کرونا، چھٹیاں، تعلیم اور سیاسی اجتماعات


ہزار کوشش کریں کہ سیاست میں ذاتیات پر نہ اترا جائے لیکن مجال ہے جو ہمارے یہاں اس طرح کے حالات پیدا نہ ہوں۔ کہیں جینے پر سیاست، کہیں مرنے پر سیاست، کہیں حالات پر سیاست، کہیں واقعات پر سیاست، کہیں جلسوں پر سیاست تو کہیں کرونا پر سیاست۔ کرونا نے کچھ عجب ڈھنگ سے پوری دنیا میں معیشت، تعلیم، روز گار، زندگی کرنے کے سب اطوار یکسر بدل کر رکھ دیے ہیں۔ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ایک عالمی وبا تمام انسانوں کو اپنی گرفت میں لے کر کروڑوں زندگیاں نگل لے گی۔

بچ جانے والوں میں خوش قسمت لوگ خوف کی کیفیت میں روز و شب گزاریں گے۔ فیس ماسک اس کے لیے اردو کا کوئی مناسب لفظ فی الوقت سجھائی نہیں دے رہا اسے عوامی جگہوں پر مسلسل پہننا ہی ہوگا۔ پچھلے دنوں ہم پاکستان کو بہت حد تک ان خوش نصیب ممالک میں کہیں شمار کرتے تھے کہ جہاں کرونا زیادہ نہیں پھیلا بلکہ لگتا تھا شاید بوریا بستر باندھ کر رخصت ہو گیا ہے۔ لیکن پھر گلگت بلتستان کے الیکشن آ گئے۔ بلکہ اس سے پہلے ہی اپوزیشن جلسے جلسوں پر سر باندھ کے بیٹھ گئی اور گیارہ پارٹیاں مل کر ایک دوسرے کو سر اور تال سنانے لگیں۔

عوام کی شکل میں ڈھوئے گئے بہت سے آواز یہ بھی اس میں اپنی تال ملانے لگے۔ بھلا یوں جلسے جلسوں سے بھی کبھی حکومتیں گرا کرتی ہیں۔ اس کے بعد بلاول بھٹو بہت سے دنوں کے لیے جاکر گلگت بلتستان کے پر فضا مقام پر بیٹھ گئے اور آنکھوں میں بہت سی امیدوں کے خواب سجائے الیکشن مہم کو بھر پور انداز میں شروع کیا۔ مگر اس سے پہلے انہیں اتنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے تھا کہ تین دہائیوں سے لاڑکانہ میں پی پی کی حکومت کا ڈنکا بجتا رہا تو وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں ابتری کو ختم کرنے کی کوشش تو کرتے جاتے۔

نون لیگ والے پہلے تو اپنے دامن میں ذاتی دکھوں کے موتیوں کی مالا پروتے رہے۔ پھر راہ چلتے کسی عقلمند نے سمجھایا کہ بھئی مہنگائی کا رونا بھی تو رو لیں جس سے عوام حقیقتاً تنگ ہے۔ لیجیے پھر کیا تھا سب سے اہم مسئلہ بھلے دیر سے ہی سہی اس پر بات شروع ہو گئی۔ دراصل اپوزیشن کا کام تو ہوتا بھی یہ ہی ہے کہ عوام کو درپیش مشکلات جو حکومت وقت حل نہیں کر پاتی اس کو مسلسل کچوکے لگائے جائیں کہ مسائل اپنی گونا گوں حل کی طرف چل پڑیں۔

ادھر حکومت کی سن لیجیے اپوزیشن کے جلسوں پر تنقید تو ہوتی رہی لیکن اپنی بھی الیکشن مہم شروع کی گئی اور ایس او پیز کہیں نظر نہیں آیا۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں کا مجمع ہو وہاں ماسک کیا کرے گا۔ دوسری طرف کرونا ایسی ظالم اور متعدی وبا ہے جو نہ اپنا دیکھتی ہے نہ پرایا، نہ بوڑھا نہ جوان بس اسے تو چلتے جانا ہے۔ اس وقت ملک میں تمام تعلیمی ادارے ایک بار پھر سے بند ہوچکے ہیں۔ ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے زیر تعلیم ہیں جس میں تربیت کا لفظ کہیں معدوم ہو گیا ہے۔

تعلیم کے شعبے سے تقریباً چار لاکھ کے قریب تدریسی و غیر تدریسی عملے کا روز گار وابستہ ہے۔ اساتذہ سے لے کر کتابوں اور سٹیشنری کا کاروبار کرنے والے چھوٹے بڑے سب حضرات اس سے بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔ اب لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ پرائیویٹ سکولوں والے اپنی ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ شروع کر دیتے ہیں یا پھر تنخواہوں کی کٹوتیاں ہونے لگتی ہیں۔ اب تو یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ نجی سکولوں کی عمارتوں کے مالکان اپنی عمارتوں کو بھی خالی کروانے کا کہہ رہے ہیں۔

بچوں کے سکول چلانے والے والدین پر فیسوں کی ادائیگی کا بوجھ ڈالیں گے۔ بظاہر پی۔ ڈی۔ ایم جو اپنی اتفاق کی ڈینگیں مارتے تھے ان کی اصلیت اس بات سے کھل گئی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے صاف کہہ دیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے بیچ سیاسی نہیں بلکہ کرسی کی جنگ ہے۔ عوام جب ابن الوقت سیاست دانوں کے بیانیے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر گلگت بلتستان جیسے غیر جانبدارانہ انتخابات جنم لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک اور بات بھی سننے کو ملی محترم مولانا فضل الرحمن نے اپنے ہی وطن میں کھلم کھلا اعلان جنگ کا طبل بجا دیا اور پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ بھی قرار دے دیا۔

دیکھیں گے اب کیا ہوگا۔ لاک ڈاؤن میں سب سے پہلے جو ادارے بند ہوتے ہیں وہ ہمیشہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ ظاہر ہے چھوٹے بچے نہ تو ہر وقت ماسک لگا سکتے ہیں اور نہ ہی دوسری احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔ دوسرے ہمارے ملک میں آن لائن لیکچرز میں بھی بہت قباحتیں ہیں۔ کبھی بجلی نا پید ہوجاتی ہے تو کبھی WiFi کے رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان میں آن لائن کلاسز کا تجربہ سب سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کیا بعد ازاں ورچوئل یونیورسٹی نے کیا تھا۔

مگر فرق یہ ہے کہ ان کے پاس ریکارڈ شدہ لیکچرز ہوتے تھے۔ کرونا کے بعد براہ راست Zoom App کے ذریعے پہلی دفعہ لیکچرز کا اہتمام ہوا ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ آن لائن لیکچرز کے دوران طلبا کی طرف سے بہت کم سوالات آتے ہیں۔ جن گھروں میں انٹر نیٹ کی سہولت نہیں ہوتی وہ بچے یوں بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس لیپ ٹاپ بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے بھی بچوں کی اخلاقی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

گھنٹوں موبائل فون کے استعمال سے بچوں پر شدید ذہنی دباؤ پڑنے سے ان کی کام کرنے کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔ ہمارے عوام اور حکومت کرونا کی شدید پہلی لہر تو گزار ہی چکے ہیں۔ اب دوسری لہر کے بارے میں خبر ہے کہ یہ زیادہ شدید ہے اور وائرس ٹیسٹ میں بھی واضح طور پر بھی نظر نہیں آتا۔ حکومت کی جانب سے عوام کو ماسک کے استعمال، سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنا اور بار بار ہاتھ دھونے کی تمام احتیاطی تدابیر کی تنبیہ کر دی گئی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ کاروبار کی سرگرمیوں کو تحفظ دینے کے لیے کاروبار کے اوقات مقرر کر دیے گئے ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے بھی لگ بھگ سوا مہینے کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ عوامی جلسوں اور اجتماعات پر پابندی لگ چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت کس انداز میں پیش کرتے ہیں۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ کرونا کی وجہ سے ملنے والی ان چھٹیوں کو تفریحی نہ سمجھیں اور بچوں کو گھروں تک ہی محدود رکھیں تاکہ ہم کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔

چھٹیاں ہمیشہ ہی سے بچوں کی خوشی کا باعث رہی ہیں۔ اس دفعہ اچانک چھٹیوں کے اعلان سے ہمارے وزیر تعلیم کی شہرت میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ سکولوں، یونیورسٹیوں اور ہاسٹلز کے طالب علموں نے مزیدار نعرے لگا کر اپنی خوشیوں کا اظہار کیا۔ کہیں ”کرونا تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار“ تو کہیں ”شفقت تیری خیر ہوئے“ کہیں ”جب تک سورج چاند رہے شفقت تیرا نام رہے گا“ ، کسی نے لکھا کہ یہ کنفرم جنتی ہیں ”۔ خیر یہ تو ذرا ہلکی پھلکی باتیں اور ہمارے عوام کی زندہ دلی کا ثبوت ہے۔ دراصل اب ہمیں حقیقتاً مزید کچھ عرصہ گھروں میں رہتے ہوئے پھر سے کرونا کو شکست دینی ہے کیونکہ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ سیاسی جلسوں اور اجتماعات کو بہر صورت کچھ عرصہ کے لیے ضرور صبر کا دامن تھام لینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).