دیار غیر کی ڈائری۔ پہلا ٹکرا


نکاح کے ایک سال گزرنے اور 2002 میں رخصتی کے چار دن کی چاندنی کے بعد ہی ہم اپنے شوہر کے ساتھ ان کے مقیم ملک سعودی عرب روانہ ہو گئے

جدہ اور مکہ دونوں شہروں کے بیچ اولڈ مکہ روڈ جہاں سے نبی پاک ﷺ اور تمام صحابہ اکرامؓ مکہ مکرمہ سے آنے جانے کا راستہ اختیار کیا کرتے تھے اسی پاک و وسیع سڑک سے بالکل منسلک ہماری رہائش بحرہ میں پانچ سال گزارنے کے بعد اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ کروانے کے لیے جدہ منتقل ہوئے تو ہم نے اپنے نئے گھر کے اندر ہی ایک علیحدہ کمرے میں خواتین کے لیے اپنی بیٹی کے نام پر ماہ رخ بیوٹی پارلر کھولنے کا آغاز کیا۔

کیونکہ 2006 کے آخر سے لے کر اپریل 2007 تک پاکستان میں اس وقت ہمارے اپنے والدین حیات تھے اور قدرت کی طرف سے ملی ہمیں وہ مہلت کہ اپنی شادی اور بچوں کے بعد چند ماہ پاکستان میں اپنے والدین اور اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزارنے کا کچھ انمول وقت بھی مل گیا تھا، تو اس دوران ہم نے اپنے بچوں کو کراچی میں اپنی رہائش کے قریب کی مونٹیسوری میں چند ماہ کے لیے داخلہ کروانے کے ساتھ خود بیوٹی پارلر کے بیسک اور ایڈوانس کورسز مختلف پارلروں اور کمپنیوں سے آسانی سے مکمل کر لیے تھے۔

جدہ حی الصفاء میں جہاں ہماری رہائش ہوئی وہاں مختلف عرب ممالک، پاکستان اور ہندوستان سے نوکری پیشہ والے خاندان ہی آباد تھے نئی بلڈنگ ہونے کی وجہ سے سارے پڑوسی بھی نئے نئے وہاں منتقل ہو رہے تھے

دوسرے تمام لوگوں کی طرح ہماری بھی یہی کوشش رہتی کہ کوئی ہم وطن یا ہم زبان مل جائیں کیونکہ ہماری بلڈنگ میں تمام عربی فیمیلیز ہی آباد تھیں

ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک چھوٹی سی سوشل کمیونیٹی بننے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے پارلر کا کام اپائنٹمنٹ پر کرنا شروع کر دیا۔

ثمرین کے تین چھوٹے بچے تھے اور اس کا تعلق ہندوستان کے شہر حیدرآباد سے تھا اس نے ایک انڈین اسکول میں پڑھانا شروع کیا تھا نئی نئی نوکری لگی تھی بس ایک بڑا بچہ ہی اسکول جانے کے قابل تھا باقی دو بچے بہت چھوٹے تھے ثمرین اپنے ایک کمرے والے کرائے کے مکان، گھریلو تنازعات اور شوہر کی محدود آمدنی سے کافی پریشان رہتی تھیں کیونکہ تین چھوٹے بچوں اور گھر کا خرچہ اور اوپر سے ہر سال جون جولائی یا دسمبر کی چھٹیوں میں پوری فیملی کا ہندوستان جاتے وقت تمام رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے خوب تحفے تحائف کے ساتھ آنا جانا آسانی سے برداشت کرنا ممکن نہیں ہو رہا تھا اور اس کے شوہر کو بھی دوسرے تمام ممالک سے آئے ہوئے زیادہ تر آدمیوں کی طرح اپنی اس قلیل تنخواہ میں سے کچھ حصہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کو ہندوستان بھیجنا اور ان پر اس کی شادی سے بھی پہلے سے چڑھے ہوئے قرضے اتارنے کا بوجھ تھا

تبھی ثمرین نے جدہ اپنے شوہر کے پاس آ کر اپنے میکے والوں کو اطلاع دیے بغیر نوکری کرنا ضروری سمجھا تھا چونکہ سعودیہ عرب میں جو خواتین اپنے شوہر کے اقامے / ویزے پر آتی تھیں وہ چند سال پہلے تک زیادہ تر آسانی سے کسی بھی اسکول میں نوکری کر لیا کرتی تھیں مگر اب کچھ سالوں سے یعنی 2016 کے نئے قوانین کی وجہ سے یہ کرنا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ اب نوکری کرنے والی خواتین بھی اپنے نام کا ویزہ لے کر آئیں گی تب ہی نوکری بھی کر سکتی۔

تمام نوکری یا کاروباری افراد اور ان کی فیملی دیار غیر میں آباد رنگ و نسل سے بالاتر مختلف ملک، زبان اور مختلف مذاہب ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی خاندان یا جنم جنم کے واقف کاروں کی طرح بالکل جڑ کر ہر ایک کی خوشی اور غم میں ساتھ ساتھ رہا کرتے بس ہلکا پھلکا مقابلہ یا طنز و مزاح تو انڈیا اور پاکستان کے کرکٹ میچوں کے درمیان اور اس کی ہار جیت پر ہی نظر آیا کرتا تھا ورنہ جب ملاقات ہوتی تو نئی خوشی اور نئے ٹاپک پر ہوتی جس سے زندگی میں محبت، خوشیوں کے ساتھ رہنے اور آگے بڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔

