محسن داوڑ: پی ڈی ایم کے جلسوں میں شرکت نہ کرنے کا اعلان، ’کچھ سیاسی جماعتوں کو اعتراض تھا‘


محسن داوڑ

قومی اسمبلی میں شمالی وزیرستان سے آزاد رکن محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پشاور کے جلسے میں دعوت نہ ملنے کے بعد وہ آئندہ اس اتحاد کے جلسوں میں شرکت نہیں کریں گے۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں کہ آج کے بعد، میں پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنوں گا، لیکن اس تحریک کی حمایت کرتا رہوں گا اور ایسی تحریکیں ہونی چاہیں۔‘

محسن داوڑ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل چند سیاسی جماعتوں کو ان کی شرکت پر اعتراض تھا اسی لیے وہ آئندہ اس موومنٹ کے کسی بھی جلسے میں شریک نہیں ہوں گے۔

اتوار کو پشاور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں محسن داوڑ کو دعوت نہیں دی گئی تھی اور اس سے پہلے مختلف اخباروں میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ 17 نومبر کو پی ڈی ایم کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان اور محسن داوڑ کے درمیان بعض معاملات پر اختلافات سامنے آئے تھے، جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کو پی ڈی ایم اتحاد سے نکال دیا۔

محسن داوڑ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ’پشاور جلسے میں دعوت نہ دینے کے باوجود 30 نومبر کو ملتان کے جلسے میں اُنھیں شرکت کی دعوت دی گئی ہیں لیکن وہ اب شریک نہیں ہوں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہمیں بلوچستان سے نکلنے پر تو مجبور کیا گیا، لیکن ہم بلوچوں کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے: محسن داوڑ

پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کو بلوچستان سے بے دخل کر دیا گیا

حکومت نے محسن داوڑ اور علی وزیر کو کابل جانے کی اجازت دے دی

اس سے قبل پی ڈی ایم کے ہونے والے چار حکومت مخالف جلسوں میں سے دو میں محسن داوڑ کو دعوت دی گئی تھی جن میں سے صرف کراچی کے ایک ہی جلسے میں اُنھوں نے شرکت کی تھی، جبکہ کوئٹہ جلسے میں شرکت کے لیے انھیں صوبائی حکومت نے اجازت نہیں دی اور ائیر پورٹ پہنچنے کے بعد اُنھیں سڑک کے ذریعے واپس اسلام آباد روانہ کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے صرف بلاول دعوت نہیں دیتے تھے، بلکہ کوئٹہ جلسے کے لیے مجھے سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے دعوت دی تھی۔‘

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے مطابق پی ڈی ایم میں شریک بعض سیاسی پارٹیوں کو ان کی موجودگی پر اعتراضات تھے۔ اگرچہ انھوں نے ان پارٹیوں میں کسی پارٹی کا نام نہیں لیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ اعتراضات کیا تھے؟

تو محسن داوڑ کہتے ہیں ’ان پارٹیوں کو اعتراض یہ تھا کہ میں کسی پارٹی میں کیوں نہیں یا صرف پارٹی والے ہی اس موومنٹ میں شریک ہو سکتے ہیں۔‘ محسن داوڑ کا دعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن صرف انھوں (محسن داوڑ اور علی وزیر) نے ہی کی ہے کیونکہ آرمی ایکٹ میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے پہلے ہی دن پی ڈی ایم قیادت کو بتا دیا تھا کہ میں اسمبلی میں بھی آزاد حیثیت سے ہوں اور آپ کے ساتھ بھی آزاد حیثیت سے شرکت کروں گا۔‘

اسلام آباد کے پی ڈی ایم اجلاس کی کہانی

محسن داوڑ پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ہیں لیکن وہ اسمبلی میں آزاد حیثیت سے اپوزیشن میں ہیں۔ 17 نومبر کو پی ڈی ایم کے اسلام آباد میں اجلاس کے دو شرکا نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس اجلاس میں قبائلی علاقوں کے انضمام اور میران شاہ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے آخری جلسے پر مولانا فضل الرحمان اور محسن داوڑ کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔

ان شرکا کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اس اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ قبائلی علاقوں کا انضمام بین الاقوامی قوتوں کی سازش تھی اور اس کے بعد پی ٹی ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کو شمالی وزیرستان میں جلسے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ان کی جماعت کو وزیرستان میں جلسے کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی ان باتوں پر اعتراض کرتے ہوئے محسن داوڑ نے جواب میں فاٹا کے انضمام کو قبائلی عوام کی خواہش کے عین مطابق قرار دیا اور پی ٹی ایم کے جلسے کے بارے میں جواب دیا کہ پی ٹی ایم نے بھی وزیرستان میں سارے جلسے حکومتی اجازت کے بغیر منعقد کئے ہیں۔

سترہ نومبر کے اجلاس میں شامل ان شرکا کا کہنا ہے کہ آخر میں مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کی حکومت مخالف سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں شرکت پر سوال اُٹھاتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ سیاسی پارٹیوں کے اس اجلاس میں وہ کس پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جس کے جواب میں محسن داوڑ نے بتایا تھا کہ وہ آزاد حیثیت سے پہلے ہی دن سے ان پارٹیوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔‘

کیا محسن پی ڈی ایم کا حصہ تھے؟

جہاں تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی بات ہے تو اس میں کل دس سیاسی جماعتیں ہیں اور محسن داوڑ کے ساتھ پی ٹی ایم لکھ کر یہ گیارہ جماعتیں بن گئی تھی۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کی شرکت پر اس لیے سوال اٹھایا تھا کہ ان کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے تو وہ کیسے پی ڈی ایم میں شرکت کر سکتے ہیں؟

اسلام آباد میں روزنامہ ڈان کے پارلیمانی امور کے صحافی عامر وسیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماضی میں اس طرح کے سیاسی اتحاد میں آزاد اراکین اسمبلی بھی شامل رہے ہیں اور بقول ان کے چونکہ پی ڈی ایم کوئی رجسٹرڈ تنظیم یا پارٹی نہیں ہے اس لیے کوئی بھی آزاد رکن اسمبلی اس اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے۔ عامر وسیم کے مطابق پی ڈی ایم میں موجود کچھ ایسی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن کی اس وقت پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

مولانا اور داوڑ کے اختلافات کی وجہ

جب سے پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آئی ہے کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو بھی اس موومنٹ سے اختلافات ہیں اور اس کی بڑی وجہ اس نے سابقہ قبائلی علاقوں میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو سیاسی طور پر ٹف ٹائم دیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی تحریک پارلیمانی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لے گی لیکن پھر بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو تشویش ہے۔

علی وزیر اور محسن

اگرچہ پشتون تحفظ موومنٹ نے سابقہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام پر کوئی باضابطہ موقف اختیار نہیں کیا تھا لیکن محسن داوڑ ذاتی حیثیت سے اس انضمام کے حق میں تھے اور ابھی تک اس پر قائم ہیں۔ واضح رہے کہ فاٹا کے انضمام پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس کے حق میں جبکہ جمعیت علما اسلام (ف) اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی اس کے خلاف تھے۔

کیا محسن داوڑ کو منظور پشتین کے کہنے پر نکالا گیا؟

اگرچہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی تنظیم غیر پارلیمانی ہے اور غیر پارلیمانی رہے گی۔ لیکن ان خبروں کے بعد کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کو پی ڈی ایم سے نکال دیا ہے سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے منظور پشتین کے کہنے پر محسن داوڑ کو پی ڈی ایم سے نکالا ہے۔

خود محسن داوڑ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے دن سے ہی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا اور اسمبلی کا رکن بھی آزاد حیثیت سے ہی بنا تھا۔

’جہاں تک یہ بات ہے کہ منظور کے کہنے پر یہ سب کچھ ہوا تو پارلیمان میں، میں پی ٹی ایم کا نمائندہ ہوں اور نہ ہی پی ٹی ایم کا پارلیمانی سیاست میں کوئی ڈھانچہ ہے۔ تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ پی ڈی ایم کے بننے کے بعد سوشل میڈیا پر احتشام افغان نامی ایک صارف نے لکھا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی شرکت کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک کو نئی طاقت ملی اور متفقہ طور پر اپوزیشن پارٹیز نے حکومت کے خلاف پی ڈی ایم تحریک چلانے کا اعلان کیا جو خوش آئند ہے۔

اس کے جواب میں خود پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’بصد احترام! آل پارٹیز کانفرنس کی میٹنگ اور اعلامیہ انتہائی خوش آئند ہے مگر اس میں پی ٹی ایم کو دعوت دی گئی تھی اور نہ بحیثیت تحریک پی ٹی ایم نے اس میں شرکت کی ہے۔ اُمید کرتے ہیں کہ آل پارٹیز آئین کی بالادستی کے لیے قدم اُٹھائے گی۔ پی ٹی ایم نے ہمیشہ آئین کی بالادستی کی بات کی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp