انڈیا اینٹی ریپ قوانین: سخت قوانین نافذ کرنے کے باوجود انڈیا ریپ کیسز سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہو رہا ہے؟


انڈیا، ریپ، انصاف
انڈیا میں سنہ 2012 میں دلی گینگ ریپ کے بعد نئے اور سخت اینٹی ریپ قوانین متعارف کروائے گئے تھے۔ ان قوانین کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ خواتین کے لیے پولیس میں شکایت درج کروانا آسان ہو جائے۔

ریپ کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی تھی اور خصوصی فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی گئیں تھیں۔ لیکن کیا ان نئے قوانین سے ریپ کی متاثرین کو انصاف ملنا آسان ہوا؟

انڈیا میں ریپ کے واقعات عام ہیں، لیکن بعض ریپ کے واقعات اتنے دل دہلانے والے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔

دلی میں سنہ 2012 میں پیش آنے والے گینگ ریپ کے بعد قوانین میں سختی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود تب سے پولیس تھانوں میں درج ہونے والی ریپ کی شکایات میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ریپ معاشرے کی بےحسی کا عکاس

انڈیا میں 86 سالہ خاتون کے ریپ پر غم و غصہ

جنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا ریپ کے واقعات میں کمی لا سکتی ہے؟

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے بارے میں اب ماضی کی نسبت زیادہ بات ہوتی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ قوانین میں اصلاحات ہیں جس میں حکومت کی جانب سے ریپ کے مجرم کو سزائے موت متعارف کروایا جانا اہم ہے۔

لیکن بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف کاغذی اقدامات ہیں جن میں خواتین سے متعلق معاشرے میں موجود اصل مسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

بی بی سی کی سالانہ 100 ویمن سیریز کے تحت دلی میں مقیم ہماری نامہ نگار دیویا آریا نے ریپ کے تین ایسے واقعات پر نظر ڈالی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ سخت قوانین ریپ متاثرین کے لیے مدد گار ثابت کیوں نہیں ہو رہے ہیں۔

’امید کرتی ہوں میں اپنی زندگی میں انصاف ہوتا دیکھوں گی

انڈیا، ریپ، انصاف

دو چچا زاد بہنیں، ایک کی عمر 12 برس اور دوسری کی 15 برس، آم کے ایک درخت کی ٹہنی پر لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔ ان کے والدین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں

آج تک اس علاقے کو وہ ’گاؤں کہا جاتا ہے جہاں لڑکیاں درخت سے لٹکی ہوئی ملی تھیں۔‘

دو چچا زاد بہنیں، ایک کی عمر 12 برس اور دوسری کی 15 برس، آم کے ایک درخت کی ٹہنی پر لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔

لڑکیوں کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ان کا ریپ ہوا تھا اور بعد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

سنہ 2012 میں دلی گینگ ریپ کے بعد ریپ کا یہ پہلا بڑا واقعہ تھا۔ اس واقعے کو چھ برس سے زیادہ گزر گئے ہیں لیکن متعدد لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ واقعہ کل ہی ہوا ہے۔

ہماری گاڑی جیسے ہی اُتر پردیش کے بدایوں ضلع میں داخل ہوئی ہم نے راہ چلتے لوگوں سے اپنی منزل کا راستہ پوچھنے کے لیے گاڑی روکی۔

راہ گیر فوراً سمجھ گئے ہم کہاں جانا چاہتے ہیں اور انھوں نے ہمیں صحیح راستہ بتایا۔ بدایوں کے متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کی لڑائی اتنی سیدھی سادھی اور آسان نہیں رہی ہے۔

انڈیا، ریپ، انصاف

رپورٹر دیویا: ’اس خاندان سے میری ملاقات سنہ 2014 میں ہوئی تھی۔ میں دلی سے سب سے پہلے بدایوں پہنچنے والے چند رپورٹرز میں شامل تھی‘

اس خاندان سے میری ملاقات سنہ 2014 میں ہوئی تھی۔ میں دلی سے سب سے پہلے بدایوں پہنچنے والے چند رپورٹرز میں شامل تھی۔ دلی سے بدایوں کا سفر آٹھ گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔

دو لڑکیوں میں سے ایک کے والد نے مجھ سے اسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر بات کی تھی جہاں انھوں نے اپنی بیٹی کو لٹکا ہوا پایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ خوفزدہ تھے کیونکہ مقامی پولیس ’اُن کا مذاق اڑا رہی تھی‘ اور مدد کرنے سے انکار کر چکی تھی۔

لیکن ان کے اندر بدلے کا جذبہ بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان مردوں کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جانا چاہیے، بالکل اسی طرح سے جیسے انھوں نے ہماری بیٹیوں کو لٹکایا ہے۔‘

ریپ کے سخت قوانین کا مقصد ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے پولیس میں شکایت درج کرنے کا عمل آسان بنانا تھا۔

نئے قانون میں ایک شق یہ کہتی ہے کہ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے معاملات کی سماعت ایک سال کے اندر اندر مکمل کی جائے۔

اس کے باوجود ریپ سے متعلق ایسے کیسز کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی جن کی سماعت طویل تر ہوتی جا رہی ہے یا فیصلے کا انتظار ہے۔

سرکاری اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ سنہ 2013 کے اختتام پر 95 ہزار ریپ کے مقدمات زیر التوا تھے۔ یہ تعداد سنہ 2019 کے آخر تک ایک لاکھ 45 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔

انڈیا، ریپ، انصاف

چھ سال کے باوجود متاثرین کو انصاف نہ مل سکا

میں بدایوں میں اس درخت تک چل کر گئی، لیکن متاثرہ لڑکی کے والد نے وہاں سے منھ موڑ لیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ درخت ان کی دردناک یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ وہ اب بہت کمزور ہو گئے ہیں اور اپنی عمر سے بہت زیادہ ضعیف لگنے لگے ہیں۔

ان کا غصہ کم نہیں ہوا ہے لیکن انھیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ انصاف کے حصول کا سفر طویل اور تنہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’قانون تو کہتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی سماعت جلد سے جلد ہو لیکن عدالتیں ہماری درخواست پر کان نہیں دھرتی ہیں۔ میں مسلسل عدالتوں کے چکر لگا رہا ہوں لیکن غریبوں کو انصاف مشکل سے ملتا ہے۔‘

’تفتیش کا عمل تیزی سے مکمل ہو گیا تھا۔ تفتیش کاروں نے کہا کہ ان کے پاس ریپ اور قتل کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ لہذا ملزمان کو رہا کر دیا گیا تھا۔‘

اہلخانہ نے اس کو چیلنج کیا اور کیس دوبارہ کھول دیا گیا۔۔۔

لیکن الزامات کو کم کر کے صرف چھیڑ چھاڑ اور اغوا تک محدود کر دیا گیا۔ ایک بار پھر لڑکیوں کا خاندان ریپ اور قتل کا مقدمہ چلانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

انڈیا کے عدالتی نظام میں مالی اور انسانی ذرائع کی کمی ہے۔ بدایوں ریپ معاملے کی سماعت ایک فاسٹ ٹریک عدالت میں ہو رہی ہے لیکن لڑکیوں کے خاندان کے وکیل گیان سنکھ کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں میں خاص سہولیات نہیں ہیں۔

انڈیا، ریپ، انصاف

ان کا کہنا ہے کہ ’فاسٹ ٹریک عدالتیں جلد از جلد کیس کی سماعت کرنا چاہتی ہیں لیکن کبھی فرانزک رپورٹس میں تاخیر ہو جاتی ہے تو کبھی ڈاکٹروں اور تفتیشی اہلکاروں کا تبادلہ ہو جاتا ہے اور عدالت میں پیش ہونے والے گواہوں کو اکٹھا کرنے میں بھی وقت لگتا ہے۔‘

ہم ایک چارپائی پر بیٹھ کر ان قانونی دستاویزات اور کاغذات کا جائزہ لیتے ہیں جو گذشتہ برسوں میں ایک انبار میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ایک ایسے لڑائی ہے جو بہت لمبی ہو چکی ہے۔ واپس آنے کے بعد ان کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ’میں امید کرتی ہوں کہ انصاف ہونے تک ہم زندہ رہیں۔‘

’والدین نے میرے بوائے فرینڈ کو ریپ کے الزام میں جیل بھجوایا‘

اوشا کی عمر 17 برس تھی جب ان کے والدین کو ایک مقامی لڑکے کے ساتھ ان کے عشق کے بارے میں معلوم ہوا۔

ریاست گجرات کے پنچ محل ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

لیکن اوشا کے والدین نے اس رشتے کی اجازت نہیں دی۔ اوشا اور اس کے بوائے فرینڈ نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔

انڈیا، ریپ، انصاف

اوشا نے اپنے ہی والدین کے خلاف ٹریفیکنگ کا کیس کیا تھا

اوشا کا کہنا ہے کہ بھاگ کر وہ بہت زیادہ دن تک ساتھ نہیں رہ پائے کیونکہ ان کے والد نے ان کا پتا لگا لیا تھا اور اسے واپس گھر لے آئے۔

اوشا نے بتایا کہ ’میرے والد نے مجھے رسی اور ڈنڈے سے مارا اور اس کے بعد انھوں نے مجھے ایک دوسرے مرد کو ایک لاکھ 25 ہزار روپے میں فروخت کر دیا۔‘

اوشا اپنی شادی کی رات کو دوبارہ بھاگ گئیں۔ انھوں نے واپس اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کر لی اور پھر حاملہ ہو گئیں لیکن ان کی راہ میں ایک اور رکاوٹ آئی۔

نئے قانون میں شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی کی عمر 16 سے بڑھا کر 18 کر دی گئی۔

اوشا کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ شادی کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کی ان کی صحیح عمر نہیں تھی اس لیے ان کے والدین نے ان کے بوائے فرینڈ پر ریپ کا الزام عائد کیا اور اسے جیل بھیج دیا ہے۔

لڑکے کے خاندان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ لڑکے کی والدہ پر اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اوشا کے اغوا اور بعد میں ریپ کی سازش کا الزام عائد کیا گیا۔

لڑکے کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے دو ہفتے جیل میں گزارے۔ اس کے بعد لڑکی کے گھر والوں نے ہمارے گھر کی توڑ پھوڑ کی، دروازہ توڑ دیا اور ہمارے مویشی بھی لے گئے۔ ہمیں اپنی جان بچانے کے لیے چھپنا پڑا۔‘

یہ ریپ کا ’فرضی‘ مقدمہ تھا جو ایک ایسی نوجوان لڑکی کے نام پر کروایا گیا جس کو قانون سے تحفظ ملنا چاہیے تھا۔

اس بارے میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کہ انڈیا کی عدالتوں میں اس کے کتنے ’فرضی‘ معاملات درج ہیں۔

اوشا، انڈیا ریپ

اوشا ایک مقامی خیراتی ادارے کی مدد سے اپنے شوہر کو بچا سکی تھیں

قانونی ماہرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بعض کیسز کی بنیاد پر شواہد موجود ہیں کہ اس طرح کے معاملات اس نظام پر مزید دباؤ ڈال رہے ہیں جو پہلے ہی بہت نازک حالت میں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات معاشرے کے گہرے اور سنگین مسائل کو اجاگر کرتا ہے جسے کوئی قانون تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔

گریما جین کا کہنا ہے کہ کم عمر اور معاشی طور پر والدین پر منحصر لڑکیوں کے لیے اپنے والدین کے خلاف کھڑا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

گریما جین نیدرلینڈ کی تلبرگ یونیورسٹی کی انٹرنیشنل وکٹومولوجی انسٹیٹیوٹ میں اپنے تھیسیز کے لیے ریپ کی شکار خواتین کی نفسیات پر ریسرچ کر رہی ہیں۔

گریما بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنی ریسرچ کے دوران شواہد جمع کرتے ہوئے یہ دیکھا ہے کہ جب لڑکیوں کے بوائے فرینڈز کو ریپ کے ’فرضی‘ معاملات میں جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ان کا رشتہ متاثر ہوتا ہے اور لڑکی کو تکلیف پہنچتی بلکہ والدین لڑکیوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر لیتے ہیں۔‘

اوشا کو ایک غیر سرکاری تنظیم آنندی سے مدد ملی۔ انھوں نے اوشا کے شوہر کے خاندان والوں کو ضمانت دلانے میں مدد کی اور اوشا کے والدین کے خلاف کھڑے ہوئے۔

جیسے ہی اوشا 18 برس کی ہوئی اس نے اپنے والدین کے خلاف انسانی سمگلنگ کا مقدمہ درج کیا۔ حالانکہ وہ سمجھتی ہیں کہ کاش حالات اتنے خراب نہ ہوئے ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر لڑکیوں کو اپنی مرضی کے مرد سے شادی کرنے کی آزادی ہو تو دنیا ایک زیادہ خوش حال جگہ ہوتی۔‘

سیما شاہ، سوشل ورکر

سیما شاہ، سوشل ورکر

بدقسمتی سے جب لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں اور والدین کے کنٹرول سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں تو والدین کی مخالفت کی کوئی حد نہیں رہتی۔

اوشا کے والدین نے آنندی تنظیم کے کارکنان کے خلاف بھی انسانوں کی سمگلنگ کا مقدمہ درج کرانے کی دھمکی دی تھی۔

اس ضلع میں شادی کی رضامندی کی صحیح عمر سے متعلق قانون خوب غلط استعمال ہوتا ہے۔

تنظیم نے سنہ 2013، سنہ 2014 اور سنہ 2015 میں درج ہونے والی آیف آئی آر کا جائزہ لیا اور یہ پایا کہ والدین نے اس طرح کے 95 مقدمے درج کرائے تھے۔

آنندی تنظیم کی کارکن سیما شاہ بتاتی ہیں کہ ’اس قانون کا انصاف کی جدوجہد کے لیے صحیح استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا اور انھیں کھل کر بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔‘

’ریپ کے بعد کئی بار خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا

وہ کھل کر ہنس نہیں پاتی ہیں۔ ’مایا‘ بہت ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

وہ مجھے اپنی تمام دردناک تفیصلات والی کہانی بتانے کے لیے بے چین ہیں۔ ان کے دل میں اپنے اوپر جو گزری اس کا درد تازہ ہے اور وہ بات کرتے کرتے رو پڑتی ہیں۔

انڈیا، ریپ، انصاف

مایا کا تعلق دلت برادری ہے۔ انڈیا میں ہندوؤں کے درمیان ذات پات کی درجہ بندی میں دلتوں کا شمار سب سے نیچی ذات میں ہوتا ہے۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک عام بات ہے لیکن ایک دلت خاتون ہونے کے ناطے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔

مایا انجینیئر بننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہی تھیں جب ایک اونچی ذات کے لڑکے نے ان کا پیچھا کرنا شروع کیا۔

جب مایا نے اس کی بات نہیں مانی تو اس نے غصے میں اپنی رگ کانٹ لی اور مایا سے انکار سننا قبول نہیں کیا اور آخرکار اس کا ریپ کر دیا۔

مایا بتاتی ہیں کہ ’وہ ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ میں نے کوشش کی لیکن میں اس کو روک نہیں سکی۔‘

مایا کے والدین نے پولیس میں شکایت درج کرانے میں ان کی مدد کی لیکن بعد میں برادری کے دباؤ میں آکر اپنی شکایت واپس لے لی اور ریپ کرنے والے شخص نے مایا سے شادی کر لی۔

ان کے اہلخانہ نے سوچا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو ریپ کا شکار ہونے کی معاشرتی بدنامی سے بچا لیا ہے۔ لیکن یہ شادی بہت مختلف تھی۔

مایا روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر کے گھر والے کہتے تھے کہ تم دلت ہو، ایک گندی نالی کی طرح ہو اور ہم تمھاری شکل سے بھی نفرت کرتے ہیں۔‘

