’میگھن مارکل کے درد نے مجھے وہ رات یاد دلا دی جب میرا حمل ضائع ہوا تھا‘


حمل
فائل فوٹو: ماہرین نفسیات کے مطابق حمل کے ضیاع سے خواتین کو نفسیاتی صدمہ پہنچتا ہے جس کی جانب کم ہی لوگ توجہ دیتے ہیں
برطانوی شہزادی میگھن مارکل کا حمل گرنے سے متعلق خبر کی تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ وہ مضمون انھوں نے خود لکھا ہے۔ تحریر کے اس جملے کو پڑھ کر میں رک گئی جہاں انھوں نے اس تکلیف کا تذکرہ کیا کہ جب وہ اس عمل سے گزر رہی تھیں اور شدید درد سے اپنے بیٹے آرچی سمیت زمین پر گر گئیں۔

ان کی تکلیف کے بارے میں پڑھ کر مجھے اپنی وہ رات یاد آگئی جس رات میں بھی اسی قسم کی تکلیف سے گزری تھی۔ حمل کا گرنا ویسے تو ماضی کی چند تکلیف دہ پرانی یادوں میں شامل ہو چکا ہے لیکن آج بھی جب کوئی ایسے واقعے کا ذکر کرتا ہے تو اس تلخ یاد کا باب اکثر کھل جاتا ہے۔

پہلے بچے کی پیدائش ہر عورت کے لیے انتہائی اہم اور زندگی کا خوبصورت ترین سفر ہوتا ہے۔ حمل کے پہلے دن سے لے کر بچے کی پیدائش کے دن تک ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ میری خوشی کا بھی یہی عالم تھا۔ حمل کو چھ ہفتے گزرے تو شہر کے بہترین گائیناکالوجسٹ کی تلاش شروع کر دی، اپنے اردگرد کے لوگوں اور دوستوں سے معلومات لیں تو کسی نے ایک مشہور ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔

اگلے ہی دن میں اس ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی تو چہرے پر مسکراہٹ اور ایک ناقابلِ بیان سی خوشی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھ سے تمام تر معلومات لیں اور الٹراساؤنڈ کروانے کو کہا جو میں نے اسی ہسپتال کی لیب سے کروا لیا۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی امتحان چل رہا ہے اور بس ابھی میں اس امتحان میں پاس ہو جاؤں گی۔ رپورٹ لے کر ڈاکٹر کے کمرے میں گئی تو اُنھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید یہ حمل ضائع ہو جائے اور کہا کہ ’اگر ایسا ہوا تو آپ ایمرجنسی میں آ جائیے گا‘۔

یہ بھی پڑھیے

’حمل کے دوران سنی سنائی باتوں پر ہرگز نہ جائیں‘

کونڈوم یا نس بندی، مانع حمل کا کون سا طریقہ کامیاب ہے؟

دوران حمل کینسر کی تشخیص ’میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی‘

لاک ڈاؤن نے میرے اسقاط حمل کو مزید درد ناک تجربہ بنا دیا

یہ بات سن کر میں سُن ہو گئی، اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ یہی پوچھ لوں کہ ایسا کیوں ہے۔ گھر آئی تو شوہر سے کہا کہ میں نہیں جاؤں گی اس ڈاکٹر کے پاس، کیونکہ اس میں اتنی اخلاقیات نہیں کہ مریض کا کوئی مسئلہ ہے تو اسے تسلی دے یا سمجھائے۔ یہ کہہ کر میں زار و قطار رونے لگی۔

اس رات میں پریشانی کے باعث سوئی نہیں۔ شوہر کے سامنے زیادہ اظہار بھی نہیں کیا کیونکہ وہ بھی پریشان تھے لیکن پھر بھی مجھے تسلی دیتے رہے کہ فکر مت کرو سب ٹھیک ہوگا، ہم کسی اور ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں گے۔

خوف کے مارے میں نے اگلے چار ہفتے ایسے ہی گزار دیے اور کسی ڈاکٹر سے رابطہ نہیں کیا۔

حمل

دس ہفتے سے زیادہ ہو گئے اور ٹھیک چل رہا ہے، اس تسلی کے ساتھ وقت گزار رہی تھی کہ پھر ایک رات اچانک پیٹ کے نچلے حصے میں شدید درد کے ساتھ خون بہنا شروع ہو گیا۔

