آزادی اظہار رائے پر سرکاری قدغن ملاحظہ ہو


ریاست پاکستان کا آئین اس میں بسنے والے شہریوں کو آزادی اظہار رائے کی مکمل آزادی کا اختیار دیتا ہے، اس سلسلہ میں آرٹیکل 19 اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 19 اے کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جہاں یہ طے کیا گیا ہے کہ لکھنے بولنے کی آزادی کیا ہے اور اس کی حدود و قیود کیا ہیں، لیکن حال ہی میں سرکاری سطح پر اک ایسی پالیسی کے لانچ ہونے کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں جو پالیسی بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر قانون سازی کے حوالے سے ہے۔ وفاقی حکومت رواں برس کے آغاز پر ماہ فروری میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر قانون سازی کے نام سے اک قانون منظر عام پر لائی تھی جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد اس قانون پر غور فکر کرنے کے لیے اس میں ترامیم کی گئیں اور اب اکتوبر کے مہینے میں ترمیم کے بعد اس قانون کا مسودہ منظر عام پر آیا ہے

کہنے سننے اور سمجھنے کو تو یہ بہت ہی بھلا معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے شتر بے مہار یعنی سوشل میڈیا پر کچھ قواعد و ضوابط لاگو کرنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد نفرت انگیز مواد کی روک تھام سمیت اشتعال انگیزی، اور نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام ہے لیکن تیرہ صفحات پر مبنی اس قانون میں کئی شقیں ایسی ہیں جو بنیادی انسانی حقوق شہری آزادیوں اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں،

مثال کے طور پر وفاقی حکومت کے سوشل میڈیا سے متعلق ان قوانین میں واضح درج ہے کہ حکومت کے خلاف بولنا مہنگا پڑے گا اس پر سزائیں ہوں گی جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جس میں فیس بک یوٹیوب اور ٹویٹر سمیت کئی موبائل ایپلی کیشنز شامل ہیں ان کمپنیوں کے یہ قوانین لاگو ہونے کے نو ماہ کے اندر اندر اپنے دفاتر پاکستان میں قائم کرنے ہونے گے اور یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں پاکستانی قوانین کے مطابق چلیں گے یہی نہیں پاکستان میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی حکومتی احکامات کی پابند ہوں گی کہ سوشل میڈیا صارفین جو حکومتی احکامات کے بر خلاف سوشل میٖڈیا کا استعمال کریں گے حکومت پر تنقید کریں گے یا حکومت کو ملکی سلامتی اور پروپیگنڈہ کے شبہ کی بنیاد پر مطلوب ہوں گے ان کا ڈیٹا فراہم کرنے میں یہ انٹرنیٹ کمپنیاں حکومت کی پابند ہوں گی۔

ملکی سلامتی اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر سوشل میٖڈیا پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف حکومتی اقدامات تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن حکومتی پالیسیوں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف اس قانون کا استعمال سمجھ سے بالاتر معلوم ہوتا ہے، وفاقی حکومت کے ان سوشل میٖڈیا قوانین پر عالمی ادارے بھی حرکت میں آئے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والے عالمی اداروں کو تحفظات ہیں وہیں ایشیا انٹرنیٹ کوائلیشن نامی انٹرنیٹ کے نگران ادارے نے ان سخت قوانین کے لاگو ہونے پر پاکستان میں اپنی سروسز بند کرے کی دھمکی بھی دی ہے اور کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے مرتب کردہ سوشل میٖڈیا ریگولیرٹی کے قوانین غیر انسانی ہیں جبکہ انٹرنیٹ انٹرنیٹ کے مرتب کردہ بین الاقوامی قوانین سے بھی متصادم ہیں

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ان قوانین کے منظر عام پر آنے کے بعد جہاں انٹرنیٹ پلیٹ فارمز کا سخت رد عمل آیا ہے وہیں پاکستان میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والے ادارے بھی سیخ پا ہیں اور وہ اس قانون کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر چکے ہیں، پاکستان میں مین سٹریم میڈیا کو قابو کرنے کے بعد اب سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات پر سماجی حلقوں میں خوب تشویش پائی جا رہی ہے، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے قوانین کا اطلاق بالکل ایسا ہی ہے کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس ملک میں رہنے والے شہری اسی طرح سے انٹرنیٹ استعمال کریں جس طرح حکومت چاہتی ہے۔

اس ساری صورتحال میں سرکاری سطح پر شہری آزادیوں کو سلب کرنے کا یہ انوکھا اقدام ہے، اک جانب پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کئی امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اس لسٹ سے باہر نکالے جانے یا بلیک لسٹ کیے جانے کے لیے واچ لسٹ میں ہے ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایسے قانون کا سامنے آنا پاکستان کو مزید پیچیدگیوں میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔

بہرحال یہ سرکاری سطح کے قدغن پر مبنی قانون جو منظر عام پر آیا ہے ابھی اس کا اطلاق نہیں ہوا اور اس کے اطلاق اور عمل درآمد کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو مزید با اختیار بنایا جائے گا، اور اسی ادارے کو استعمال میں لاتے ہوئے سزا و جزا کا معاملہ بھی سرانجام پائے گا، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا شور شرابا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا پاکستان میں کام بند کرنے کی دھمکی وفاقی حکومت کو یہ قوانین نافذ کرنے سے روک سکیں گے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).