منیشا

منیشا ریاست ہریانہ میں دلت خواتین کو قانونی معاملات سکھانا چاہتی ہیں

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’وہ شراب کے نشے میں ڈوبا ہوا گھر واپس آتا تھا، مجھے پولیس کیس کرنے کی وجہ سے گالیاں دیتا تھا، مارتا تھا اور میرے تمام منع کرنے پر مجھ سے غیر فطری جنسی عمل کرنے پر مجبور کرتا تھا۔‘

مایا کہتی ہیں انھوں نے کئی بار خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔

وہ اس وقت اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئيں جب ایک دن غلطی سے ان کے شوہر نے گھر کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔

انھیں اصل آزادی کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کی ملاقات منیشا مشال نامی ایک دلت وکیل اور سماجی کارکن سے ہوئی۔

منیشا ریاست ہریانہ میں دلت خواتین کے ساتھ ہونے والے ریپ کے معاملات کا جائزہ لے رہے تھے۔

منیشا کو اندازہ ہوا کہ ذات کی بنیاد پر ہونی والی تفریق اور خواتین کے جنسی استحصال کا خاتمہ کرنے والے قوانین غیر موثر ہیں کیونکہ متعدد ایسی دلت خواتین ہیں جنھیں اپنے وجود کا بھی اندازہ نہیں ہے۔

دلت خواتین کا استحصال کرنے والے ملزمان کا اکثر تعلق معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر طاقتور طبقوں سے ہوتا ہے۔

منیشا کا کہنا ہے کہ انتظامیہ، پولیس اور عدلیہ میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے جڑیں گہری ہیں۔ منیشا کا خیال ہے کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ دلت خواتین کو خود مختار بنایا جائے۔

انھوں نے مایا جیسی لڑکیوں کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدد کرنی شروع کی۔

مایا کے لیے یہ زندگی دوبارہ شروع کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔

انھوں نے اپنا ریپ کیس دوبارہ کھلوایا اور اس میں غیر فطری جنسی عمل کرنے پر مجبور کرنے کا الزام بھی شامل کردیا۔

مایا بتاتی ہیں کہ ’منیشا سے ملنے کے بعد ہی مجھ میں زندگی کی طرف مثبت رویہ اختیار کرنے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا اعتماد پیدا ہوا۔‘

’اس کے بعد میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ میں اپنے جیسی ان دلت خواتین کی لڑائی لڑ سکوں جنھیں میری طرح مظالم کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

مایا ان چھ ریپ متاثرین میں شامل ہیں جو منیشا کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

دلت خواتین

ان کے چھوٹے سے فلیٹ کا ماحول بہت پرخلوص ہے اور جہاں آپ کا کھل کر استقبال ہوتا ہے۔ یہاں رہنے والی لڑکیاں ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتی ہیں۔ یہاں کا ماحول اس خطرناک دنیا سے بہت مختلف ہے جسے وہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔

منیشا کا کہنا ہے کہ ’اونچی ذات کے لوگ دلت خواتین کو ایک بے جان چيز کی طرح سمجھتے جس کا جیسے چاہے استعمال کر لیں اور جب چاہیں چھوڑ دیں۔ اگر کوئی خاتون اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو ان کا قتل کر دیا جاتا ہے۔‘

منیشا کو لگاتار ملزمان کے خاندان والوں کی جانب سے تشدد کی دھمکی ملتی ہے لیکن وہ ان دھمکیوں سے نہیں ڈرتی ہیں۔

وہ دلت برادری کی ایک رہنما بن کر ابھری ہیں اور نوجوان لڑکیوں اور نظام انصاف کے درمیان ایک کڑی بن چکی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میری برداری کے لوگوں پر تشدد ہوتا ہے اور تشدد کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میں بھی مظلوم کی طرح زندگی گزاروں، میں ایک لیڈر کی طرح آخری دم تک لڑنا چاہتی ہوں۔‘

انڈین قانون کے تحت ہم نے اس تحریر میں ریپ کی شکار خواتین کے نام تبدیل کر دیے ہیں۔

اضافی رپورٹنگ، تیجس وید


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp