ہمارے بھی حقوق ہیں


آپ نے انسانی حقوق کے بارے میں تو ضرور سن رکھا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے اعلامیے میں اسے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے انسان ہونے کے ناتے حقوق بنتے ہیں۔ کچھ ملکوں نے اس پر عمل بھی کیا اور مدنیہ سے ملتی جلتی ریاستیں تشکیل دے دیں۔ یہ اور بات کہ بہت سے ممالک میں لوگ اور حکومتیں اس سے بے خبر ہیں۔ خبر آتے آتے بھی دیر ہو جاتی ہے۔ جب پتہ لگ جائے گا تو اسے ضرور دیکھ لیا جائے گا۔ صبر کیجیئے اس کا پھل بھی میٹھا ہے اور ثواب تو ہے ہی۔

عورتوں کے حقوق کا بہت چرچا رہتا ہے۔ اس پر بھی بہت بات ہو چکی۔ بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ ان حقوق کا ڈنکا جانے کہاں کہاں بجتا رہا۔ کچھ دھمک ہمارے کانوں تک ضرور پہینچی۔ عجیب شور و غل مچا رکھا ہے۔ ان عورتوں کو آخر چاہیے کیا؟ کن حقوق کی بات کر رہی ہیں یہ؟ سارے حقوق بذریعہ والدین، بھائی اور پھر شوہر سے ہوتے ہوئے بیٹوں تک کی ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ سب کتنی دیانت، محنت اور محبت سے یہ سارے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اور کر رہے ہیں۔ پھر یہ کس بات کا رونا ہے؟

بات کریں بچوں کے حقوق کی۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کی ساری کی ساری ذمہ داری والدین کی ہے۔ والدین جو بہتر سمجھتے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ والے بچوں کے حقوق کا معاہدہ بناتے رہیں، انہیں زمینی حقائق کا کیا علم۔ اب کیا سارے بچے اسکول جا سکتے ہیں؟ سب کو نئے اچھے کپڑے اور جوتے مل سکتے ہیں؟ ایک گھر میں چھے بچے ہوں تو کیا ہر ایک بچے کو پوری توجہ اور پیار محبت مل سکی ہے؟ بھئی کیا باتیں بنائی جا رہی ہیں۔ بچوں سے مزدوری نہیں لی جا سکتی۔ کیوں بھئی؟ اور یہ جو اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں دس دس کلو کے بستے پکڑا کر یہ مزدوری نہیں؟ اسکول کے بعد ٹیوشن پھر مولوی صاحب یہ سب کیا ہے؟ نرا بیگار ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ کسی کام کسی ہنر میں انہیں لگا دیا جائے، چار پیسے کما کر لایں گے تو حالات بہتر ہی ہوں گے نا؟ حکومت کا بوجھ ہلکا ہو گا۔ اب باہر انہیں کیسا ماحول ملتا ہے؟ کس قسم اور قماش کے لوگ ٹکراتے ہیں، اس کی گارنٹی کون دے سکتا ہے۔ گھر، اسکول، مسجد، بھی کون سی محفوظ جگہیں ہیں؟

دنیا میں ’ گے رائٹس ’ کی بات کب سے ابھر رہی ہے۔ وہ اپنا دھنک رنگ جھنڈا لہراتے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بے فکری سے گھومنے لگے۔ ہم نے بھی ذرا ترقی کی اور خود کو روشن خیال ثابت کرنا چاہا تو خواجہ سرا کے حقوق کی باتیں کرنے لگے۔ چلو بہت اچھی بات ہے۔ انہیں تعلیم اور کام کے مواقع ملیں۔ شناختی کارڈ میں ایک تیسری جنس شامل کر دی گئی۔ لیکن وہ محبت کرنے، شادی کرنے اور پھر بچے گود لینے کے حقوق نہ مانگیں یہ انہیں نہیں مل سکتے۔ خواجہ سرا تو پیدا ہی ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ کی مخلوق ہیں لیکن یہ ہم جنس پرست ’ لیزبین اورگے’۔ یہ گمراہ لوگ ہیں۔ ان جیسے لوگوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ خود ساختہ صورت حال ہے۔ بس کچھ فیشن سا بن گیا ہے۔ ان لوگوں میں کوئی خامی، کمی یا کجی ہے۔ اس کا علاج کیا جانا چاہیے۔ تھراپی ہونی چاہیئے۔ یا تو یہ بیماری ہے یا سراسر بے راہروی ہے۔ دونوں صورتوں میں ناقابل قبول ہے۔

