باہم معذور خواتین اور بچیوں کے حوالے سے والدین اور معاشرے کے افراد کی تربیت کی ضرورت


مختلف اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زائد ہے۔ یہ خواتین اور بچیاں اس ملک کی برابر کی شہری ہیں اور ان کو تمام سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق کی فراہمی ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد کی بھی ذمہ داری ہے۔ تاہم اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشرے کے افراد اور والدین کی طرف سے ان کے ساتھ منفی رویے رکھے جاتے ہیں۔ بہت سے والدین ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہو انہیں گھروں میں قید رکھتے ہیں اور ان خواتین اور بچیوں کو اپنے لیے باعث شرمندگی سمجھتے ہیں۔

باہم معذور خواتین اور بچیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ قابل مذمت ہے والدین کو چاہیے ان کے لیے اردگرد کی چیزوں کے ساتھ اپنے گھروں کو بھی ان خواتین اور بچیوں کے لیے قابل رساں بنائیں تاکہ وہ اپنے کام بغیر کسی محتاجی کے خود کر سکیں اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھنا ایک غیر انسانی عمل ہے انہیں اپنی بھرپور محبت اور شفقت دیں تاکہ ان کے حوصلہ بلند ہو اور دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی زندگی کے ہر میدان میں نام پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ان پر اعتماد کریں اور انہیں مواقع فراہم کریں۔

جو والدین یا معاشرے کے افراد ان خواتین اور بچیوں کی تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کو ضروری نہیں سمجھتے ایسے والدین یا معاشرے کے افراد کو سمجھنا ہو گا تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور آئین پاکستان کے مطابق ان بچیوں کی تعلیم ان کا بنیادی حق ہے۔ ایسے والدین اور معاشرے کے افراد کو چاہیے کہ وہ ان بچیوں کو اپنے قریبی سکول میں تعلیم دلوائیں اور سکول انتظامیہ سے درخواست کریں کے سکول کے مختص ترقیاتی فنڈ سے سکول کو ان بچیوں کے لیے قابل رساں بنائیں تاکہ انہیں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ساتھ ہی تدریسی عمل میں شریک دوسری بچیوں یا بچوں کو آگاہی دیں کہ معذوری ایک طرز زندگی ہے یہ کوئی بیماری نہیں تاکہ دوسرے بچیوں یا بچوں کی معذوری کے بارے میں غلط تصورات ختم ہوں، اور بلاوجہ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا ان باہم معذور بچیوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے جب وہ خود مدد کے لیے بلائیں تب آپ ان کی مدد کریں۔ حکومت کی طرف سے تقریباً تمام محکمہ جات میں ان بچیوں کی ملازمت کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا ہے یہ بچیاں تعلیم حاصل کر کے ریاست کی طرف سے دیے جانے والے حق کو حاصل کر سکتی ہیں۔ ملازمت حاصل کر کے نہ صرف یہ اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں گزار سکتی ہیں بلکہ والدین کا ہاتھ بھی بٹا سکتی ہیں۔

معاشرے کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معذور خواتین یا بچیاں بھکاری ہوتے ہیں اور انہیں چندہ یا خیرات دینے کی کوشش کرتے ہیں اور دیہی علاقوں میں بہت سی خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ان بچیوں کو صدقہ دینے سے مستقبل میں کسی مصیبت یا مشکل کا سامنا نہیں ہو گا۔ پہلی بات یہ کہ باہم معذور خواتین یا بچیاں بھکاری نہیں ہوتیں معاشرے کے اس طرح کے رویے ان خواتین یا بچیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں ایسا سمجھنا ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔

معاشرے کے مردوں اور خواتین کو سمجھنا ہو گا یہ خواتین یا بچیاں زندگی کے ہر کام کو کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں انہیں چندہ یا خیرات کا مستحق سمجھنا ایک غلط تصور ہے اور اس تصور کو ختم کریں۔ جو لوگ ان خواتین یا بچیوں سے بھیک منگواتے انہیں شعور و آگاہی دیں اور حکومت کی طرف سے بھیک مانگنا ایک قابل گرفت عمل ہے جو لوگ اس کام میں ملوث ہیں اور ان باہم معذور خواتین اور بچیوں سے بھیک منگواتے ہیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی عمل میں لائیں دوسرا یہ کہ ان بچیوں یا خواتین کو صدقہ یا کچھ اور اس نیت سے دینا کہ آپ کی مشکلات کم ہوں گی یہ بھی ایک غلط تصور ہے آپ کی اس عمل کی وجہ سے باہم معذور خواتین اور بچیوں کی دل آذاری ہوتی ہے آپ کا یہ عمل ان بچیوں کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتا ہے جس سے یہ خواتین اور بچیاں خود کو کمزور سمجھنے لگتی ہیں اور ان کے اندر خود اعتمادی کی کمی واقع ہوتی ہے اور یہ معاشرے میں بھرپور زندگی نہیں گزار سکتیں۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ باہم معذور خواتین اور بچیاں جب مارکیٹس یا کام کی جگہوں پر جاتی ہیں تو انہیں بہت سے افراد گھور کر دیکھتے ہیں اور اکثر خواتین یا مرد ان خواتین یا بچیوں سے ان کی معذوری کے بارے میں سوال بھی کرتے ہیں کہ کیسے ہوا، کب ہوا وغیرہ وغیرہ یہ عمل ان خواتین یا بچیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے آپ سب سے گزارش ہے کہ ان خواتین اور بچیوں کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جائے جیسے آپ باقی افراد کے ساتھ پیش آتے ہیں انہیں گھورا نہ جائے ان سے ان کی معذوری کے بارے میں سوال نہ کیے جائیں۔ یہ خواتین اور بچیاں بھی معاشرے کے دوسرے افراد کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور نبھا بھی رہی ہوتی ہیں۔

بہت سے والدین اور معاشرے کے افراد ان باہم معذور خواتین اور بچیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک غلط تصور ہے حکومت کی طرف سے اور مختلف ادارے ان خواتین اور بچیوں کی فلاح و بہبود، ان کی تعلیم اور مختلف مہارتوں کے سکھانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں معاشرے کے افراد اور والدین کی طرف سے باہم معذور خواتین اور بچیوں کو تمام عمر مختلف جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا رہتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ والدین اور معاشرے کے افراد کی لاعلمی اور ان خواتین اور بچیوں کے حوالے سے پایا جانے والا تصور کہ یہ ”کچھ نہیں کر سکتیں“ ہے۔

بہت سی باہم معذور خواتین اور بچیاں تعلیم اور مختلف مہارتیں حاصل کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں لہذا اس طرح کے مفروضات کے خاتمہ کے لیے آپ سب مل کر کوشش کریں اور ان باہم معذور خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک جس میں جسمانی تشدد اور ذہنی تشدد شامل ہے صرف اسی صورت میں اس کا خاتمہ ممکن ہے اگر ہم ان خواتین کو باصلاحیت بنا دیں اور وہ برسرروزگار ہو جائیں اور ایسے والدین اور معاشرے کے افراد کو حکومت کی طرف سے ایک ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں والدین اور معاشرے کے افراد کو پابند بنایا جائے کہ وہ باہم معذور خواتین اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے حکومت کو آگاہ کریں گے اور حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے ضرور یہ خواتین اور بچیاں مستفید ہوں گی۔ والدین اور معاشرے کے افراد سے گزارش ہے کہ ان خواتین اور بچیوں کو مواقع فراہم کریں تاکہ یہ اپنی صلاحیتوں سے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).