مولانا وحیدالدین خان کے فرمودات


مولانا وحیدالدین کو لوگ عموماً ایک عالم دین کے طور پر جانتے ہیں۔ آپ دہلی میں اسلامک سینٹر کے روح رواں ہیں۔ آپ کی عمر نوے سال کے لگ بھگ ہے۔ ماشاءاللہ آج بھی مستعد ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ کا لائیو لیکچر بھی نشر ہوتا ہے۔ وہ تقسیم ہند کے سخت ناقد رہے ہیں۔ آپ نے بے شمار بین الاقوامی سفر کیے ہیں۔ اور ہر جگہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ بھی پڑھا ہے۔ بہت باریک بینی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ روز مرہ کی معمولی باتوں میں کوئی اہم سبق یا غور و فکر کا نقطہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔

گھر میں ان کی بہت سی کتابیں دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا میگزین الرسالہ بھی دلچسپی سے پڑھا۔ آپ لا تعداد موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔ آپ کی تحاریر مختصر اور بیش تر ایک صفحے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ایک ہی بات یا واقعہ کو بار بار دوہرا جاتے ہیں۔ یہاں ہم ان کی تین کتابوں پر بات کریں گے جن کے نام ہیں : راز حیات، تعمیر حیات اور کتاب زندگی۔ انہیں آپ اسلامی سیلف ہیلپ کی کتب بھی سمجھ سکتے ہیں۔

مولانا وحیدالدین مایوسی کو امید میں بدلنے کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ زندگی میں اگر ایک راستہ بند ہو جائے تو خود کو نئی راہ کی تلاش میں لگا دیں۔ زمانہ اگر ایک بار آپ کو گرا دے تو خدا کی اس دنیا میں مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ آپ نئے مواقع استعمال کر کے دوبارہ ابھرنے کا سامان کر سکتے ہیں۔ ناخوشگوار تجربات انسان کے لیے تربیتی مراحل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شکست وقتی حادثہ ہوتی ہے۔ جو شخص ہم سے لڑتا ہے ہمارے اعصاب مضبوط کرتا ہے۔ چھپی ہوئی صلاحیتیں چیلنج سے بیدار ہوتی ہیں۔ زندگی ایک امتحان ہے۔ دنیا جیتنے کے بعد ہارنے اور ہارنے کے بعد جیتنے کا کھیل ہے۔ ضرورت صرف جدوجہد کی ہے۔ پچھتانے کی بجائے آپ اگلی بار وہی کام بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کریں۔ کام کی تکمیل کے لیے اصل اہمیت وقت کی نہیں شوق اور لگن کی ہوتی ہے۔

زندگی کا آرٹ مثبت طرز فکر میں ہے۔ زندگی کا سارا معاملہ صحیح یا غلط سوچ کا معاملہ ہے۔ سوچ اگر درست ہو تو عمل بھی درست ہوگا۔ زندگی کی تعمیر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ یہ دنیا عمل اور مسابقت کی دنیا ہے۔ عمل کا تعلق جذبے سے ہے نہ کہ صحت اور طاقت سے۔ کامیاب زندگی کا راز کانٹوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ ان سے بچ کر چلنا ہے۔ سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع موجود ہوں نہ کہ جہاں آپ پہنچنا چاہیں۔ علم کا آغاز اپنی بے خبری کو جاننے سے ہوتا ہے۔

اپنے آپ کو ہمیشہ نہ جاننے والا سمجھو تاکہ جاننے کی خواہش کبھی ختم نہ ہو۔ ہماری زندگی کا سفر بے شمار انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ہم فکر و خیال کے اعتبار سے نچلی سطح پر سفر کرتے رہیں تو بار بار دوسروں سے ٹکراؤ ہوتا رہے گا۔ دانش مند آدمی اپنے سفر کی سطح کو بلند کر لیتا ہے تاکہ دوسروں کے ساتھ ٹکراؤ پیش نہ آئے۔ اس حکمت کو اختیار کرنے کا نام اعراض ہے۔

بامقصد زندگی گزارنے والا آدمی ایک مسافر کی طرح ہوتا ہے۔ جو اپنا ہر لمحہ منزل کی طرف بڑھنے میں لگانا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ ہوتا ہے جس کی صداقت پر اس کا ذہن اور ضمیر مطمئن ہوتا ہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کی تڑپ قوت عمل کو بڑھا دیتی ہے۔ جس کے پاس مشغولیت نہیں اس کے پاس زندگی نہیں۔ بڑی کامیابی ہمیشہ بڑی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ بڑا کام کرنے والے وہ ہیں جن کا عمل ہی ان کا معاوضہ بن جائے۔

ہم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے۔ زندگی مقصد سے خالی ہو جائے تو وقت کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ آپ انسان کو بامقصد بنا دیں اس کے بعد اس کی ہر چیز اپنے آپ درست ہو جائے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مسئلے اور مقصد میں فرق کریں۔ مسئلے کی رعایت صرف اس وقت تک کریں جب تک اس کا ٹکراؤ مقصد سے نہ ہو۔ مسئلے کو حل کرنے میں اپنی قوت صرف کریں۔ مگر اس کی ایک حد رکھیں۔ حد آتے ہی مسئلے کو چھوڑ کر مقصد کو پکڑ لیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل کے حل میں زیادہ فیصلہ کن چیز حالات ہوتے ہیں۔ آدمی خواہ کتنا ہی پریشان ہو آخر کار ہوتا وہی ہے جو حالات کا تقاضا ہو۔ اپنی طرف سے بہترین کوشش کریں پھر نتیجہ حالات پر چھوڑ دیں۔

قوم اس وقت تک درست رہتی ہے جب تک اس کے افراد اپنی جگہ درست کام کر رہے ہوں۔ قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔ فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح ممکن نہیں۔ داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔ تعمیر میں توسیع سے زیادہ استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ ہم ان چیزوں کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکیں جن کو ہم بدل نہیں سکتے۔ امن کی قیمت ایڈجسٹمنٹ ہے۔ زندگی نباہ کے آرٹ کا دوسرا نام ہے۔ دوسروں کی شکایت کرنا صرف اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ میں نے غلطی کی، معرفت اور ارتقا کا جملہ ہے۔ ہار کو مان لینا جیت کی طرف پہلا قدم ہے۔ فساد سے بچنے کا طریقہ اعراض ہے۔ برداشت والے اگر جلوس نکالیں تو اس کا نام مظاہرہ ہے، بے برداشت والے جلوس نکالیں تو اس کا نام فساد۔

کسی چیز کی قیمت اس کی عدم موجودگی میں معلوم ہوتی ہے۔ زندگی نقصان پر راضی ہونے کا نام ہے۔ انتخاب خوش گوار اور نا خوش گوار کے درمیان میں نہیں، انتخاب ناخوش گوار اور تباہی کے درمیان ہونا چاہیے۔ ٹالرنس اسی حکمت عملی کا نام ہے۔ آدمی کو جو کچھ ملا ہے وہ بطور آزمائش ہے نہ کہ بطور استحقاق۔ سب کچھ چھین لیا جائے گا، جو بچے گا وہ آدمی کے اعمال ہوں گے ۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 39 posts and counting.See all posts by farhan-khalid