ہماری کوئی برانچ نہیں


پی ٹی وی ڈراموں کے سنہری دور میں مزاحیہ ڈرامہ ”الف نون“ اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس کے دونوں کردار آج بھی ہمارے اردگرد ہی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ کمال احمد رضوی الن کے کردار میں ایک چالاک اور مکار کاروباری شخصیت کے روپ میں ہر قسط میں ایک نئے بزنس پلان کے ساتھ نمودار ہوتے۔ رفیع خاور یعنی ننھا اس کا ایک معصوم اور بھولا بھالا دوست ہر بار الن کے دولت کمانے کے نت نئے پلان کا فرنٹ مین بن جاتا۔ الن کا دولت مند بننے کا خواب تمام تر چالاکیوں اور سازشوں کے باوجود اس وقت دھرے کا دھرا رہ جاتا جب ننھا لوگوں کے سامنے سچ بول دیتا مگر چالاک الن اس موقع پر نہایت مہارت سے غائب ہوجاتا اور آخر میں عوام اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کا بدلہ معصوم ننھے سے اس کی پٹائی کی صورت میں لیتے۔ یوں ”الف نون“ کی مختصر دورانیے کی کہانی کا ایک اور باب اختتام پذیر ہو جاتا۔

برصغیر کی مسلم اشرافیہ نے 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قیادت اور مقاصد تبدیل کرتی رہی۔ قائداعظم سے اختلافات کے باعث سر میاں شفیع محمد 1927 ء میں الگ ہو گئے جس کے بعد جناح لیگ اور شفیع لیگ گروپ بن گئے۔ علامہ اقبال بھی کچھ عرصہ شفیع لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ قائداعظم حالات سے مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے اور پھر جب واپس آئے تو آل انڈیا مسلم لیگ ہدایت لیگ اور عزیز لیگ میں تقسیم تھی۔ قائداعظم نے مشکلات کے باوجود مسلم لیگ کی تشکیل نو کی اور پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں بنگال کے لیڈر حسین شہید سہروردی نے آل پاکستان مسلم عوامی لیگ کے نام سے نئی جماعت قائم کردی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کا عوام سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ افتخار ممدوٹ پنجاب کے پہلے وزیراعلی تھے جنہیں قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان سے اختلاف کی بنا پر وزارت اعلی سے ہٹا دیا گیا۔ یوں افتخار ممدوٹ مسلم لیگ سے 1949 ء میں الگ ہوئے اور جناح مسلم لیگ بنا ڈالی اسی طرح مسلم لیگ سے بائیں بازو کے میاں افتخار الدین نے بھی قائداعظم کی وفات کے بعد جماعت میں لیفٹ ونگ کی اہمیت ختم ہونے پر آزاد پاکستان پارٹی تشکیل دے دی۔

1950 ء میں سہروردی اور افتخار ممدوٹ کی لیگیں آپس میں ضم ہو کر جناح عوامی مسلم لیگ بن گئی۔ سندھ کے پہلے وزیراعلی ایوب کھوڑو کو 1952 ء میں مسلم لیگ سے الگ ہو کر سندھ مسلم لیگ بنا لی جو 1954 ء میں ختم ہو گئی۔ 1953 ء میں سہروردی نے اپنی جماعت سے مسلم لفظ ختم کر کے جناح عوامی لیگ نامی ایک سیکولر جماعت بنالی اور افتخار ممدوٹ مسلم لیگ میں چلے گئے۔ جناح عوامی لیگ نے 1954 ء میں پہلے صوبائی الیکشن میں مشرقی پاکستان میں فتح سمیٹی اور 1956 ء میں اس جماعت کا نام مختصر کر کے عوامی لیگ کر دیا گیا جو بعد میں بنگلہ دیش کی بانی جماعت بھی بنی۔