والدین کے حقوق۔ سبحان اللہ۔ سب سے زیادہ حقوق والدین کے ہی ہیں۔ ان کے سامنے اف تک نہیں کرنی۔ ان کا کوئی حکم نہیں ٹالنا۔ وہ غلط بھی ہوں تو حجت نہیں کرنی۔ آخر کو انہوں نے پیدا کیا ہے۔ جیسی تیسی پرورش بھی کی۔ بیٹیاں ہرگز احتجاج نہ کریں اگر انہیں بھائی جتنی تعلیم نہ دلوائی جائے۔ آخر کیا کریں گی وہ پڑھ لکھ کر؟ کرنا تو وہی ہانڈی روٹی ہے نا؟ بیٹا بڑھاپے کا سہارا ہے۔ اسے اچھی تعلیم، اچھی خوراک اور گھر کا آرام ملنا چاہیئے۔ اب بیٹے گھر کے کام کرتے اچھے تو نہیں لگتے نا؟

بیٹا بڑا ہو کر کیا بنے گا اس کا انتخاب بھی والدین کا ہی حق ہونا چاہییے۔ وہی تو ہیں جو پڑھا لکھا رہے ہیں۔ پھر شادی کی بات۔ یہ حق بھی والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے رشتے اپنی مرضی اور سہولت دیکھ کر کریں۔ سنا نہیں آپ نے کہ ماں باپ بچوں کا کبھی برا نہیں چاہتے؟ لیکن ان کی اپنی کچھ خاندانی، ذات برادری کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو پاکستانی ڈرامے دیکھ لیں۔ ایک نو لکھے ہار کی خاطر بیٹے بیٹیاں سب قربان کردی جاتی ہیں۔ عزت اور وقار کا سوال ہے جناب۔ بچوں کی شادیاں جو آپ کو بے جوڑ نظر آتی ہیں اس میں بھی مصلحت ہے۔  اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ زمینیں کسی غیر کو سونپ دیں کیا؟ اولاد کو ہمدردی سے یہ مجبوری سمجھنی چاہیئے۔ والدین پہلے پیار محبت سے۔ پھر ڈانٹ ڈپٹ سے اور پھر منت سماجت سے بات منوا لی جاتی ہے۔ آخری آپشن باپ کی پگ اور ماں کی چادر کا واسطہ رہ جاتا ہے ،اس پر احتجاج اولاد کو زیب نہیں دیتا۔

اب سب سے طاقتور طبقے الرجال یعنی مرد کی بات کرتے ہیں۔ ان کے حقوق ہی حقوق ہیں۔ ویسے تو فرائض بھی بہت ہیں لیکن اسے چھوڑیں۔ بات ہو رہی ہے حقوق کی۔ مرد کا سب سے پہلا حق عورت پر ہے۔ اور مرد کے حقوق کی ادائی عورت کا پہلا فریضہ ہے جو اگر اس نے ادا نہ کیا تو آسمان کے سارے ملائک یک زبان ہو کر اس پر لعنتیں برسائیں گے۔ زمین تو اس پر تنگ ہے ہی، فلک کا در بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔

 ہم تو سمجھتے تھے کہ مرد کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ انہیں بن مانگے، بنا جدوجہد کئے، پیدایش کے لحاظ سے ہی سب کچھ مل گیا ہے۔  لیکن بہت سے مرد ابھی بھی ناآسودہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے حقوق غصب کیئے جا رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں اس پر آواز اٹھائی گئی ہے۔ اور اس بھی بہت پہلے آسٹریا میں مردوں کے حقوق پر بات ہونے لگی تھی۔ ستر کی دہائی میں ایک باضابطہ تنظیم بھی بنا لی گئی۔ مینز رایئٹس موومنٹ۔ جس کا کہنا ہے کہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ ساری اچھی جابز عورتیں لے اڑتی ہیں۔ سیاست میں بھی عورتوں کو زیادہ پروموٹ کیا جاتا ہے۔ ملک کے فیملی لا بھی عورت کو بیشتر حقوق دیتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں بچے عورت کو دے دیے جاتے ہیں۔ مرد کو بچوں سے دوری کے علاوہ نان نفقہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی جایئداد اور ملکیت میں سابقہ بیوی کو شریک بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ سراسر مردوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس تنظیم میں یہ شکایت بھی کی گئی کہ مرد بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کی بات بہت کم کی جاتی ہے۔ غرض کہ عورتیں مردوں کے حقوق غصب کئے بیٹھی ہیں اور بچارے مرد کہاں جائیں؟ اس تنظیم پر خوب تنقید ہوئی۔ انہیں میسوجنسٹ کہا گیا۔

انٹر نیٹ کی آمد نے اس آواز کو بلند کر دیا۔ کئی ایسے گروپ بن گئے جہاں مظلوم مرد اپنی مظلومیت کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ ان تمام تنظیموں کو فیمینسٹ مخلاف قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان کے طرفدار بھی بہت ہیں۔ ان کے حق میں بڑے بڑے جغادری لکھاری اور اسکالرز لکھتے اور کہتے رہے ہیں۔ پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر مردوں کی حالت پر کچھ ترس سا آنے لگتا ہے۔

ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ مرد کا استحصال اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اسے بچپن سے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مرد بچہ ہے اور اسے ایک مضبوط مرد بن کر ابھرنا ہے۔ جو نہ روتا ہے نہ اسے درد ہوتا ہے اور نہ ہی جذباتی ہونا اسے زیب دیتا ہے۔ مرد بچارے مرد کس قدر پریشر میں ہیں۔

ان سب حقوق کے ذکر میں وہ بات رہ گئی جس کی خاطر یہ تمہید باندھی۔ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔

 ‘گرینڈ پیرنٹس رائٹس’۔ یعنی دادا دادی، نانا نانی کے حقوق۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ گرینڈ پیرنٹس رایئٹس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ شدید حیرت ہوئی یہ جان کر اب تک کوئی بھی ایسی تنظیم نہ بن سکی جو گرینڈ پیرنیٹس کے حقوق کی آواز اٹھائے۔ بس سال میں ایک بار ایک دن منا کر کافی سمجھا جاتا ہے۔ جی نہیں یہ کافی نہیں۔

سوچا کہ چلو ہم ہی کچھ ایسا کر لیں۔ ایک تنظیم سازی شروع کی جائے۔ ہم خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک پیج پر لایا جائے۔ تحریک چلائی جائے، پارٹی بنائی جائے۔ اس کا مینی فیسٹو بھی کچھ کچھ تیار ہے۔ موٹے موٹے نکات بنا لیئے ہیں۔ باقی ہم سب مل جل کر اس میں کچھ اور نکات بھی ڈال سکتے ہیں۔ جب والدین اپنے بچے پال پوس رہے ہوتے ہیں اس وقت ان کے کاندھوں پر فرائض اور ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ ہوتا ہے وہ بچوں کی تربیت کرنے میں وقت لگا دیتے ہیں اور انہیں انجوئے کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ اس لیے یہ کمی وہ گرینڈ کڈز کے ساتھ لاڈ کرکے پوری کرتے ہیں۔ گرینڈ کڈز کے ساتھ گذرا ہر لمحہ پر مسرت ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گذار کر بچے بحفاظت والدین کو واپس کر دیے جاتے ہیں۔

فی الحال یہ چند نکات بنائے ہیں۔ آپ سب بھی ان پر غور فرمایئے۔

۔ گرینڈ پیرینٹس جب چاہیں اپنے گرینڈ چلڈرن سے ملنے کا حق رکھتے ہیں۔ 1

۔ گرینڈ چلڈرن بھی، جب دل چاہئے گرینڈ پیرینٹس سے ملنے کو، انہیں آنے دیا جائے۔ 2

 بچے جب ملنے آیں تو پتزا، برگر اور چوکلیٹس جو چاہیں کھائیں۔ اور جتنا چاہیں کھائیں۔ 3

۔ سلیپ اور کے لئے آئیں تو جب تک چاہیں، جاگیں اور مستیاں کریں۔ 4

۔ سونے جاگنے کے اوقات کی پابندیاں والدیں اپنے گھر میں کروائیں۔ ہمارا گھر ہماری مرضی۔ 5

۔ بچے جب گرینڈ پیرینٹس کے پاس آئیں تو ان کے ساتھ ہدایت نامے کی لسٹ نہ بھیجیں۔ 6

بچے کیا کھائیں، کیا کریں، کیسے وقت گزاریں یہ گرینڈ پیرنٹس اور گرینڈ کڈز مل کر فیصلہ کریں گے۔ ہمیں مت بتایں کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ آخر ہم نے بھی بچے پالے ہیں۔ ہیں نا؟ اور جب بچے واپس اپنے گھر جایں تو کرید کرید کر مت پوچھیں کہ انہوں نے کیا کھایا اور کب سوئے۔ اور نہ ہی ہمیں فون کر کے کہا جائے کہ ہم بچوں کو بگاڑ رہے ہیں۔

بچوں کے لاڈ اٹھانا اور انہیں بگاڑنا گرینڈ پیرینٹس کا اولین فرض ہے۔ انہیں یہ فرض ادا کرنے سے نہ روکا جائے۔ تربیت اور روک ٹوک والدین اپنے گھر تک رکھیں۔ ہمارا گھر ہمارے اصول۔

آپ میں سے جو صاحبان دادا دادی نانا نانی کے عہدے پر فائز ہو چکے ہیں اور اس تحریر سے اتفاق کرتے ہیں آیئے مل کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔

دادا دادی نانا نانی پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).