اللہ اللہ کر کے ہمارے اپنے بچوں نے اسکول جانا شروع کیا تھا اور ہم آرام سے اپنی ساس کے اکلوتے بیٹے اور اپنے بچوں کے اسکول جانے کے بعد لمبی تان کر آرام سے سویا کرتے تھے۔

ہمارے آرام پر تو ویسے بھی ہمارے میاں جی کی پہلے ہی نظریں جمی رہتی تھیں بس ایک دن واقعی میں لگ گئی ہوا یہ کہ ثمرین کا پڑوسن اور کلائنٹ ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ اچھے سے ملنا ملانا بھی تھا ایک دن شام کے وقت ثمرین ہمارے گھر آئی تو گپ شپ کے درمیان انھوں نے ہمیں ہمارے صبح کے فارغ اور تنہائی والے وقت کو آرام کرنے کے بجائے استعمال کرنے کا آئیڈیا دیا اور اپنے دو عدد چھوٹے اسکول نا جانے والے بچوں کی بے بی سٹنگ کرنے کے ساتھ اپنی مجبوری اور ہم پر اس کا اطمینان ہونا ظاہر کیا حالانکہ اس کی اپنی نند بھی جدہ میں قریب ہی رہتی تھی لیکن اپنے سسرال اور میکے میں ثمرین کی نوکری کی خبر وہاں تک پہنچ نا جائے تبھی وہ ہمیں گھیر رہی تھی۔

ہم بھی اپنی پرانی رگ رگ میں گھسی خاندانی خدمت خلق کی عادت سے سرشار بیٹھے فوراً ہماری سوچ میں اپنے عبدالستار ایدھی صاحب کی شکل نمودار ہوئی اور ساتھ ہی ان کی دی ہوئی عوامی خدمات اور ایمبولنس کے سائرن کی آواز ہمارے کانوں میں بج بج کر ایمرجنسی میں مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے حالات کا احساس دلانے لگی پھر اپنے بچوں کی طرح ثمرین کے بچوں کی بے بی سٹنگ کا بغیر کسی معاوضے کے ذکر کے ساتھ تیار ہو گئے۔

ہمیں چونکہ اوپر والے کے فضل و کرم سے پاکستان میں شادی سے پہلے ایک بھرے پورے خاندان اور گھر کے چھوٹے یعنی اسمال کراکری چھوٹا پانڈا ہونے کی شاندار پیکنگ کے ساتھ فری میں دستیاب ہونے کا شرف حاصل تھا کیونکہ اپنے بڑے کزنز اور بہن کے بچوں کے ساتھ زیادہ رہنے اور سنبھالنے میں ڈگری حاصل کرلی تھی اور بقول ہمارے اپنے صاحبزادے کے جو کہ اپنے اسکول میں جماعت سوئم کے انگریزی امتحان میں ملے مضمون ”مائی مدر“ کے اوپر ہماری یہ تعریف لکھ کر آئے تھے کہ جس کا اردو ترجمہ کچھ یہ تھا کہ ”میری پیاری امی اپنی شادی ہونے سے پہلے بھی بچے پالنا اور سنبھالنا بہت اچھے سے جانتی ہیں“ جس کی وجہ سے صاحبزادے کے استاد محترم نے ہمیں پیرنٹ میٹنگ میں دکھا کر انتہائی تعجب اور سنجیدگی سے اس لکھے ہوئے جملے کے بارے میں ہم سے اس کی تفصیل پوچھی تھی۔

استاد محترم چونکہ محترم تھے ورنہ محترمہ اور وہ بھی پاکستانی معاشرے کی درمیانے طبقے اور اپنے گھر کی چھوٹی ہونے کے ساتھ اپنے ددھیالی خاندان والوں کا روز آنے جانے سے تعلق ہوتا تو اس لکھے ہوئے جملے کو تعجب سے پوچھنے کے بجائے اپنا اپنا دکھڑا بھی ہم سے شیئر کر رہی ہوتیں

آہ کہ پل بھر مل کر بیٹھیں، بات سنیں اور بات کہیں
(من کی بپتا تن کا دکھڑا، دنیا کے حالات کہیں (ابن انشاء

لہٰذا ثمرین کے دو چھوٹے چھوٹے اسکول نا جانے والے بچوں کو صبح سے دوپہر تین بجے تک سنبھالنا ہمیں کوئی مشکل کام نہیں لگا حالانکہ اس دوران بعض اوقات دوپہر کے تین بجے کے بجائے رات بارہ ایک بجے تک بھی ہمیں وہ بچے اپنے پاس رکھنے پڑے تھے کیونکہ تیز طوفانی بارشوں کی وجہ سے پورا جدہ شہر ہی اچانک بلاک بھی ہو جایا کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اپنی اپنی جگہوں پر محصور ہو کر رہ جاتے تھے، ہم نے اس کے بچوں کو دیر تک سنبھالنے سے انکار، بداخلاقی اور نہ ہی کبھی الگ سے معاوضے کا تقاضا کیا تھا۔

لیکن یہاں ایک بات اہم اور قابل ستائش ہے کہ جتنے ماہ بھی ثمرین کے بچے ہمارے پاس بے بی سٹنگ کے لیے آتے رہے ثمرین نے بھی ہمیں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ غیر طے شدہ اور مانگے بغیر ہمیں ایک معقول معاوضہ دیتی رہی اور کیوں نہ دیتی ہم ٹھہرے پاکستانی اور ثمرین ٹھہری ہندوستانی، لہذا ہم بھی اس کے بچوں کو کھیل کھیل اور امن کی آشا کے ساتھ اردو اور انگریزی کی مختلف نظمیں اور الفاظ یاد کراتے اور سکھاتے رہے کیونکہ

” مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).