امریکی ماڈل حلیمہ عدن کا ’مذہبی وجوہات‘ کی بنا پر رن وے ماڈلنگ چھوڑنے کا اعلان
امریکی ماڈل حلیمہ عدن نے اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے ’رن وے‘ ماڈلنگ کی دنیا سے کنارہ کشی کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے ماڈل چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ ان کے مذہبی عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تیئس سالہ حلیمہ فیشن میگزین، ووگ کے برطانوی اور عربی ایڈیشنوں کے سرورق پر آ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
برکینی اور حجاب میں مقابلۂ حسن میں شرکت
حجاب کو فیشن بنانے پر خواتین ناخوش
حلیمہ عدن نے انسٹا گرام پر لکھا کہ کورونا کی وبا نے انھیں سوچنے کا موقع مہیا کیا کہ بطور مسلمان عورت ان کی اقدار کیا ہیں۔’میرے ایک حجابی عورت کے روپ میں بہت اتار چڑھاؤ آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ماڈلنگ کے کام کو قبول کرنا میرے مذہبی خیالات کے خلاف ہیں۔ ’اس کے لیے میں اپنے آپ کے علاوہ کسی کو الزام نہیں دے سکتی کیونکہ میں نے اس کو زیادہ اہمیت دی۔‘
انھوں نے کہا کہ فیشن کی صنعت میں مسلمان خواتین سٹائلسٹوں کی عدم موجودگی اصل مسئلہ ہے جنہیں یہ سمجھ ہو کہ حجاب پہننا کتنا اہم ہے۔
کئی دوسری خواتین ماڈلز نے جن میں بیلا، گیگی حدید اور ریحانہ شامل ہیں حلیمہ عدن کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔
https://www.instagram.com/p/CDCR1gKhCzq/
حلیمہ عدن کینیا میں ایک مہاجر کیمپ میں صومالی والدین کے ہاں پیدا ہوئیں اور جب ان کی عمر چھ برس تھی تو وہ امریکہ آ گئیں۔
انٹرنیشنل ماڈلنگ ایجنسی آئی ایم جی کی نظر اس وقت حلیمہ عدن پر پڑی جب وہ منیسوٹا کے مقابلہ حسن میں شریک ہوئی تھیں اور سیمی فائنل تک کوالیفائی کر لیا۔
وہ پہلی ایسی خاتون ماڈل تھیں جنھوں نے مقابلہ حسن میں حجاب پہن رکھا تھا اور پھر ایک ماڈل کے طور پر مشہور ہوئیں جنہوں نے اس طرح کی ملبوسات کو فیشن ویک کی زینت بنایا۔
انھوں نے گلوکارہ ریحانہ کے فینٹی بیوٹی اور کانے کے یی زی برینڈ میں بھی کام کیا۔
انھوں نے اپنے انسٹا گرام پیغام میں ریحانہ کی بہت تعریف کی جنہوں نے حلیمہ کو سٹیج پر حجاب پہننے کی اجازت دی تھی۔
حلیمہ عدن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے کام کے دوران کئی بار اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کو نظر انداز کیا اور انھوں نے کئی بار کام کی وجہ سے نماز ادا نہیں کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ کام کے سلسلے میں گھر سے نکلتیں تو وہ کئی بار اپنے ہوٹل کے کمرے میں روتی تھیں کہ میں وہ کہہ نہیں پا رہی ہوں جو میں سمجھتی ہوں کہ صحیح ہے۔
انھوں نے اپنے پیغام میں لکھا: ’سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ بہت مشکل تھا۔‘
انھوں نے فروری میں بی بی سی کے ساتھ ایک بات چیت میں کہا تھا کہ ’شرم و حیا کسی ایک ثقافت یا عورتوں کے ایک گروہ کا نام نہیں ہے، شرم و حیا تو سب سے پرانا فیشن ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ وقت کے آغاز سے موجود ہے اور اگلی ایک صدی تک ادھر ہی رہے گا۔ یہ لوگوں کے لیے ایک اور راستہ ہے۔
- سمارٹ فون، جاسوسی کے سافٹ ویئر اور ’ایم کامل‘: اسرائیل کیسے لبنان میں گاڑیوں یا عمارت کے اندر موجود اپنے ہدف کی بھی نشاندہی کر لیتا ہے؟ - 29/03/2024
- اپنی تصویر، آواز اور نام دیں ’50 پاؤنڈ‘ لیں۔۔۔ چینی کمپنی کی انوکھی آفر سے بچنا ’مشکل‘ - 29/03/2024
- کینیڈا کا وہ جزیرہ جو دو ہزار زلزلوں کے باوجود محفوظ رہا - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).