”کاون“ جا رہا ہے


کاون کا آبائی وطن سری لنکا ہے۔ 1985 میں صدر پاکستان ضیاءالحق اپنی فیملی کی ہمراہ سری لنکا گئے تھے۔ جہاں سری لنکا حکومت نے جنرل ضیاء الحق کی بیٹی زین ضیا ء الحق کو تحفے میں کاون دیا تھا۔ کاون جب پاکستان آیا تو اس کی عمر ایک برس تھی۔ کاون پچھلے 35 سالوں سے چڑیا گھر میں آنے والوں کو تفریح مہیا کر رہا ہے، 2012 میں کاون کی مادہ انتقال کر گئی تھی، کاون اکیلا رہ گیا تھا، کاون پچھلے 8 برسوں سے قید تنہائی کاٹ رہا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ کاون کو ان کی قدرتی ماحول میں بھیجا جائے چنانچہ اسی فیصلے کے تناظر مین کاون کو کمبوڈیا بھیجا جا رہا ہے۔

کاون اب جا رہا ہے۔ اپنے آبائی وطن نہیں ایک اور اجنبی سرزمین پر جہاں اس کے ہم جنس اس کی آمد کے منتظر ہیں، کمبوڈیا جانے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، الوداعی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے، گزشتہ روز صدر پاکستان جناب عارف علوی نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کاون کی الوداعی تقریب میں شرکت کی۔ گرد نواح سے خواتین اور بچے بھی کاون کو آخری بار دیکھنے کے لیے جوک در جوک آرہے ہیں۔ چڑیا گھر کی فضا سوگوار ہے۔ بندر، مور، زرافے، شیر کو پتہ چل گیا ہے کہ کاون جا رہا ہے، اجنبی دیس کی اجنبی فضاوں میں، جہاں سے وہ اب کبھی نہیں آئے گا، چڑیا گھر کی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

چاروں جانب سکوت مرگ طاری ہے۔ کاون کے نگران کاون کو دیکھتے ہیں تو 35 برسوں کے شب و روز تصویریں بن کر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ، کاون نے جب پہلی بار چڑیا گھر میں قدم رکھا تھا تو اس وقت وہ کتنا ڈرا ہوا تھا، سہما ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی لہریں موجزن تھیں، وہ پہلی بار اپنی ماں سے اپنے خاندان سے، اپنے دوستوں سے بچھڑا تھا نا۔ چڑیا گھر کے درو دیوار اس کے لیے نئے تھے، وہ سرسبز جزیروں سے آیا تھا، اینٹ گارے اور ٹین سے بنے چھپر تلے، جہاں سبزے کا سبز بچھونا بھی نہیں تھا، کوئی ہم نوالہ ہم پیالہ بھی نہیں تھا، یاروں کے غول بھی نہیں تھے، دشمنوں کا دھڑکا بھی نہیں تھا۔

چند مرلوں پر مشتمل ایک میدان تھا، جس کے گرد آہنی جنگلا تھا یہ ہی کاون کی کل دنیا تھی۔ پھر آہستہ آہستہ کاون نے تسلیم کر لیا کہ یہی اینٹ گارے اور ٹین کا چھپڑ اس کا مسکن ہے، وہ یہاں ہنسی خوشی رہنے لگا۔ وہ اپنے پروں جیسے کانوں کو جنبش دیتا، سونڈ عمودی، افقی، زاویوں میں حرکت دیتا چڑیا گھر میں ٹہلتا، چنگھاڑتا، اٹکھیلیاں کرتا اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے لگا۔ بچے کاون کو دیکھتے تھے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے۔

وہ چنگھاڑتا تھا تو شیر اس کی چنگھاڑ کا جواب دھاڑ کر دیتا تھا، گھوڑے ہنہناتے تھے تو مور رقص کرتے تھے۔ یوں جنگل میں منگل ہو جاتا تھا۔ لیکن جب سے اعلان ہوا ہے کہ کاون جا رہا ہے اجنبی دیس کے اجنبی فضاوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ تب سے مرغزار میں، ایک گہری خاموشی ہے ایک جان لیوا خاموشی۔ کاون چلا جائے گا کمبوڈیا کے گھنے جنگلوں میں جہاں سب کچھ ہوگا جو وہ چاہتا ہے، سبزہ بھی، اس کے ہم جنس بھی، ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی، دوڑنے بھاگنے کے لیے وسیع رقبہ بھی۔

لیکن وہ بچے نہیں ہوں گے جو کاون کو دیکھ کر تالیاں بجاتے تھے۔ وہ نگران نہیں ہو گا جو کاون کی پیٹھ پر پیار سے تھپکی دیتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھیوں کی یاداشت بہت اچھی ہوتی ہے۔ کمبوڈیا کا وسیع و عریض جنگل جب کاون کا مسکن بن جائے گا تو کسی سرمئی شام، سرد ہواؤں کے جھونکوں سے نبرد آزما، ندی کنارے کھڑا کاون نگران کی تھپکی کو، معصوم بچوں کی تالیوں کو یاد ضرور کرے گا۔ وہ نسل بھی کاون کو ضرور یاد رکھے گی جو کاون کو دیکھ کر تالیاں بجاتے ہوئے ہیں۔

بات ہاتھی کی ہو رہی ہے تو بتاتا چلوں کہ ہاتھی کرہ ارض پر سب سے بڑا ممالیا جانور ہے۔ ہاتھی کی اوسط عمر 70 برس ہوتی ہے ہاتھی کا وزن دس ہزار کلو سے 32 ہزار کلو تک ہوتا ہے ہاتھی کھڑے ہو کر سوتا ہے ہاتھیوں کے جنڈ جنگلوں میں خاندانوں کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ جس کی رہنمائی عموماً مادہ ہاتھی کرتی ہے۔ حضرت انسان نے ہاتھی کو جنگوں میں بطور مال بردار بھی برتا ہے اور بطور جنگی ہتھیار بھی، ہاتھی انسان دوست جانور ہے، ہاتھی کو سدھایا بھی جا سکتا ہے۔

کاون کے لیے الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر پاکستان جناب عارف علوی اپنی اہلیہ کے ہمراہ مرغزار چڑیا گھر پہنچے جہاں انھوں کے ہمراہ جانوروں کے تحفظ کی تنظیم فور پاز کے ڈائریکٹر جناب عامر خلیل بھی موجود تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).