہ معاملات حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے مجموعی طور پر ایک بڑا اتفاق رائے یا متفقہ طور پر اجتماعی سطح کی کوششوں کی ضرورت ہے۔

پچھلے دنوں تواتر سے مختلف افراد کی جانب سے ڈائیلاگ کی بات سامنے آئی۔ مریم نواز نے بھی بی بی سی کو ایک دیے گئے ایک انٹرویو میں فوج یا اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کرنے کا عندیہ دیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول اگر ڈائیلاگ ہوگا تو یہ حزب اختلاف کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے بقول یہ ڈائیلاگ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس حکومت کو گھر بھیجا جائے گا اور نئے شفاف انتخابات جو اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت سے پاک ہوگا اسے ہی قبول کیا جائے گا۔

یعنی اسٹیبلیشمنٹ پہلے عمران خان کو گھر بھیجے تو ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ تردید کرتے ہیں کہ مریم نواز نے اسٹیبلیشمنٹ سے حکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اگر ان کی یہ بات درست ہے تو پھر وہ کس سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ ڈائیلاگ تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت کو گھر بھیجا جائے گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج یا عدلیہ خود سے کیسے ڈائیلاگ کی طرف قدم بڑھا سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس کے پاس قانونی طور پر کیا اختیار ہے کہ وہ اس میں پہل کرے اور کیوں کرے۔ کیونکہ ڈائیلاگ اگر ہونا ہے اور سیاسی فریقین اس کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کی پہل بھی اہل سیاست کو ہی کرنی ہوگی۔ بنیادی طور پر کوئی بھی ڈائیلاگ موجودہ صورتحال میں حکومت کو باہر نکال کر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔

اگر ڈائیلاگ ہونا ہے تو اس کی پہل خود حکومت کو ہی کرنی ہوگی اور ایجنڈا بھی واضح کرنا ہوگا۔ اس کے بعد حکومت کو ہی حزب اختلاف سمیت دیگر فریقین کو بھی اس ڈائیلاگ کے لیے دعوت دینی ہوگی۔ ڈائیلاگ کا ایجنڈا بھی اہل سیاست کو بیٹھ کر خود طے کرنا ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ کی حامی نہیں یا سردمہری رکھتی ہیں۔ جب وہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے انکاری ہیں تو ڈائیلاگ کیسے ممکن ہوگا۔

نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جب براہ راست فوج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی، عدلیہ میں موجود ججوں، نیب کے سربراہ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کو ہی صورتحال کا براہ راست ذمہ دار سمجھتے ہیں تو پھر ڈائیلاگ کیسے ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف تو فوج اور عدلیہ میں سیاسی تقسیم کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے تو ایسے میں کیونکر یہ ادارے کسی ایسے ڈائیلاگ کا حصہ بننا چاہیں گے جو اداروں کو متنازعہ بنانے کا کھیل سمجھا جا رہا ہے۔

اسی طرح یہ کیسے ممکن ہے کہ ادارے کسی ایسے ڈائیلاگ کا حصہ بنیں جس میں حزب اختلاف کے بقول حکمران جماعت سے ڈائیلاگ ہوہی نہیں سکتے۔ ڈائیلاگ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت حزب اختلاف کو اور حزب اختلاف حکومت کے وجود یا مینڈیٹ کو قبول کرے گی۔ کیا کوئی حکومت ایسے کسی ڈائیلاگ میں پہل کرے گی جس کا مقصد ہی ان کی حکومت کا خاتمہ ہو، ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔

اس لیے ڈائیلاگ کے ہونے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا سیاسی فریقین سمیت سب ادارے ایک میز پر موجودہ سیاسی صورتحال اور حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم یا ٹکراؤ کے ماحول میں مل کر بیٹھ سکیں گے؟ اسی طرح یہ کیسے ممکن ہوگا کہ پہلے حزب اختلاف یہ مطالبہ کرے کہ ڈائیلاگ ان کی شرائط پر ہی ہوں گے۔ حکومتی اور حزب اختلاف کی شرائط کے درمیان کون باہمی انڈرسٹینڈنگ پیدا کرے گا۔ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کے بقول وہ ڈائیلاگ کے حامی ہیں لیکن اس سے قبل حزب اختلاف کی شرائط کو تسلیم کرنا یا پیشگی ایجنڈا مسلط کرنے کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ملک چار بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ اول علاقائی یا خطہ کی سیکورٹی کی بڑھتی ہوئی سنگین صورتحال، بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور جنگی ماحول کو پیدا کرنا، افغان بحران کا حل، سی پیک سے جڑے معاملات، ملک کی معاشی بدحالی، اداروں اور حزب اختلاف کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول، حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم جس میں نفرت یا سیاسی تعصب بھی بالادست ہو سے کیسے نمٹا جائے۔

ایسی صورتحال میں ڈائیلاگ کی خواہش اپنی جگہ لیکن جو تناؤ یا ٹکراؤ کی کیفیت ہے اس کا بھی پہلے تجزیہ کرنا ہوگا۔ ڈائیلاگ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب آپ اداروں کے وجود اور اس میں موجود افراد کو قبول کریں۔ براہ راست اداروں اور ان کے سربراہان پر تنقید سے ڈائیلاگ کے امکانات کم اور ٹکراؤ کا ماحول زیادہ غالب ہوجاتا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں محاذ پر جو سخت گیر مزاج کے لوگ ہیں وہی اس وقت بحران کو آگے بڑھانے میں براہ راست ذمہ دار ہیں۔ سیاسی ماحول میں جو تناؤ یا ٹکراؤ ہے اسے سیاسی لوگوں نے ہی بیٹھ کر حل کرنا ہے اور کسی ادارے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس میں پہل کر کے کچھ ان کے حق میں کرسکے گا، ممکن نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم نے انتخابی اصلاحات کے تناظر میں حزب اختلاف کو مذاکرات کی جو پیش کی اسے بھی ٹھکرا دیا گیا ہے۔

اس لیے ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا ہے تو پہلے اہل سیاست کو اپنی موجودہ پالیسی پر جو ٹکراؤ کی ہے اس کی نفی کرنا ہوگی۔ ابتدائی طور پر پارلیمنٹ کو اس ڈائیلاگ میں پیش رفت کے لیے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ لیکن سوال وہی بنیادی نوعیت کا ہے کہ اس ڈائیلاگ کا نکتہ آغاز کیا ہوگا اور عملی طور پر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ جب ڈائیلاگ کو ایک بڑے دباؤ یا خوف کی بنیاد پر کسی بھی فریق پر مسلط کیا جائے گا تو کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔ اس طرز عمل میں ڈائیلاگ بہت پیچھے چلا جاتا ہے اور بداعتمادی کی سیاست کو ہی غلبہ حاصل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).