ازدواجی زندگی


شادی دو لوگوں کا ملن ہے ہمارے معاشرہ میں ان دو لوگوں کے ملن سے زیادہ دو خاندانوں کے ملنے پہ انحصار کرتا ہے۔

ماں اور بہنیں بہت بھاگ دوڑ چھان پٹھک کے بھائی کی دلہن لاتی ہیں۔ کتنے گھروں کا چکر لگتا ہے۔ مختلف قسم کے ناشتے کیے جاتے ہیں۔ امیر غریب متوسط گو کہ ہر گھر میں اپنے معیار کی لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے۔

لڑکی والے بھی کسی طور کم نہی ہوتے۔ لڑکا دیکھنے اس کے گھر گئے ہیں اور بیٹھک میں لڑکا جوتے اتار کر اندر آیا تو اسے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اکثر لڑکیاں اسی لئے وقت پر شادی سے محروم رہ جاتی ہیں کہ باپ اور بھائیوں کے دماغ ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں۔

دونوں طرف کی محنت کے بعد بالآخر شادی ہوہی جاتی ہے۔ کچھ جو ذرا ماڈرن ہو گئے ہیں ہنی مون منانے نکل جاتے ہیں۔ کچھ کھیر میں ہاتھ ڈلوانے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔ شادی طے ہونے سے لے کر شادی ہو جانے تک کی تمام تلخیاں دونوں طرف دبی رہتی ہیں۔ کہیں جھگڑے کہیں طعنہ زنی کہیں کھنچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔

ان سب میں وقت گزرتا ہی رہتا ہے۔ لیکن کبھی میاں بیوی نے غور کیا ہے کہ آپس میں کیسے تعلقات ہیں؟ ایک کمرے میں ساتھ رہنے کے علاوہ زندگی کے اور معاملات میں دونوں کتنے ساتھ ہیں۔

اکثر ہی سنا ہے کہ فلانی کہتی ہے میاں پیار نہی کرتا اور چار چار چھ چھ بچے ہیں۔ کیا بے تکی دلیل ہے۔ اس بات کے جواب میں بات تو بہت تلخ ہے لیکن کہنا پڑتی ہے کہ جانور بھی ایک وقت میں سات بچے پیدا کر دیتے ہے۔ یہاں سوچ چاہیے عزت کی آپ ایک دوسرے کو عزت کتنی دیتے ہو آپ ایک دوسرے کے لئے نبھاتے ہو یا اپنے خاندانوں کے لئے۔

ایک خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہو یا دنیا داری کے لئے ایک لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟

آس پاس ہر دوسرے دن ایسے زیادتی کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں ہر فرد مرد و عورت کے درمیان ایک ہی تعلق کو سمجھتا ہے اسی پہ اپنی پوری زندگی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

دھوم دھام سے شادیاں اسی سوچ کے ساتھ ہوتی ہے کہ بچے جوان ہو گئے۔ اگر شادیاں کرتے وقت یہ بھی سوچ لیا جائے کہ ان بچو نے کل بوڑھا بھی ہونا ہے اور پھر بھی ساتھ ہی رہنا ہے تو شاید پیمانے کچھ مختلف ہوں۔

اس کٹھن زدہ ماحول میں مرد و عورت ساری عمر نبھانے میں گزار دیتے ہیں کہ دنیا کیا کہے گی، جوان بچے کیا سوچیں گے بیٹیاں کیسے بیاہی جائیں گی غرض کہ ایک حصار کے اندر اپنی ضروریات و خواہشات کو قید کر لیا جاتا ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اکثر شادی شدہ جوڑے اندرون خانہ طلاق یافتہ طرح زندگی گزارتے ہیں، مذہبی و جہالتی و معاشی دباؤ و منافقت میں وقت برباد کرتے ہیں، اس اذیت کے ردعمل میں فسادی و نفرت کے پیکر بن جاتے ہیں۔

یہاں قصور نا مرد کا ہے نا عورت کا یہاں جو پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے درحقیقت وہ ہی پوری دیوار کو ٹیڑھا کر دیتی ہے، کہنے کو تو جوڑے آسمان پہ بنتے ہیں یاد رکھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ نے زمیں پہ ہر چیز ہی جوڑے کی صورت میں اتاری ہے یہ سب ہی بھول جاتے ہیں۔

جس تگ و دو سے شادی رچائی جاتی ہے اسی قدر پھرتی سے ان جوڑوں کے بیچ فاصلے پیدا کیے جانے لگتے ہیں دو لوگوں کی شادی بھی دو خاندان کرواتے ہیں اور ان دو لوگوں کو وہی دو خاندان ایک ساتھ سکون سے رہنے نہی دیتے، یہی وجہ آگے چل کر شادی کو صرف نکاح نامے تک قائم رکھتی ہے جبکہ وہ دو لوگ اپنی زندگی کسی بیوہ یا رنڈوے کی طرح گزارتے ہیں۔

کیا کبھی ہمارا معاشرہ شادی کو آسان بنانے دے گا جہیز بری رسومات کے بوجھ سے نکل کر یہ سوچ پروان چڑھے گی کہ جب جوانی کا خمار اترے گا تو کیا دو بوڑھی روحیں ایک دوسرے کو عزت محبت دے پائیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).