شناخت کا ابہام اورخواتین سے دھکا شاہی کلچر


اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے گزشتہ دنوں کال موصول ہوئی تو سمجھنے میں مشکل ہو رہی تھی کہ کال پر بات عورت کر رہی ہے یا مرد ہے۔ موصوف نے تعارف کرایا کہ صنم (فرضی نام) بول رہا ہے اور اسے عاصمہ جہانگیر یا پھر ہیومن رائٹس کمیشن کے کسی بڑے سے بات کرنی ہے۔ آپ بات کرا سکتے ہیں۔ عرض کیا کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر سے بات تو اب اللہ ہی کرا سکتا ہے۔ خاکسار میں اتنی روحانی طاقت نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے کسی رہنما سے بات کرا دیتا ہوں۔

صنم نے تمام تر احوال سے آگاہ کیا۔ 24 سالہ صنم بظاہر مکمل لڑکی ہے مگر خود کو لڑکا تصور کرتی ہے۔ بات چیت، بول چال، بال اور کپڑے یعنی حلیہ لڑکوں جیسا بنا رکھا ہے۔ جسمانی ساخت بھی لڑکوں جیسی ہے۔ ماسوائے جنسی اعضا کے صنم کے اندر مرد کی روح ہے۔

صنم کے بقول دس سال پہلے اس کی ملاقات ماریہ (فرضی نام) سے ہوئی تھی۔ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور دوستی نے تعلق مزید گہرا کر دیا۔ ماریہ کے بقول وہ صنم میں جنس مخالف کی کشش محسوس کرتی ہے۔

اب ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ساتھ جینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ صنم کے بغیر نہیں رہ سکتی ہوں اور نہ ہی صنم اس کے بغیر رہ سکتی ہے۔ گھر والوں نے زبردستی اس کی شادی کسی اور سے کردی ہے۔ وہ یہ شادی کسی صورت قبول نہیں کر سکتی ہے۔

ماریہ اور صنم کی طرح کے نفسیاتی اور شناخت کے ابہام پر مبنی پاکستان میں کئی کیس سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں ٹیکسلا کی عاصمہ اور نیہا، لاہور کے علاقے مناواں کی شزا اور صوبیہ، آزاد کشمیر کے علاقے میرپور کی صائمہ اور ہادیہ سمیت دیگر کیسز میں بنیادی بات شناخت کا ابہام سامنے آئی مگر تمام تر کیسز میں لاپرواہی برتی گئی اور حقائق جاننے کی بجائے ہم جنس پسندی اور گناہ کا ڈھول بجایا جاتا رہا ہے۔ جس کے باعث پورے پورے خاندانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور لڑکیوں کی زندگیاں بھی برباد ہوئی ہیں۔

سماجی، مذہبی اور انسانی اخلاقیات کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اقبال، قدرت اللہ شہاب اور نسیم حجازی پڑھانے سے سماج ایسے بنتے ہیں جس صرف جنونیت، جذباتیت اور خیالی تفاخر پایا جاتا ہے۔ حقیقت، حقائق، انسانی اخلاقیات اور انسانی حقوق کو بے حیائی، فحاشی و عریانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی ترویج و اشاعت اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی قبیل کے بے شمار لوگ عقیدے کے طور کرنے میں کمربستہ ہیں۔

خواتین محض جنس مخالف اور کھیتیاں نہیں ہیں۔ مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ہیں۔ جو قومیں عورتوں کی عزت نہیں کرتیں ہیں۔ تباہی ان کا مقدر ہے۔ بطور قوم ہم تباہی کا شکار ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے۔ قبیح ترین فعل پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ چار دن خبریں اور سوشل میڈیا پر منافقانہ جملے پوسٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر نئے سانحات کا ذکر ہوتا ہے۔ یہی عذاب و تباہی ہے۔ یہی زوال ہے۔

آسمان سے پتھر برسنا باقی ہیں۔

سماج میں یہ عمومی رویہ ہے کہ مذہب، عزت اور غیرت کے نام پر خواتین سے دھوکا کیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر بال کھینچے جاتے ہیں۔ بے حیا، بدچلن اور بدکردار سمجھا جاتا ہے۔ بات کی جاتی ہے اور نہ سنی جاتی ہے۔ دھکا دینے کی بجائے صنم اور ماریہ سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین سے کونسلنگ کرائی جائے۔ ان شناخت میں ابہام کو دور کیا جائے۔ عزت، غیرت اور مذہب کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ انسانی زندگیوں کو دیکھا جائے۔ بطور انسان سب کو جینے کا حق حاصل ہے۔ یہ دھکا شاہی ختم کی جائے۔ دھکا شاہی کے اس کلچر نے بے شمار زندگیاں تباہ کیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).