1962 ء میں مارشل لاء کے دوران سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم ہوئی تو جنرل ایوب نے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام سے نئی جماعت بنالی۔ اسی دوران سردار عبدالقیوم اور ممتاز دولتانہ نے پاکستان مسلم لیگ کونسل قائم کردی۔ 1965 ء کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کونسل لیگ کی ہی امیدوار تھیں جو پھر عوامی لیگ سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بن گیا۔ 1970 ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ سے مقابلے کے لئے پی ایم ایل کنونشن اور پی ایم ایل کو متحد کرنے کی کوشش ہوئی۔ پی ایم ایل کونسل کے رہنما سردار قیوم نے قیوم مسلم لیگ کے نام سے الگ جماعت بنا لی۔

1973 ء میں پیر پگارا نے پی ایم ایل کنونشن اور پی ایم ایل کونسل کو ملا کے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل بنا دی۔ 1978 ء میں ملک قاسم نے فنکشنل لیگ سے الگ ہو کر پی ایم ایل قاسم گروپ قائم کر لیا۔ 1985 ء میں محمد خان جونیجو نے فنکشنل لیگ کو متحدہ پاکستان مسلم لیگ میں بدل دیا۔ 1993 ء میں حامد ناصر چٹھہ نے مسلم لیگ جونیجو (ج) کا الگ دھڑا قائم کر لیا اور میاں نواز شریف مسلم لیگ نواز (نون) کے قائد بن گئے۔ منظور وٹو نے پنجاب کی وزارت اعلی چھن جانے کے بعد جونیجو لیگ سے الگ ہو کر مسلم لیگ جناح بنالی۔

2001 میں نون لیگ چھوڑنے والوں نے میاں اظہر کی قیادت میں مسلم لیگ قائداعظم (ق) قائم کی اور 2004 میں دیگر چھوٹی مسلم لیگوں کو اکٹھا کر کے پاکستان مسلم لیگ کے نام سے رجسٹر کروا کے چودھری شجاعت کو قیادت سونپی گئی۔ کچھ عرصہ بعد فنکشنل لیگ اس سے الگ ہو گئی اسی دوران 2002 میں اعجاز الحق نے ضیاء لیگ کے نام سے دھڑا الگ کر لیا تھا۔ شیخ رشید نے 2008 میں ق لیگ کی ہار کے بعد عوامی مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت بنالی۔ 2010 ء میں ق لیگ سمیت دیگر لیگوں سے مایوس ہو کر پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ قائم کرلی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کس لیگستان کے بورنگ قصے سنا رہا ہوں۔ ہر بار یہی لگتا ہے کہ اب یہ مسلم لیگ اپنی طبعی عمر پوری کرچکی اس لئے کوئی نیا بچہ پیدا نہیں ہوگا مگر بچے جننے کا کام ختم ہونے کو نہیں آ رہا گنتی ختم ہو جائے پر مسلم لیگ کی فرنچائز ختم نہ ہوں۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان سے منسوب اس فقرے کی گونج ابھی باقی ہے کہ مسلم لیگ ہمیشہ فوجی آمروں کی لونڈی بنی رہی۔ کچھ سر پھرے اسے ہر فوجی آمر کی سیاسی داشتہ بھی قرار دیتے ہیں۔

ایسا کیا سحر اور جادو ہے اس مسلم لیگ میں جسے ہر طاقتور اپنانا اور ہر کاریگر آزمانا چاہتا ہے۔ لیکن اب کچھ دیوانے لوگ کہتے پھررہے ہیں کہ نون کے خمیر سے ش یا کچھ اور کشید کرنے والے ناکام ہوں گے مگر کچھ سیانے لوگ اب بھی پرامید ہیں کہ مسلم لیگ کبھی بانجھ نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ ہمیشہ امید سے رہتی ہے۔ ہاں نون سے یاد آیا الف نون میں بھی تو پہلے معصوم ننھا لالچی اور حرص کے مارے الن کے پلان میں شامل ہوجاتا ہے اور آخر میں منہ سے سچ اگل دیتا ہے مگر ننھے کے نصیبوں میں پھینٹی تو ہر قسط میں ہی لکھی ہوتی ہے چاہے لوگوں سے پڑے یا خود الن سے۔ ان سب باتوں کے باوجود جاتے جاتے یہاں ایک بار پھر ضروری اعلان بھی سماعت فرما لیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹا جائے اور ویسے بھی ہماری کوئی برانچ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).