عیسائی نوجوان روزگار کے لئے شراب بیچنے پر مجبور ہیں


عیسائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان پیسہ کمانے کے آسان متبادل کے طور پر شراب کے غیرقانونی کاروبار کا رخ کر رہے ہیں۔ معاشی مواقع کی عدم دستیابی نے عیسائی نوجوانوں کو اس خفیہ غیرقانونی کاروبار کے لئے مجبور کر دیا ہے۔

1979 کے حدود آرڈیننس نے پاکستان میں مسلمانوں کو شراب کی فروخت غیرقانونی قرار دیا۔ اسی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا کہ شراب کی لائسنس یافتہ تجارت غیر مسلم برادریوں کے ممبروں کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عیسائی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شراب کے اجازت نامے کیوں رکھتی ہے۔ اکثر اوقات، شراب کی اس تجارت میں عیسائی نوجوانوں کی شمولیت اس تفریق اور مایوسی کا نتیجہ ہے جن کا سامنا انہیں باعزت ذریعہ معاش کے مواقع کے حصول کے دوران کرنا پڑتا ہے۔

66 کوارٹرز اسلام آباد (ایک مسیحی بستی) میں اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے جانا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے ان کے لئے پیشہ ورانہ ترقی کے امکانات کم ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں بھی اقلیتوں کا کوٹہ کافی کم ہے اور عام طور پر ملازمت دینے والے مسلم امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں، اور تعلیم یافتہ عیسائی برادری کے پاس سوائے احساس محرومی کے کچھ نہیں رہتا۔ نتیجتاً عیسائی نوجوانوں کی ایک تعداد متبادل ذریعہ آمدنی کے لئے غیرقانونی ذرائع کا رخ کرتے ہیں۔

پاکستان میں شراب کے استعمال اور خریداری تک رسائی آسان نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے اور اس ممانعت کے بعد ایک واضح قانونی رکاوٹ موجود ہے۔ بہرحال، پاکستانی عیسائیوں کو شراب نوشی کی اجازت ہے جس کے لئے انہیں حکومت کا جاری کردہ لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ شراب کی مارکیٹ تک رسائی رکھنے کرنے والے کچھ نوجوان مسیحی اپنے اجازت ناموں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے غیر مسیحی واقف کاروں کے لئے شراب خریدتے ہیں۔

یہ خریدار شراب کے لئے بھاری قیمت ادا کرنے کو تیارہوتے ہیں، تاہم، غیر قانونی طور پر شراب خریدنے اور فروخت کرنے پر دونوں فریقوں کو جیل ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ان نوجوانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے جیل سے باہر نکلنے کے امکانات (پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کی صورت میں) ان کے خریداروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو زیادہ تر امیر ہیں اور وسائل رکھتے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیوں اس طرح کا خطرہ مول لینے اور سخت نتائج کا سامنا کرنے کو تیار ہیں، ایک نوجوان لڑکے نے اپنا نام ظاہر نہ ہونے کی شرط جواب دیا، ”ہم صرف روزی کمانا چاہتے ہیں“۔

اسلام آباد کے رہائشی اکرم مسیح کو کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا تھا۔ ”انٹرمیڈیٹ کے بعد میں نے نوکری تلاش کرنا شروع کردی۔ لیکن برسوں کی کوشش کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا“ ۔

انہوں نے کہا کہ ان کے لئے تعلیم جاری رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ ان کے والد کے پاس فیس ادا کرنے کے لئے اتنے وسائل نہیں تھے۔ ”میں نے اپنی ڈگری مکمل کرنے کے لئے بہت محنت کی“، اکرم بتاتے ہیں۔ ان کی پہلی ملازمت کی تنخواہ ماہانہ دس ہزار تھی جو کہ ایک چھ افراد کے کنبے کے لئے ناکافی تھی۔ ملازمت کے لئے اکرم کی تلاش چلتی رہی۔ در حقیقت وہ اب بھی اپنی تعلیم جاری رکھنے اور پیشہ ورانہ ڈگری حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

”میری بہنوں کی عمر شادی کی ہو چکی تھی اور وہ شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن میرے والدین معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی شادی نہیں کر سکتے تھے۔ اس بے بسی نے مجھے کمائی کے غیرقانونی طریقے اپنانے پر مجبور کیا حالانکہ میں اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا“، انہوں نے مزید بتایا۔

اکرم کے دوست نے کچھ پیسے کمانے کے لئے اسے اپنی طرف سے گاہکوں کو شراب فروخت کرنے کے بدلے میں رقم کی پیش کش کی۔ انہوں نے فوراً حامی بھرلی۔ چند ہفتوں کے اندر اکرم کے پاس براہ راست گاہک سپلائی کے لئے پہنچنے لگے کیونکہ وہ معیاری اور اصل شراب فراہم کرنے کی وجہ سے مشہور ہو چکا تھا۔

”تھوڑے عرصے میں ہی، میں نے اچھی خاصی کمائی شروع کردی۔ میرے گھر والوں، دوستوں اور جاننے والوں کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور ساری رقم کہاں سے آ رہی ہے“ ، اکرم نے کہا۔ بہت سے بوٹ لیگرز کا دعوی ہے کہ شراب کے کاروبار میں ملوث ہونے سے متعلق وہ اپنے کنبے کو خبر نہیں ہونے دیتے۔

”اس دوران، میں مسلسل نوکری کی تلاش میں بھی تھا، کیوں کہ میں اس کام سے جڑی بدنامی کی وجہ سے اس کو جاری رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میں اپنی کمائی میں اضافہ دیکھ کر خوشی محسوس کرتا تھا لیکن دل کی گہرائیوں سے میں نے اس کے غیر قانونی کردار سے عدم اطمینان کا شکار تھا“، اکرم نے بتایا۔

آنکھوں میں خوشی کی چمک کے ساتھ، اکرم نے بتایا کہ آخر کار انہیں اس پوزیشن کے لئے انٹرویو کال موصول ہوئی جس کے لئے انہوں نے درخواست دی تھی۔ ”آخرکار امید کی ایک کرن، میں بہت خوش تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک سرکاری ادارے میں جس عہدے کے لئے میں نے درخواست دی تھی اس میں شارٹ لسٹ کیا گیا تھا“ ، اکرم بتاتے ہیں۔ یہ ایک بہترین موقع تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ ”میں نے فوری طور پر بوٹ لیگنگ چھوڑنے اور نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا“ ۔

اکرم مسیح کا کیس منفرد ہے کیونکہ شراب کے غیرقانونی کاروبار میں ملوث مسیحی جوان خطرات کے باوجود اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اکرم نے بتایا کہ ان کی موجودہ آمدنی تھوڑی کم ہے جو وہ شراب فروخت کر کے کمایا کرتے تھے تاہم وہ اپنے کام سے خوش اور مطمئن ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بیشتر مسیحی میٹرک بھی پاس نہیں کر سکے ہیں۔ بنیادی تعلیم اور تکنیکی جانکاری کے بغیر وہ ظاہر ہے اچھی ملازمتیں حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ کمیونٹی میں ان جیسے سیکڑوں لڑکے ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشش کی، لیکن معاشی مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کاروبار میں لگ گئے ہیں۔ امتیازی سلوک نے معقول زندگی گزارنے کی ان کی امیدوں کو گہنا دیا ہے۔ ”اگر ہمیں نظام میں شامل ہونا دیا جائے تو ہم غیرقانونی کاموں (جیسے بوٹ لیگنگ) میں ملوث ہونا نہیں چاہیں گے“، 66 کوارٹرز میں میرے ایک اور دوست نے کہا۔

اسلام آباد میں اسی کچی آبادی کے ایک اور رہائشی نے شراب بیچنا شروع کیا تاکہ وہ اپنے کنبے کی روزمرہ کی مالی ضروریات پوری کر سکے۔ ان کے والد کی کمائی پانچ بچوں کے کنبے کی پرورش کے لئے ناکافی تھی۔ ”میں میٹرک کا طالب علم تھا جب مجھے احساس ہوا کہ مجھے خاندانی آمدنی میں اضافے کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ پڑھائی میں میری دلچسپی کم ہوتی چلی گئی“، ارشد نے اعتراف کیا۔ انہوں نے ایک معقول نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بغیر تجربہ اور نامکمل تعلیم کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہے۔

”ناچاہتے ہوئے میں نے منشیات اور شراب فروخت کرنا شروع کردی، لیکن میرے والدین اس بارے میں لاعلم رہے۔ میں نے ایک سال تک بوٹ لیگنگ کا کاروبار جاری رکھا اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ“ میں اس ڈر سے انہیں کمائی کا ایک حصہ نہیں دیتا تھا کہ کہیں وہ میرے ذریعہ آمدن کا اندازہ نہ لگا لیں۔ ”

در حقیقت زیادہ پیسے آنے سے میں زیادہ شراب پینے لگا۔ جوا کھیلنا اور دیگر برے کاموں میں ملوث ہونا میری صحبت اور خفیہ شراب کے کاروبار کا نتیجہ تھا۔ جیسے جیسے ارشد اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے گئے ان کا لہجہ جذباتی ہوتا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن ان کے والد کو اس کام کا پتا چل گیا۔ ”وہ اس قدر غصے میں تھے کہ مجھے گھر سے نکال دیا۔“ وہ رات میں نے فٹ پاتھ پر گزاری اپنی زندگی پر غور کیا۔ اس رات میرے اندر بہت کچھ بدل گیا۔

”میں نے اس کاروبار سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اگلی صبح اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آ گیا“ ۔ ارشد نے اپنے گھر والوں سے معافی مانگی اور یوں ان کی زندگی کا یہ باب بند ہو گیا۔

انہوں نے فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کے ساتھ ساتھ ساؤنڈ سسٹم کو چلانے کا طریقہ سیکھنا شروع کیا۔ ”مجھے ایک ایونٹ کے سو روپے ملتے تھے کیونکہ میں ابھی سیکھ رہا تھا۔ یہ بہت کم رقم تھی بلکہ نا ہونے کے برابر تھی۔ لیکن میری زندگی میں سکون تھا میرے گھر والے مجھ سے خوش تھے۔ میرا ان سب لوگوں کو جو منشیات / الکحل بیچنے کے کاروبار میں آتے ہیں یہ پیغام ہے کہ یہ خوفناک احساس پیچھا نہیں چھوڑتا۔“

ارشد نے بتایا کہ ان کے کچھ دوست اب بھی یقین نہیں کرتے کہ وہ یہ کام چھوڑ چکے ہیں اور اکثر شراب کی بوتل مانگتے ہیں ”میں ان کی بات مذاق میں ٹال دیتا ہوں“۔

اگر روایتی تصور سے آگے دیکھیں تو ہمیں شراب کے کاروبار میں ملوث بہت سے کیسز مسلم اکثریت سے ملیں گے۔ اس غیر قانونی کاروبار میں آنے کے لئے ہر فرد کی اپنی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صرف مسیحی برادری سے تعلق نہیں رکھتا۔

”ان افراد کا سلسلہ جن کے ذریعہ میں شراب خرید اور بیچ سکتا ہوں وہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہ غیر قانونی ہے اور ہر کوئی رقم کا مطالبہ کرتا ہے“، ایک مسلمان بوٹ لیگر نے انکشاف کیا جو ایک دو سال سے اس کاروبار میں ہے۔

ہمارے ملک میں جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ نوجوانوں کے لئے پیداواری سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ پیشہ ورانہ تربیت کے اقدامات سے مسیحی نوجوانوں کو اپنے کیریئر کو شروع کرنے میں بھی مدد ملے گی، اور وہ بوٹلیگنگ جیسے کاروبار کا سہارا نہیں لیں گے۔

*شناخت محفوظ رکھنے کے لئے نام تبدیل کردیے گئے ہیں

یہ بلاگ روادار نے تیار کیا ہے۔ یہ ایک بلاگ سیریز ہے جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی کہانیاں پیش کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).