ایک نئی زندگی


جاس کے قریب قریب کچھ تفریحی مقامات تھے۔ انہی میں سے ایسا فالز کے نام سے تقریباً ساٹھ ستر کلو میٹر کی مسافت پر ایک آبشار تھی۔ اسلم آرائیں صاحب سے مل کر پکنک کا پروگرام بنایا کہ کیپٹن عبدالکریم بھی ساتھ ہوں گے اور مزہ رہے گا۔ ہمیں بھی اس سے پہلے ایسا فالز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ چھٹی کا دن تھا، دوپہر کا کھانا ساتھ لے لیا، دیگر اشیاء بھی گاڑی میں رکھیں اور ہم تینوں فیمیلیز روانہ ہوئیں۔ سڑک اچھی تھی اور راستے میں آباد چھوٹی چھوٹی بستیاں دلچسپی کا سبب تھیں۔

کہیں کوئی سڑک کنارے بیٹھا کچھ بیچ رہا تھا کہیں بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ کہیں چند ایک چھوٹی چھوٹی کھوکھا نما دکانیں۔ یہ چھوٹا سا خوش گوار سفر اچانک ہی ختم ہوا جب اسلم صاحب نے دایاں اشارہ آن کیا اور ساتھ ہی درختوں کے اندر کچے راستے پر گاڑی لے گئے۔ اسلم کے پیچھے ہم بھی ہو لئے۔ جہاں ہم نے گاڑیاں پارک کیں درختوں کے جنڈ میں اچھی پر کشش جگہ تھی جو سڑک سے ایک سو میٹر سے زیادہ دور نہ ہو گی۔ ہم گاڑی سے باہر نکلے اور بیٹھنے کے لئے جگہ منتخب کرنے کی غرض سے جائزہ لینے لگے۔

جلد ہی ایک جگہ بھا گئی جہاں خواتین نے چادریں بچھا دیں اور ہم نے گاڑیوں سے سامان نکال کر وہاں رکھ دیا۔ یہ ایک پتھریلا علاقہ تھا اور نرم زمین بھی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ نرم مٹی کے اندر ایک چٹان پیوست ہو گئی ہو اور پانی نے اپنے بہاو کے زور سے اس میں جا بجا راستے بنا لئے ہوں۔ ڈھلوان سطح کی وجہ سے بہاو میں تیزی اور فضا میں مترنم صوتی اثرات پیدا ہو رہے تھے اور اس گوشہ تسکین کو خوبصورت درختوں نے گھیر رکھا تھا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں سے کچھ دور مختلف راستوں میں بہنے والا پانی جمع ہو کر آبشار کی شکل میں نیچے جا گرتا تھا۔ آبشار کے نیچے والے حصے تک کوئی باقاعدہ راستہ نہیں جاتا تھا۔

سب کو پکنک سپاٹ بہت پسند آیا۔ خوب تصاویر بنائیں اور گپ شپ چلتی رہی۔ کچھ دیر میں خواتین نے کھانا لگا دیا۔ ایسے موقعوں پہ کھانا بھی زیادہ بھاتا ہے۔ کھانے کے بعد ہم نے خواتین کو وہیں ٹھہرنے کا کہا اور ہم تینوں آبشار کے نیچے والے حصے کو کھوجنے نکلے۔ راستہ تو تھا نہیں لہذا مشکل جگہوں سے گزرتے جھاڑیوں اور پتھروں میں سے بچ بچا کر نیچے اترنے میں کامیاب ہوئے۔ بہت خوبصورت منظر تھا جہاں پانی گر رہا تھا وہاں سے کافی دور تک چھینٹوں نے نیچے پانی والی جگہ کو حصار میں لیا ہوا تھا اور اس کے اور آگے تک ہلکی پھوار کی شکل میں ہوا نے فضا کو پر نم بنا رکھا تھا۔

ہمارے ارد گرد کی تمام جگہ پتھریلی تھی اور جابجا نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئیں تھیں، ساری جگہ کو تین اطراف سے دیوار نما چٹانوں نے احاطہ کیا ہوا تھا اور کھلی سائیڈ سے پانی ایک ندی کی شکل میں رواں تھا۔ دلکش نظارے کو ہم نے ذہنوں کے علاوہ تصویروں میں بھی محفوظ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم واپس اپنے سپاٹ پر پہنچے۔ مزید کچھ وقت گپ شپ میں گزرا اور فوٹوگرافی بھی ہوتی رہی۔ اب سائے ڈھلنے لگے اور ہم نے چیزیں سمیٹتے ہوئے واپسی کا ارادہ کیا۔

گاڑی میں سامان رکھنے کے بعد میں نے کہا یہاں سب کھڑے ہو جائیں اور جانے سے پہلے ایک گروپ فوٹو بناتے ہیں اس بیک گراؤنڈ میں اچھی تصویر آئے گی۔ سب کھڑے ہوئے اور میں تصویر اتارنے لگا۔ سب کو فریم میں لینے کے لئے جگہ کم تھی میرے مزید پیچھے جانے کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ وہاں پانی کا ایک چینل تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چینل کے پار جا کر تصویر لینی چاہیے۔ تصویر میں ڈیپتھ بھی پیدا ہو جائے گی اور واٹر چینل بھی آ جائے گا۔ میرے اندازے میں چینل کی چوڑائی سات آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھی اس لئے میں نے چھلانگ لگا دی۔

دوسری طرف میرے قدموں کا پڑنا تھا کہ میں شڑپ کی آواز کے ساتھ کیمرے سمیت پانی میں گرا۔ میرے لئے یہ ناقابل فہم تھا کہ میرے قدم صحیح خشک جگہ پر پڑے تھے، کیا خشک جگہ بھی اتنی پھسلن والی ہو سکتی ہے؟ مجھے اس کا ادراک نہ تھا۔ میں نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر ڈھلوان کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ کنارے پر جہاں ہاتھ مارتا پھسلن کی وجہ سے گرفت نہ ہو پاتی اور میں الٹ پلٹ ہوتا پانی کے پریشر سے نیچے کی طرف ہی دھکیلا جا رہا تھا۔

خواتین کی چیخ و پکار اور دوستوں کی بے بسی دیدنی تھی کیونکہ حقیقت یہی تھی کہ بہاو کی تیزی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر میری مدد کیا جانا ناممکن تھا اور میرا بچنا معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر یہ چینل زاویہ قائمہ بناتے ہوئے مین سٹریم میں مل کر آبشار کی شکل میں نیچے جا گرتا تھا۔ جس موڑ پر پانی کا رخ تبدیل ہو رہا تھا وہاں کنارے پر ایک درخت تھا جس کی کچھ شاخیں پانی کی سمت جھکی ہوئی تھیں۔ مجھے مسلسل آوازیں سنائی دیں کہ درخت کی ٹہنیوں کو پکڑو۔

میں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ کچھ دیر میں کھڑا رہا سب لوگ اسی طرف آ رہے تھے۔ میں درخت کی ٹہنیوں کا سہارا لیتے ہوئے کنارے کی طرف بڑھتا گیا۔ قریب پہنچنے پر انہوں نے مجھے باہر کھینچ لیا اور یوں اللہ نے مجھے ایک نئی زندگی عطا کی۔ سب کے چہرے پر خوشی تھی۔ ادھر سڑک کے قریب اسلم آرائیں صاحب کے گرد کچھ بچے جمع تھے اور وہ ان میں پیسے تقسیم کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).