کچھ ہی دیر میں اتنی بری حالت ہوگئی کہ کمزوری کے باعث اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹر نے ڈی این سی کا کہا اور خون کا انتظام کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔

صبح جب آنکھ کھلی تو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ’بلڈ پریشر برقرار نہیں ہو رہا اس لیے انھیں ابھی ہسپتال میں ہی رکھنا ہے‘۔

ہسپتال میں ایک دن رہنے کے بعد گھر آگئی۔ اس موقع پر میں اپنے آپ کو تھوڑا کمزور محسوس کر رہی تھی۔ ایک دو دن میں جسمانی طور پر بہتر ہوگئی لیکن جذباتی اور نفسیاتی طور پر عجیب کشمکش کی شکار تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا محسوس کر رہی ہوں۔

میں نے اگلے تین روز اپنے کمرے میں ہی گزرے۔ بظاہر تو سب ٹھیک تھا لیکن میں چاہتی تھی کہ کوئی زیادہ بات نہ کرے، بس اپنے بستر پر لیتی رہوں، کمرے میں روشنی نہ ہو۔

یہ سب دیکھ کر میرے گھر والوں اور شوہر کو خاصی فکر ہو رہی تھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے اردگرد خیال رکھنے والے لوگ موجود تھے جو میری مدد کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ میں اس صورتحال سے نکل آؤں، لیکن شاید وہ خود نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کریں۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی۔

’تمھیں احتیاط کرنی چاہیے تھی‘

تین چار دن بعد اپنے آپ کو سمجھایا اور دفتر والوں سے کہا کہ میں کام پر واپس آگئی ہوں، مجھے کام بتائیں۔ اس وقت میں خود بھی بھولنا چاہتی تھی اس لیے اپنی توجہ کام کی طرف کر دی اور زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی۔

لیکن اس کے بعد مجھے رشتے داروں اور دوستوں کی فون کالز موصول ہوئیں جو انھوں نے مجھے حوصلہ اور تسلی دینے کے لیے کیں۔ اس تسلی میں بھی کہیں نا کہیں کوئی یہ ضرور کہتا تھا کہ ’تمھیں احتیاط کرنی چاہیے تھی‘ جیسے واقعی ہی میں اپنے نقصان کی خود ذمہ دار ہوں۔

ایسے نقصان کے بعد عورت چیخیں مار کر رونا چاہتی ہے لیکن اس کی چیخ کو دبا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے تکلیف اور غبار اس کے اندر ہمیشہ کے لیے رہ جاتا ہے۔

سب یہی کہتے ہیں کہ ’صبر کرو، کوئی بات نہیں، اللہ اور اولاد سے نوازے گا، کچھ نہیں ہوتا، یہ تو ہو جاتا ہے، وغیرہ۔‘ یہاں تک کہ بیشتر خواتین تو اپنی کہانی سنا کر کہتی ہیں کہ ’یہ کون سی بڑی بات ہے، میرا بھی حمل ضائع ہوا تھا۔‘

حمل

لوگوں کے رویے انتہائی تکلیف دہ تھے

ماہرین کے مطابق پاکستان بھر میں خواتین کی کثیر تعداد ہے جو حمل ضائع ہونے کے عمل سے گزرتی ہے اور بیشتر کیسز ایسے ہیں جو ہسپتالوں تک بھی نہیں پہنچ پاتے، جس کی وجہ سے وہ رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔

ثمرہ بھی ایسی خواتین میں سے ایک ہیں جو اس درد ناک عمل سے گزری ہیں۔

وہ بتاتی ہیں ’میں نے اپنے پہلے بچے کو چھ ماہ کے حمل کے بعد کھو دیا تھا۔ وہ میری زندگی کی ایک بہت بڑی اذیت تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد میرا دوسرا حمل دوبارہ چند ہفتوں بعد ہی ضائع ہو گیا‘۔

انھوں نے بتایا کہ اُن کے ساتھ پیش آنے والے دونوں واقعات کے بعد لوگوں کے رویے انتہائی تکلیف دہ تھے۔

