دکھ کا اک اور باب


جب کفن سازوں کا کاروبار ترقی پذیر ہو، گور کن روزانہ مرغ مسلم کھاتے ہوں، جنازگاہیں آباد ہونے لگ جائیں، سمجھ لیجیے قوم کے افراد سے پہلے قوم کا ضمیر مر چکا ہے۔ جان جائیے کہ حکمران حکومت کے سوا سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ مان لیجیے کہ معاشرے سے رحم کی صفت ختم ہو چلی ہے۔ سمجھ جائیے کہ برکات اٹھنے لگی ہیں۔ اور اس سب کا سبب ملت کے افراد ہیں۔

یہی دیکھ لیجیے۔ کشمیر سے برآمد ہونے والا دریائے سندھ ہر نگر خون دکھاتا گزر رہا ہے۔ مگر یہ دنیا داری کہ ہمارے ہاں اس پر آواز اٹھانا بھی مشکل نظر آنے لگا ہے۔ فرانس کے مسلمان بچوں کے ساتھ ہٹلر کے سے سلوک کی دہائی دیتیں وزیر صاحبہ کے بالوں میں ہر رنگ نظر آتا ہے، مگر کشمیر کا رنگ انہیں پسند نہیں۔ فرانس معافی کا مطالبہ کر سکتا ہے، ہم فرانس سے معافی کے مطالبہ گروں کا مطالبہ بھی چھپاتے پھرتے ہیں۔

بے رحمی اور سفاکیت کی سرایت دیکھیے کہ نواز شریف صاحب کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں تو ہر طرف سے پیغامات پھوٹنے لگے کہ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں، اللہ محترمہ کو مغفرت سے ہمکنار فرمائے۔ والدہ ماجدہ کے انتقال پر جتنا رنج ظاہر کیا جائے کم ہے۔ مگر افسوس اس بات پر بھی ہے کہ نا جانے محترمہ کے اپنے بیٹے محترمہ کو لحد تک چھوڑنے جا سکیں گے یا نہیں۔ بوقت تحریر اس بات پر فیصلہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ کس قدر نا تواں ہے انسان۔ محترم اور مرحوم میاں شریف صاحب کے خاندان کی دولت کئی براعظموں تک پھیل چکی ہے۔ جناب کی آل کا دنیا جہاں میں طوطی بولتا ہے۔ مگر جناب کی مرحومہ زوجہ کے آخری سفر کی مندرجات کا تعین بھی ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف رضوی صاحب کا جنازہ کہ جس سے کیمرہ بھی آنکھیں چرانے سے قاصر رہا۔ زندہ تھے تو حکومت زور لگاتی رہی، کہیں ان کا بیان نشر ہو گیا تو مغرب ہمیں بھیک دینا بند نہ کردے۔ مر گئے تو حکومت کو ڈر لگنے لگا کہیں مغرب کے خلاف بولنے والے ہمارے خلاف نہ کھڑے ہو جائیں۔ سرکاری ٹی وی سے لے کر سرکاری وزیروں تک، سب نے آپ کو خراج عقیدت چھپ چھپ کر پیش کرنا شروع کر دیا۔

پھر ہمارے انٹرنیٹ پر طوفانی شعلہ بیانی کرنے والے نوجوانوں سے ہم بال ٹھاکرے کی آخری رسومات کا ذکر بھی سن رہے ہیں۔ اپنے حصے کے صحیح کو صحیح بتانے والے اور ہمارے صحیح کو غلط کہنے والے سوال پوچھ رہے ہیں کہ جنازوں کی تعداد صحیح یا غلط کا تعین کیسے کر سکتی ہے؟

بابا ہم نے کب کہا جنازوں کا سائز صحیح اور غلط کا تعین کرتا ہے؟ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہاں تعداد ان کی ہے جو خود کو محمد ﷺ کا غلام کہتے ہیں، وہاں تعداد ان کی ہے جو ان غلاموں کو زندہ گاڑ دینا چاہتے ہیں۔ آپ اپنا قبلہ جدھر بھی کر لیجیے، آپ کو حق حاصل۔ فقط اس منافقت کو چھوڑ دیجئے کہ گستاخ کی پہرہ داری بھی کریں اور خود کو اسلام کا علمبردار بھی بتائیں۔

سلیم گلاسوں والا یاد آ گیا۔ شیشے کے گلاس بیچتا تھا۔ کہتا تھا باؤ جی، میرے گلاس ٹوٹتے نہیں، بس انہیں زمین پر مت پھینکئے گا۔ ہم ہر بار سوال کرتے، سلیم میاں، اگر گلاس کی مضبوطی چیک کرنی ہے، زمین پر تو پھینکنا ہی پڑے گا۔ یہی فطرت کا قانون ہے۔ جو شخص بھی اعلان کرے گا کہ وہ ٹوٹتا نہیں، یونیورس اسے زمین پر پٹخ ڈالے گا، پرکھے گا، کہ واقعی یہ ٹوٹتا ہے یا نہیں۔ جب ایک بار گرنے سے نہیں ٹوٹے گا، دوبارہ گرایا جائے گا، پھر بھی نہ ٹوٹا تو پھر سے گرایا جائے گا، یہاں تک کہ یونیورس خود اس کی مضبوطی کی گواہی دے گا۔ پھر کائنات کا ہر ذرہ اس کے کہنے میں آ جائے گا۔ جیسے کوئی بدکا ہوا گھوڑا کسی کے سدھانے میں آ جاتا ہے۔ جدھر جی چاہا موڑ دیا۔ جہاں ٹھیک لگا، روک دیا۔

خیر، افراد ملت سے اور ملت افراد سے ہے۔ یہ صرف اقبالی فارمولے کی بات نہیں، آپ سب کی محبوب مغربی تہذیب کا بھی یہی ماننا ہے۔ لہٰذا ملک میں اگر واقعی تبدیلی لانی ہے، حالات کا رخ واقعتاً موڑنا ہے، تو مجموعی ضمیر کو جگانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اور یہ کام فقط قوم کے معمار، یعنی اساتذہ کر سکتے ہیں۔ یہاں اساتذہ سے مراد سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں نوکریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ اساتذہ سے مراد سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں موجود مٹھی بھر تربیت سازوں کے ساتھ ساتھ ادبا اور لکھاری بھی ہیں کہ جن کا قلم تاریخ کا ریکارڈ رکھنے کے بجائے معاشرے کی روح کا عکس ہوتا ہے۔

یہ انتہائی جھوٹ نہ سہی تو شدید ادھورا سچ ضرور ہے کہ قومیں تاریخ سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں۔ درحقیقت تاریخ واقعات کے ریکارڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی میں گزری قوموں کے شعور اور ان کی روح کی اصل عکاسی ان کے ادوار کے لکھاریوں کی تحریروں میں ملتی ہے۔

چین نے ایک طویل مدت بجائے اپنی تاریخ کی ملمع سازی کرنے کے، اس بات پر زور لگایا کہ ہر کہانی، ہر فلم، ہر ناول کا ہیرو کسان یا مزدور دکھایا جائے، ہیروئن پورے کپڑوں میں ہو، اور فحش لباس میں صرف طوائف ہو، ویلن کے کردار میں صرف سرمایہ دار۔ یوں زبردستی ہی سہی، چین نے قوم میں نشہ اور عیاشی چھوڑ کر محنت کا خمیر بھرا، ضمیر جگایا، روح زندہ کی۔

دوسری طرف ہمارے لکھاری ہیں کہ کامیاب اسے دکھایا جاتا ہے جسے کام نہیں کرنا پڑتا۔ ہیروئن وہ ہے جو مشرقی اقدار سے باغی ہو۔ ویلن یا تو مزدور ہے، یا کوئی محنت کش کہ جو محنت کر کے حلال روزی کماتا ہے، اور بچوں کو حرام سے زبردستی روکتا ہے۔ نتیجہ دیکھیے، قوم کے بچے اور تعلیمی اداروں کے نوکر تعلیمی ادارے بند ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔

ہمیں نوکروں کی نہیں، علم سازوں کی ضرورت ہے۔ جو سچ کہنے کی ہمت رکھتے ہوں۔ تا کہ معاشرے کو معاشرے کا گندا چہرہ دکھا کر اسے دھونے کی ترغیب دلا سکیں۔ حکومت اور حقیقی حکومت کو چاہیے کہ تاریخ کا چہرہ زبردستی بدلنے کے بجائے قوم کو قوم کا چہرہ دکھانے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ورنہ کفن ساز اور گور کن آباد رہیں گے، اور قوم ہماری برباد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).