ایک درویش کرن کی کہانی


کرن ایک ایسے سماج میں پیدا ہوئی تھی جہاں پر ذہنی بیماریوں کو سیریس نہیں لیا جاتا بلکہ اسے معاشرتی طور پر ”ٹیبو“ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا کی رضا جان کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ذہنی مریض پیشہ ور بھکاریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ ان کو ”سائیں بابا یا ملنگنی“ کا بہروپ بنا کر بھیک منگوانا شروع کر دیتے ہیں۔ کرن کی کہانی کچھ ذرا مختلف ہے۔ کرن جب پیدا ہوئی تو کافی دنوں تک اس نے وہ فزیکل ریسپانس نہیں دیا جیسا کہ عموماً نارمل بچے ڈلیوری کے بعد فزیکلی دینا شروع کر دیتے ہیں۔

جیسے جیسے اس کی عمر بڑھ رہی تھی ویسے اس کا ذہن گرو نہیں کر رہا تھا۔ وہ مسلسل خلا میں گھورتی رہتی اور عجیب و غریب حرکتیں کرتی تھی۔ بدقسمتی سے وہ ایک ایسے غریب اور پسماندہ گھر میں پیدا ہوئی تھی جہاں پر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ غریب والدین کو اس بات کا شعور ہی نہیں تھا کہ ان کی بیٹی ایک ذہنی مریضہ ہے۔ انہوں نے اسے آسمانی رضا جانا اور اس کے علاج کے لیے مختلف درگاہوں اور روحانی بابوں کے پاس لے جاتے رہے مگر جھاڑ پھونک سے بھی ننھی کرن کی ذہنی حالت ٹھیک نہ ہوئی۔

بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے والدین وفات پا گئے اور اب وہ حالات کے رحم و کرم پر گلیوں میں گھومتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار اس کے رشتہ دار اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں مگر ایسے لوگوں کو زیادہ دیر تک کون سنبھالتا ہے۔ وہ گلیوں میں بغیر کسی کو نقصان پہنچائے اپنی ذہنی دنیا میں مست یونہی گھومتی رہتی ہے۔ کرن کی خاص بات یہ ہے کہ جب کوئی اسے پہننے کے لیے دو جوڑے کپڑے دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ صرف ایک جوڑے پر اکتفا کر لیتی ہے اور دوسرا واپس کر دیتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ جب کوئی اس کو پیسے دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ لینے سے فوراً انکار کر دیتی ہے اور دینے والے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتی ہے۔ محلے میں کسی کے گھر میں فوتگی ہو جائے تو وہ لازمی اس گھر میں جاتی ہے اور ایک مغموم سی صورت بنا کر ایک کونے میں دبک کے بیٹھ جاتی ہے۔ مغموم خاندان سے اپنا دکھ سکھ سانجھا کرنے کے لیے کچھ سمجھ میں نہ آنے والے الفاظ بولتی ہے اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے کرتے واپس چلی جاتی ہے۔

ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ذہنی حالت بھی خوشی اور غم کے فرق کو سمجھتی ہے کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ خوشی والا گھر ہے یا غمی والا۔ دونوں گھروں کی کیفیات کو اس کا ذہن محسوس کرنے لگتا ہے اور وہ اپنے مبہم انداز میں اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں شادی کے فنکشن پر میں نے کرن کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ وہ کافی دیر تک دروازے پر کھڑے ہو کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ خوشی والا گھر ہے یا غمی والا؟

جب یہ اس کے ذہن نے یہ تسلیم کر لیا کہ یہاں پر خوشی ہو رہی ہے تو وہ اپنے چہرہ پر مسکان سجائے گھر کے اندر آ گئی اور خاندان والوں سے بڑبڑاہٹ اور اشاروں والے انداز میں اپنی خوشی سانجھی کرنے لگی۔ میں بغور اس کے چہرے کا جائزہ لینے لگا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ بالکل ٹھیک ہے اور وہ بھرپور انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ مجھے یوں لگا کہ اس کی یہ بڑبڑاہٹ اور اشاروں کو شاید وہ آدمی بہتر طور پر جان سکے جو دماغی گتھیوں کے راز جانتا ہو۔

وہ ڈیک کے اوپر بجنے والی موسیقی کی آواز کو محسوس کر رہی تھی۔ اچانک اس نے مبہم انداز میں ایک دوسرا گانا لگانے کی فرمائش کی۔ جب اس کے پسند کا گانا بجنے لگا تو وہ کھڑے ہو کر اپنی مستی میں ناچنے لگی۔ جب وہ بے خود ہو کر ناچ رہی تھی تو مجھے یوں لگا جیسے وہ اس گیت کی تہہ میں اتر گئی ہو۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ سر کی کون سی تال نے اس کے دل و دماغ کی تار کو چھیڑ دیا تھا کہ وہ ماحول سے ہی بالکل بے نیاز ہو گئی۔

دماغ کی پرتیں بھی کیا رنگ دکھاتی ہیں۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ موسیقی کی کون سی لہر نے اس کے ذہن میں ہم آہنگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ مجھے ایک لمحے کو یوں لگا جیسے وہ دماغی طور پر بالکل ٹھیک ہے اور حالات کی بھول بھلیوں نے اس کی شناخت کو مسخ کر ڈالا تھا۔ وہ ایک ایسے سماج میں پلی بڑھی تھی جہاں ایسے لوگوں کی ذہنی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ان لوگوں کے پاس لے جایا جاتا ہے جو خود معاشرتی طور پر ابنارمل ہوتے ہیں۔ کاش کرن کو بھی کسی ایسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جایا جاتا جو اس کے دماغ کو جان کر اسے ایک نارمل انسان بنا دیتا اور آج وہ بے بسی کی زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).