وہ کہتی ہیں ’باہر والوں کے علاوہ عموماً عورتوں کو ان کے گھر میں ہی تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اس وقت میں نفسیاتی مریض بن گئی تھی۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی ختم کر دینا چاہتی تھی۔

’میرے سسرال والے عجیب عجیب باتیں کرتے تھے کہ پتا نہیں ہمارے بیٹے کے نصیب میں اولاد ہوگی بھی یا نہیں۔ لگتا ہے کوئی بیماری ہے، کہیں بانجھ نہ ہو، اس لیے تو حمل ٹھہرتا نہیں۔‘

ثمرہ کہتی ہیں کہ ہمارے ارد گرد کے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی کو تسلی یا حوصلہ کیسے دینا ہے۔

گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے ثمرہ کا کہنا تھا کہ ’میری نند مجھے سمجھانے کے لیے کہا کرتی تھی کہ تم اپنے بچے کی قبر دیکھو کتنی چھوٹی سی ہے، جب تم روتی ہوگی تو وہ تمہارے لیے دعا کرتا ہوگا، اور یہ باتیں سن کر مجھے اور رونا آتا تھا۔ کوئی آپ کی تکلیف کو نہیں سمجھتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی اس تکلیف کو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز بھی مریضوں کی طرف اپنا رویہ ’برا‘ رکھتے ہیں۔

’مریض کی کسی قسم کی رہنمائی یا اس سے ہمدردی نہیں کی جاتی اور ان واقعات کے نقش زندگی بھر آپ کے دل اور دماغ پر رہ جاتے ہیں۔‘

عورت کو سنبھلنے کے لیے وقت دینا چاہیے

اس معاملے پر ماہر نفسیات رائہا آفتاب کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حمل کا ضائع ہونا ایک بڑا صدمہ ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’اس نقصان سے جسمانی اور نفسیاتی دونوں صدمے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں نفسیاتی صدمے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ یہ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے کہ اس صدمے کے بارے میں مریض سے کسی قسم کی بات ہی نہ کی جائے تاکہ اسے بھولنے میں آسانی ہو۔‘

ڈاکٹر رائہا کہتی ہیں کہ نفسیات یہ کہتی ہے کہ اگر کسی بچے کا کوئی چھوٹا سا کھلونا بھی گم ہو گیا ہے تو آپ اس کے ساتھ ہمدردی کریں، نہ کہ کہیں کہ کوئی بات نہیں۔

’جو عورت اس صدمے سے دوچار ہوتی ہے اس کے آس پاس کے لوگ اسے اکیلا کر دیتے ہیں۔ یہی نہیں اکثر لوگ ایسے واقعات کے بعد عورت کی صحت اور خوراک کی پرواہ بھی چھوڑ دیتے ہیں جو عورت کی مایوسی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔‘

حمل

وہ بتاتی ہیں کہ ایسے صدمے کے بعد عورتوں کا ردعمل دو مختلف انداز میں سامنے آتا ہے۔ پہلا یہ کہ کچھ خواتین میں کسی بھی صدمے کے بعد ان کا جسم اور دماغ سن ہو جاتا ہے اور وہ اپنی تمام تر طاقت اپنے آپ کو مستحکم رکھنے میں استعمال کر رہی ہوتی ہیں، یہ تب ہوتا ہے جب آپ کسی واقعے کے رونما ہونے کی توقع نہ کر رہے ہوں۔

اس کے علاوہ وہ خواتین جن کے پاس وسائل اور مدد کی کمی ہوتی ہے، ان خواتین کو صدمے کے چند گھنٹوں بعد ہی گھر کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں اور دیگر معاملات بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔ وہ یہ سب تکلیف میں ہونے کے باوجود بھی مجبوری کے تحت کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسی خواتین میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویے میں چڑچڑاپن اور تلخی آ جاتی ہے جس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

انھوں نے مزيد کہا کہ خواتین کو ایسے واقعات کے بعد وقت دینا چاہیے تاکہ وہ خود کو سنبھال سکیں۔

’اگر انھیں شوہر اور گھر والوں کی جانب سے حوصلہ اور حمایت ملے تو ایسے صدموں سے جلدی نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp