مغربی بنگال میں کمیونٹی جرنلزم کا جائزہ


ایک وقت تھا جب 1822 میں ”جام جہاں نما“ نے ملک میں اردو صحافت کی داغ بیل ڈالی تھی اور کلکتہ اردو صحافت کا گہوارہ کہلاتا تھا لیکن دو صدی بعد جب یہ شہر کلکتہ سے کولکاتہ ہواتو اردو صحافت اپنی آبرو بچانے کے درپے ہے۔ یوں تو کولکاتہ سے مختلف زبانوں میں سیکڑوں اخبارات رجسٹرار آف نیوز پیپرس آف انڈیا کی فائل میں شائع ہو رہے ہیں لیکن جن اخبارات و رسائل، پرنٹ کے ساتھ الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا پر کمیونٹی کا قبضہ ہے انہیں محض انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔

ایک دہائی قبل تک جس کولکاتہ میں احمد سعید ملیح آبادی اور روزنامہ ”آزاد ہند“ کا غلغلہ تھا اب بھولے سے بھی کہیں یہ نام سنائی نہیں دیتا۔ روزنامہ ”اخبار مشرق“ نے ”دیدی“ کی قربت حاصل کر کے ”درباری صحافت“ کو تو زندہ رکھا ہے لیکن مجموعی طور پر کمیونیٹی کے فکر و نظر پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔ اردو روزناموں میں راشٹریہ سہارا، عوامی نیوز، سیاسی تقدیر، عکاس، پندرہ روزہ شہر نشاط وغیرہ گوکہ کولکاتہ کے قارئین تک پہنچ رہے ہیں لیکن چونکہ ان کے مالکان کمیونٹی سے بہت زیادہ مستفیدنہیں ہو پاتے اس لئے عوام میں بھی ویسی مقبولیت نہیں جیسی کہ بنگالی علاقوں میں بنگلہ اخبارات کی ہے۔

رسائل و جرائد کا عالم یہ ہے کہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے باہر سڑک کے کونے پر رسائل وجرائد کے ساتھ اخبارات فروخت کرنے والی تیسری پیڑھی سے تعلق رکھنے والے محمد شوکت علی معیشت سے کہتے ہیں ”ایک وقت تھا جب نامور ادیب و صحافی میری دکان سے رسائل وجرائد خرید کر لے جایا کرتے تھے اور میرا شمار کولکاتہ کی بڑی ایجنسیوں میں ہوتا تھا لیکن اب مہینے میں پانچ دس رسالے بھی فروخت ہوجائیں تو یہ میرے لئے خاصے کی چیز ثابت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اردو رسائل و جرائد کے ساتھ چڈھی و بنیائن اور ساتھ ہی ماسک فروخت کرنا شروع کر دیا ہے کہ اس کے گراہک زیادہ آنے لگے ہیں“ ۔ شوکت علی کہتے ہیں مسلمانوں میں اردو رسائل و جرائد پڑھنے کا رجحان انتہائی حد تک کم ہو گیا ہے اور کوئی بھولا بھٹکا ہی اس طرف رخ کرتا ہے ”۔

روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ریسیڈنٹ ایڈیٹر محمد فاروق معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ”پندرہ بیس برسوں میں میں نے کولکاتہ کے مسلم ریڈرشپ کا جائزہ لیا ہے۔ مجھے یہ محسوس ہو ا ہے کہ یہاں کا اردوداں طبقہ کھانے کمانے اور روزگار میں منہمک رہنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتا۔ اس کے برخلاف بنگالی عوام نہ صرف صحافت کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے بلکہ علم و ادب کی سرپرستی اپنا اعزاز سمجھتی ہے“ ۔

اردو کے بعد بنگلہ زبان میں ”پوربے قلم“ اور ”دیش درپن“ شائع ہو رہا ہے یقیناً ”پوربے قلم“ نے انتہائی مختصر مدت میں بنگلہ کمیونٹی میں اپنی شناخت قائم کر لی ہے لیکن اشتہارات کے حوالے سے ان کی پریشانی اب بھی برقرار ہے۔ ایک ملاقات میں روزنامہ پوربے قلم کے مالک محمد عمران کہتے ہیں ”ہمیں کمیونٹی سے ویسے اشتہارات نہیں ملتے جس کی امید کی جاتی ہے لہذا انتہائی کسمپرسی میں ہم اپنا کام چلا رہے ہیں“ ۔ بنگلہ زبان میں نیوز ویب سائٹ ”اپن زون ’Aponzone۔

