ادھورا عشق ادھوری داستان


نیلی کانچ آنکھیں اسے کبھی بھولی ہی نہیں تھی وہ بھول جانے والی نہیں تھی اسے وہ زبانی یاد تھی کسی آیات کی طرح ان کی دوستی سے محبت کا سفر چار سالوں پہ محیط تھا

ہاشم اور گیتی کی مائیں آپس میں کزن تھیں کسی تقریب میں وہ امی کے ساتھ گیا تو وہاں اس کی ملاقات خالدہ آنٹی سے ہوئی ان کے ساتھ نیلی کانچ آنکھوں والی گیتی بس وہ نیلا کانچ جیسے دل۔ میں کھب گیا گھر آ کے کتنی بار ہی امی سے آنٹی خالدہ اور گیتی کے بارے میں پوچھتا رہا امی نے بتایا یہ میری دور کی کزن ہیں زیادہ ملنا ملانا نہیں۔ رشتے دار بھی ان سے زیادہ نہیں ملتے

مگر کیوں امی؟
اب چھوڑو بھی۔ تم بھی جیسے ان کے پیچھے ہی پڑ گے ہو

امی بتائیں نا پلیز، تنگ آ کر امی نے بتایا کہ خالدہ نے محبت کی شادی کی۔ ماں باپ نے تو نکاح کے ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ ہمارا تمہارا اب کوئی رشتہ نہیں۔ اسی وجہ سے میکے والوں نے چھوڑ دیا بس سسرال والے ہی ملتے ہیں اور ہاشم تم اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہو؟ امی یہ کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کہ جس کی ایسی سزا دی جائے۔

اچھا اب دوبارہ ان کی کوئی بات نا کرنا بہنیں ہیں گھر میں ان کے کانوں میں نا کوئی بات چلی جائے۔ اس رات ہاشم سو نہیں سکا نیلی کانچ آنکھوں نے جیسے اپنے حصار میں لے لیا اس نے پہلی نظر کی محبت کے بارے سن رکھا تھا اس لگا جیسے اسے بھی گیتی سے محبت ہو گئی ہے اس نے کہیں پڑھا تھا محبت کے ڈھیر سارے روپ ہوتے ہیں۔

کبھی یہ ظالم لگتی ہے بڑی بے رحم سی بے مہر سی کبھی یہ دل پہ حکومت کرتی ہے کسی حکمران کی طرح کبھی خوشیوں کی ردا بن کے ساری زندگی کو اپنے اندر سمیٹ خوبصورت کر دیتی ہے تو کسی کی زندگی محبت کے چراغوں سے روشن ہو جاتی ہے کسی کی پر سکون زندگی میں سمندر کی طرح شور مچاتی لہروں کی طرح اس کا ہر روپ نرالا وہ بھی جیسے محبت کے سحر میں جکڑا گیا۔

جمیل درانی آفس سے واپسی پہ گاڑی کی طرف آتے نا معلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے اس اچانک موت نے جہاں صفیہ بیگم کی دنیا اجاڑ دی وہاں تینوں بیٹیوں اور ہاشم کو بھی صدمے نے نڈھال کر دیا۔ بڑا مشکل وقت تھا ان پہ ہاشم نے ہمت پکڑی اور ماں بہنوں کو اپنے پروں میں سمیٹ لیا آہستہ آہستہ سب کچھ معمول پہ آتا گیا بہنیں ہاشم سے چھوٹی تھیں۔ ان کو بھائی کی شادی کا ارمان ہونے لگا۔

امی بھائی کی شادی کریں نا ایک دن مریم نے فرمائش کر دی، ارے ایسے کیسے کر دوں۔ پہلے تم دونوں بہنوں کی شادی کر دوں پھر دیکھوں گی کئی بار تمہارے تایا ابو کہہ چکے ہیں۔ ہاشم آئے تو بات کرتی ہوں۔ یوں عافیہ سسرال سدھاری۔

ہاشم کئی بار گیتی کی ایک جھلک دیکھنے آنٹی خالدہ کی طرف گیا، اس دن ہسپتال میں اچانک وہی نیلی کانچ آنکھیں ہاشم کو نظر آ گئیں۔ گیتی تم یہاں؟ ہاشم امی کو لے کے آئی ہوں بی پی شوٹ کر گیا ہے نیلی جھیل میں گلابیاں تیرنے لگیں۔

گھبراو نہیں ٹھیک ہو جائیں گی تم بتاتی تو ہاشم نے گلہ کیا
میں بہت گھبرا گئی تھی آپ یہاں؟

دوست کی والدہ کو بلڈ دینے آیا تو تم پہ نظر پڑ گئی آنٹی۔ خالدہ سے ملنے کے بعد وہ گھر تو آ گیا مگر دل گیتی کے پاس ہی کہیں رہ گیا گیتی کو ہی شریک حیات کے طور پہ سوچتا کبھی سوچتا امی سے بات کروں پھر جھجک جاتا ایک دن عافیہ نے پھر سے امی سے فرمائش کی بھائی کی شادی کریں امی گھر بھابی آئے تو بہت رونق ہو جائے گی۔ نہیں ابھی نہیں پہلے تم لوگوں سے تو فارغ ہو جاؤں۔

ابھی تو مریم اور پھر فاطمہ وہ سوچتیں اور جب وہ ہاشم کی شادی کا سوچتیں تو وسوسوں میں گھر جاتیں آنے والی میرا بیٹا نا چھین لے شوہر تو سر پہ نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کیا کروں گی بس اس سے آگے نا سوچ پاتیں نہیں۔ میں اس کی شادی ابھی نہیں کروں گی کب؟ اس کا جواب وہ نہیں دے پاتیں۔ ہاشم آپ کب خالہ کو لے کے آئیں گے اب بھی دو رشتے آئے ہوئے ہیں۔ امی کا اصرار بڑھتا جا رہا ہے اور آپ کچھ بتاتے ہی نہیں دونوں ہی ایک کشتی کے سوار تھے میں آج بات کرتا ہوں تم فکر نا کرو تم بس میری ہو گیتی۔

گھر میں آج بھی بہنوں نے بھائی کی شادی کا ذکر چھیڑا عافیہ آئی ہوئی تھی کھانے سے فارغ ہوئے تو عافیہ کہنے لگی امی میری جیٹھانی کی بہن ہے بہت پیاری وہ بھائی کے رشتے کا کہہ رہی ہیں۔

ہاشم کو جیسے موقع مل گیا نہیں۔ مجھے کوئی اور پسند ہے، کون ہے وہ بھائی فاطمہ نے پوچھا بولیں نا بھائی اب مریم خوشی سے بولی۔ امی جیسے چونک گئیں۔ وہ گیتی ہے ہاشم بولا امی مجھے گیتی پسند ہے۔

لیکن ابھی نہیں امی آہستہ سے بولیں۔ ابھی دو بیٹھی ہیں پہلے تم دونوں کی شادی پھر ہاشم کا سوچوں گی۔ عافیہ بولی لیکن امی بھائی ہم تینوں سے بڑے ہیں۔ ان کی شادی کریں۔ فاطمہ چہکی اب چپ ہو جاو، امی بیزاری سے بولیں۔ پھر جلدی ہی مریم کی جھٹ منگنی اور پٹ شادی والا معاملہ ہو گیا۔

ہاشم نے آنٹی خالدہ کو بھی بلایا لیکن امی کو یہ بات پسند نہیں آئی لیکن خاموش رہیں۔ اب تو رشتے دار بھی کہنے لگے ہاشم کی شادی کر دیں۔ مگر اب بات فاطمہ پہ اٹک گئی آج بھی تینوں بہنوں۔ نے سوچا امی کو بھائی کی شادی کا منا کے ہی دم لیں گے انھیں بھی بھائی کی پسند عزیز تھی۔

امی بھائی کی منگنی کر دیں بھائی اداس رہتے ہیں۔ ہم تینوں سے بڑے ہیں۔ پلیز امی۔ آپ ذرا سوچیں نا اس بارے۔ امی کو ہاں کرتے ہی بنی اچھا چلتے ہیں کسی دن خالدہ کی طرف اور یوں گھر کا ماحول ایک دم خوشگوار ہو گیا منگنی اعلان تھا اب گیتی ہاشم کی ہے ان کی تو جیسے دنیا آ باد ہو گئی امی نے شادی کی بات نہیں چھیڑی۔

تیسری بیٹی کی شادی کے بعد جیسے وہ مطمئن ہو گیں اور ایک رات ایسا سوئیں کے اولاد کے آنسو بھی ان کو جگا نا سکے تایا ابو نے کہا کہ اب ہاشم کی شادی کر دینی چاہیے مگر بہنوں نے واویلا مچا دیا، ابھی تو امی کا انتقال ہوا ہے تایا ابو کچھ عرصہ تو گزرنے دیں۔ یوں بات پھر رک گئی ابھی امی کو گزرے تین ماہ ہوئے تھے کہ فاطمہ کے میاں اچانک دل کے دورے سے چل بسے اور یوں۔ فاطمہ بھائی کے گھر ہمیشہ کے لیے واپس آ گئی

آج آنٹی خالدہ کا فون آیا تھا ہاشم کو پوچھ رہی تھیں
اب کیا ارادہ ہے ہاشم؟
ابھی کچھ سوچا نہیں اتنے صدموں نے نڈھال کر دیا ہے
لیکن بیٹا میں اور کتنا انتظار کروں۔ میری طبیعت بھی بہت خراب رہتی ہے تم جلدی کا کچھ سوچو

ہاشم نے کچھ نا سوچا گیتی نے بھی سوچنے کا کہا ہاشم نے کہا میری بہن بیوہ ہو گئی ہے میں ابھی شادی نہیں کر سکتا۔ گیتی کی ماں کے اگلے فون پہ ہاشم نے رشتے سے ہی جواب دے دیا۔ نیلی آنکھوں میں آنسو بھر دیے اور کچھ عرصہ بعد گیتی بیاہ کے پردیس بھی چلی گئی اپنی زندگی سے گیتی کو نکال کے ہاشم اندر سے مر ہی گیا اور زندگی گزار تا رہا گیتی کو یاد کر کے۔

آج پندرہ سال بعد اس نے گیتی کو دیکھا وہ ہی نیلی کانچ آنکھیں ہمراہ دو بیٹے جن کی نیلی آنکھیں۔ اس کے بیٹے ہونے کی گواہی دے رہیں تھیں۔ دونوں نے ہی ایک دوسرے کو دیکھا گیتی بچوں کا ہاتھ تھامے گاڑی کی طرف بڑھ گئی اور ہاشم کی آنکھوں میں پندرہ سال سے رکے ہوئے آنسو بہے نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).