مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی ہمارے درمیان نہیں رہے



یقین نہیں ہو رہا ہے کہ حکیم امت مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے!

بیشک ابھی وہ مرے نہیں ہیں۔ کیونکہ موت اسے آتی ہے جس کے علمی آثار باقی نہ ہوں۔ عالم کبھی مردہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے ۔ اس کے علمی آثار، سماجی و مذہبی خدمات، اصلاحی کوششیں اور جذبۂ ایثارہمیشہ ہمارے درمیان اس کی شخصیت کو زندہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے علمی و ثقافتی آثار ہمارے درمیان اپنی پوری تابناکی کے ساتھ موجود ہیں۔ جب تک ان کے خدمات اور آثار زندہ ہیں، سجھئے ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کے مشن کو مزید ترقی دینا ہی انہیں اصل خراج ہے۔

تقریباً تین سال تک ڈاکٹر صاحب بستر علالت پر رہے مگر ہمیشہ یہ محسوس ہوتارہا کہ ان کا سایۂ عطوفت ابھی ہمارے سروں پر موجود ہے۔ ان کے وجود کی گرمی کا احساس ہوتا رہا۔ جب بھی ان کی کوئی تصویر وائرل ہوتی تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اب بھی قوم کو تعلیم اور بہتر اقتصاد کی طرف دعوت دے رہے ہوں۔

سادگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ تصنع انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے۔ مجمع عام میں ہوں یا مخصوص افراد کے درمیان، ہمیشہ بذلہ سنجی کا مظاہرہ فرماتے۔ باتیں کرتے تو لگتا کہ جیسے دہن سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ تقریر فرماتے تو سائنس مذہب کے لبادے میں نظر آتی۔ سادہ بیانی میں بھی ہزار ہا معانی پوشیدہ ہوتے۔ وہ منبر سے مفت جنت نہیں بیچتے تھے بلکہ دعوت عمل دیتے۔ انداز خطیبانہ نہیں تھا مگر مفکرانہ ضرور ہوتا تھا۔

اہم اور ضروری باتیں بہت سادہ انداز میں کہہ کر گزر جاتے۔ ان کے ناقدین بھی کم نہیں تھے۔ مگر ناقدین کس کے نہیں ہوتے۔ نظریہ ساز افراد ہمیشہ مخالفین اور ناقدین سے گھرے رہتے ہیں۔ تنقید پر کبھی چراغ پا نہیں ہوئے۔ کسی مسئلے پر مخالفانہ آوازیں اٹھتی تو گوشۂ عذلت اختیار کرتے۔ جواب دینا ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ وہ بس بیباکی کے ساتھ اپنا موقف رکھتے۔ خواہ کسی کو برا لگے یا بھلا۔

ان کی تقریریں عام طور پر مولوی ملاؤں کے خلاف ہوتیں۔ جبکہ وہ خود مدرسے کے فارغ تھے۔ شیروانی زیب تن ہوتی، سر پر مخصوص انداز میں سفید ٹوپی اوڑھتے، نام کے آگے ’مولانا‘ لکھا جاتا۔ تو پھر وہ مولوی ملاؤں کے خلاف کیوں تھے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرور ت نہیں ہے کیونکہ ہم سب بہتر طور پر جواب سے واقف ہیں۔ وہ علمائے حق کے خلاف نہیں تھے۔ علمائے سو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ مدرسوں کے خلاف نہیں تھے مگر مدارس کے موجودہ موروثی نظام اور انحطاط پذیر تعلیمی سسٹم سے انہیں بیر تھا۔

مذہب میں کٹر نظریات کے حامی نہیں تھے۔ وہ علماء کو جدید نظام تعلیم اور نئی سوچ سے مزین دیکھنا چاہتے تھے۔ منبروں سے اختلافی اور نزاعی موضوعات کو دہرانے کے حامی نہیں تھے۔ ان کا پیغام اپنے آباء اجداد کی طرح وحدت پر مبنی ہوتا۔ شیعہ و سنی کو ایک نگاہ سے دیکھتے تھے۔ علمائے ایران کے ساتھ متعدد بار اہلسنت والجماعت کی مسجدوں میں ان کے امام کی اقتدا میں نماز پڑھ کر پیغام اتحاد دیا۔ کئی بار یہ شرف مجھے بھی حاصل ہوا اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اہلسنت والجماعت کی اقتدامیں نماز جمعہ ادا کی۔

کئی پروگراموں اور کانفرنسوں میں انہیں سنا اور ہماری دعوت پر وہ متعدد پروگراموں میں خلوص کے ساتھ شریک بھی ہوئے۔ کبھی کوئی مطالبہ نہیں! ظاہرداری نہیں، نمود و نمائش نہیں۔ ہمیشہ بے تکلفی کا مظاہرہ فرماتے۔ لکھنؤ میں ’وحدت اسلامی کانفرنس‘ منعقد ہوئی تو میں ہر جگہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہا۔ ایرانی مہمانوں کے ساتھ ندوۃ العلماء گئے تو ان کی تعظیم و تکریم دیکھنے میں آئی۔ مولانا رابع حسنی ندوی کی موجودگی میں مختلف اہلسنت علماء ایرانی علماء کے ساتھ مناظرہ فرماتے رہے اور ڈاکٹر صاحب الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف رہے۔

ہندوستان میں ان کی شناخت ایک اسکالر اور مفکر کی تھی۔ بین مذاہب پروگراموں میں شیعہ مسلک کی نمائندگی فرماتے۔ ملک و بیرون ملک مختلف کانفرنسوں میں شریک ہو کر شیعہ مکتب فکر کو متعارف کروایا۔ ہمیشہ اتحاد کا پیغام دیا۔ گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ہمیشہ فرماتے ”نہ شیعہ سنیوں کے دشمن ہیں اور نہ سنی شیعوں کے، بلکہ ہماری اصل دشمن جہالت ہے“ ۔ انہی جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو دورکرنے کی وہ تاعمر کوشش کرتے رہے۔

لکھنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر ممکن نہیں ہے! ابھی بھی یہ محسوس ہوتاہے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب اپنی تعریف پر اظہار ناراضگی نہ کریں۔ ان کی شخصیت کا ہر دل آویز پہلو نظروں کے سامنے گردش کر رہا ہے۔ ایک شفیق، ہمدرد قوم، منادی تعلیم، نقیب اتحاد اور گران قدر علمی سرمایہ ہمارے درمیان نہیں رہا۔ ان کے کھوجانے کا دکھ سبھی کو ہے۔ ان کا بدل ممکن نہیں! ایسے گوہر آبدار بار بار پیدا نہیں ہوتے۔

بقول میرؔ
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں

یقیناً بعض افراد کو ڈاکٹر صاحب کے نظریات سے اختلاف رہا ہوگا۔ ہمارے بھی اپنے تحفظات ہیں۔ مگر یہ مسلم حقیقت ہے کہ ان کی ذات اختلافی نہیں تھی۔ نظریاتی اختلاف تو ہونا بھی چاہیے۔ اس حقیقت سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انہوں نے ملت کے لئے دردمندی کے ساتھ کام کیا تھا۔ اپنی کوششوں میں وہ کامیاب بھی تھے۔ سو فیصد کامیابی تو کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی مگر جتنا کام انہوں نے کیا تھا بعض افراد وسائل و ذرائع ہوتے ہوئے بھی نہیں کرپاتے۔

اب جبکہ ڈاکٹر صاحب مالک کی بارگاہ میں ہیں، ان کے مشن کو زندہ رکھنا اور اسے فروغ دیتے رہنا ہی انہیں سچا خراج عقیدت اوربہترین ایصا ل ثواب ہے۔ خدا مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).