‘ چلانے والے زید الحق کہتے ہیں“ مغربی بنگال میں کمیونٹی جرنلزم کی حالت انتہائی ابتر ہے کسی کو یہ احساس نہیں کہ صحافت کے ذریعہ ہم اپنا پیغام جہاں بآسانی پہنچا سکتے ہیں وہیں معاشرے پر بھی دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنگلہ زبان میں کمیونٹی کی کوئی ویب سائٹ نہیں تھی جس کمی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اس کا آغاز کیا ہے ”۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی بنگال میں انگریزی صحافت کا تو طوطی بولتا ہے لیکن کمیونٹی انگریزی صحافت کا نام و نشان نہیں ہے۔ مسلم گھرانوں میں بھی انگریزی اخبارات تو منگوائے جاتے ہیں لیکن بہت کم گھرانے ایسے ہیں جہاں اخبار پڑھا بھی جاتا ہو۔

یونائیٹڈ نیوز ایجنسی سے وابستہ نور اللہ جاوید جن کی کتاب ”مغربی بنگال کے مسلمان۔“ شائع ہونے والی ہے کہتے ہیں ”مغربی بنگال میں شائع ہونے والے اردو اخبارات کسی نہ کسی خاص سیاسی جماعت کی ترجمانی کیا کرتے ہیں، کسی حد تک روزنامہ سہارا کولکاتہ کو غیر جانب دار قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے بھی اپنے حدود ہیں لہذا اردو صحافت میں عوام کی ترجمانی کرنے والے اخبارات کا فقدان ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پچیس فیصد بنگلہ زبان کی مسلم آبادی بھی اپنی آواز سے محروم ہے۔

شاردا گروپ نے ہفت روزہ قلم بنگلہ کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے روزنامہ کا جامہ پہنایا تھا اور کمیونیٹی کو ہی ادارتی پالیسی طے کرنے کی ذمہ داری دی تھی لیکن جب چٹ فنڈ گھوٹالے میں کمپنی پھنسی تو“ روزنامہ قلم ”پر بھی حکمراں جماعت کی سرپرستی کا چھاپ لگ گیا اور اس کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچاہے۔“ نور اللہ کہتے ہیں ”مسلمانوں کے پاس نہ معیاری نیوزویب سائٹ ہے اور نہ ہی ڈیجیٹل میڈیا میں کوئی موجودگی اکا دکا جو لوگ سوشل میڈیا پر نظر بھی آتے ہیں تو وہ صحافت سے زیادہ وقتی منفعت حاصل کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔“

تقریباً پچیس برسوں سے ماہنامہ ”مژگاں“ شائع کرنے والے یونین بینک کے منیجر شاعر و ادیب نوشاد مومن کہتے ہیں ”میں نے مژگاں کے متعدد دستاویزی شمارے منظر عام پر لائے ہیں ابھی بہار کا معاصر ادب نمبر حصہ اول کے بعد حصہ دوم بھی لانے کی کوشش کی ہے لیکن اس شہر میں اس کی ویسی پذیرائی نہیں ہوئی جیسے دوسرے شہروں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا“ ۔

عالیہ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض کہتے ہیں ”مغربی بنگال میں اردو داں طبقہ اور بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کے مابین تال میل نہیں بیٹھ پاتا یہی وجہ ہے کہ مسلم انٹلی جنسیا کی حالت انتہائی خراب ہے۔ عالیہ یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن میں مسلم طلبہ وطالبات کی تعداد بھی تشفی بخش نہیں ہے جو طلبہ یہاں آتے بھی ہیں تو انہیں چکا چوندھ دنیا زیادہ عزیز ہوتی ہے اور وہ لکھنے پڑھنے یا کسی خبر رساں ادارہ سے وابستہ ہونے میں اپنی دلچسپی نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونیٹی جرنلزم کی حالت انتہائی خراب ہے اور کوئی اس ضمن میں سوچتا بھی نہیں ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں وہ مواقع میسر نہیں آتے جس کا یہ فیلڈ مطالبہ کرتا ہے۔“

مغربی بنگال میں اب جبکہ انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں میڈیا نے بھی اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کا میڈیا پر کنٹرول ہے ابھی سے ہی ایسے ماحول تیار کررہی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرسکے اس کے بالمقابل وہ طاقتیں بھی اپنی توانائی لگا رہی ہیں جو اقتدار میں بنے رہنا یا اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ زمینی سطح پر بھی ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں چہ جائے کہ جدید ذرائع ابلاغ کا وہ استعمال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).