آئی آف پراویڈینس: فری میسنز اور الیومناٹی سے منسلک ایک علامت جو سازشی نظریات کا گڑھ ہے


سازشی نظریات خفیہ علامتوں اور خفیہ تصویری نشانیوں پر پروان چڑھتے ہیں۔ ’آئی آف پراویڈینس‘ بھی ایک ایسی ہی تصویری علامت ہے جو دراصل مثلث کے اندر رکھی ہوئی ایک آنکھ کی تصویر ہے۔

یہ علامت ’فری میسنز‘ نامی تحریک سے منسلک کی جاتی ہے تاہم اسے بدنام زمانہ اور مشکوک الیومناٹی تحریک (مبینہ طور پر اشرافیہ کا وہ خفیہ اور طاقتور ترین گروہ جو عالمی امور کو مکمل کنٹرول کرتا ہے) سے بھی جوڑا جاتا ہے۔

شاید ہی کسی دوسری خفیہ علامت یا نشانی نے اتنے سازشی نظریات کو جنم دیا ہو جتنا کہ ’آئی آف پراویڈینس‘ نے۔ اور وجہ یہ ہے کہ یہ عام دکھائی دی جانے والی علامت ہے جو کہ ناصرف دنیا بھر میں موجود مسیحی عبادت گاہوں اور فری میسنز کی یادگار عمارتوں پر چسپاں نظر آتی ہے بلکہ امریکہ کے ایک ڈالر کے نوٹ کی پیچھے والی سائیڈ پر بھی یہی علامت موجود ہے۔

اور تو اور یہ امریکہ کی ’عظیم مہر‘ پر بھی کندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے طاقتور افراد کے خفیہ گروہ ’الیومناٹی‘ کی کہانی کیسے شروع ہوئی؟

لوگ بحرانی کیفیت میں سازشی نظریات کا زیادہ شکار کیوں ہوتے ہیں؟

ذہین افراد افواہوں پر کیوں یقین کر لیتے ہیں؟

حقیت یہ ہے ریاست کی علامت کے طور پر اس کا انتخاب غیر معمولی اور واضح طور پر عجیب ہے۔ یہ آنکھ اور اس کے نیچے موجود اہرام بظاہر کسی قدیم اور خفیہ فرقے یا مذہب کی طرف نشاندہی کرنے والی علامتیں دکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے اس نشانی کی ابتدا کہاں سے ہوئی، یہ ہمیں اتنی مسحور کیوں کرتی ہے اور اس نشانی کو فری میسنز اور الیومناٹی تحریک کے ساتھ کیوں جوڑا جاتا ہے؟

ابتدائی طور پر آئی آف پراویڈینس ایک مسیحی نشان تھا اور خدا کی نمائندگی اور اس کے اظہار کے لیے اس نشانی کے استعمال کی ابتدائی مثالیں نشاط ثانیہ کے مذہبی فن پاروں میں نظر آتی ہیں۔

اس کی ابتدائی مثال پونٹورمو کی سنہ 1525 کی ایک پینٹنگ ’سوپر ایٹ ایموسس‘ میں نظر آتی ہیں۔ اگرچہ پینٹنگ میں موجود آنکھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس پینٹنگ میں غالباً سنہ 1600 میں شامل گئی، یعنی ابتدائی پینٹنگ میں یہ موجود نہ تھی بلکہ بعد میں اسے اس کا حصہ بنایا گیا۔

اس شبیہہ کا ایک اور کلیدی ماخذ ایک کتاب تھی جسے ‘آئکنولوجی’ کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے سنہ 1593 میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز میں ’آئی آف پراویڈینس‘ کو ’خدا کے احسان‘ کی صفت کے اظہار کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس علامت کا نام اور اس کے ابتدائی استعمال سے پتا چلتا ہے کہ یہ انسانیت پر خدا کی شفقت کے اظہار کی نشانی کے طور پر استعمال ہوئی تھی۔

کوئی بھی حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ اصل میں اس علامت کی ایجاد کس نے کی تھی، مگر ایسا جس نے بھی کیا تھا اس کے زیر نظر وہ مذہبی علامتیں اور نشانیاں ہوں گی جو اس وقت مستعمل تھیں۔ مثلاً مثلث ’باپ ، بیٹے اور روح القدس‘ کی مسیحی تثلیث کی ایک پرانی علامت تھی۔

ماضی بعید میں بھی خدا کو ایک مثلث کے ہالے کے ساتھ دکھایا جاتا رہا ہے۔ روشنی کی کرنیں جو اکثر اس مثلث سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں وہ بھی مسیحی نقش نگاری میں خدا کے نور کی علامت ہیں۔

مگر اس مثلث پر موجود اس حیران کر دینے والی آنکھ کی اصلیت کیا ہے؟ خدا کو اس سے پہلے متعدد خفیہ طریقوں سے دکھایا گیا تھا، جیسے بادل سے نکلا ہوا ایک ہاتھ، مگر آنکھ کے نشان کے ذریعے خدا کا اظہار کبھی نہیں ہوا تھا۔

یہ کہنا درست ہو گا کہ ایک ’اکیلی آنکھ‘ کا دیکھنے والے پر اپنا نفسیاتی اثر ہوتا ہے، جو ’اختیار‘ اور ’کسی کے ہمہ وقت دیکھنے‘ کا اظہار ہے۔ یہاں تک کہ آپ فطرت میں اس کا اثر دیکھ سکتے ہیں، مثلاً بعض جانوروں نے ارتقائی عمل سے گزرنے کے دوران شکاریوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اپنی جلد پر ’آنکھوں کے نشانات‘ نمودار کر لیے ہیں۔

لیکن ’غور‘ کرنے کے لیے آنکھ کی بطورِ علامت استعمال کی ایک پرانی تاریخ ہے۔ اس کی ابتدا ہمیں قدیم مذاہب کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔ تین ہزار قبل مسیح میں سومری باشندوں نے جو مجسمے بنائے ان میں سے بعض کی آنکھیں غیر معمولی حد تک بڑی بڑی بنائیں جو ان مجسموں کی تقدیس کا اظہار تھیں۔

یہاں تک کہ انھوں نے ایسی مذہبی تقاریب کا انعقاد کیا جس میں مجسمے بنانے والوں نے علم کی مدد سے آنکھیں کھول کر ’مجسموں‘ کو زندہ کرنے کے فن کا مظاہرہ کیا۔

لیکن یہ قدیم مصری تھے جنھوں نے ایک محرک کی حیثیت سے علیحدہ یا اکیلی آنکھ کی بطور علامت ابتدا کی تھی۔ مثال کے طور پر تابوت پر کندہ کی ہوئی آنکھ، جو ان کے عقائد کے مطابق مرنے والے کو موت کی بعد کی زندگی میں دیکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اور مصری علامتوں میں سے ایک مشہور ترین علامت ’آئی آف ہورس‘ ہے۔

’آئی آف ہورس‘ نامی نقش دراصل ایک انسانی اور عقاب کی آنکھوں کا ایک مرکب ہے اور اس میں عقاب کی گہری بھنویں اور گال کے نشانات شامل ہیں۔

قدیم مصری افسانوں کے مطابق، دیوتا بادشاہ ہورس (جسے اکثر فالکن کی حیثیت سے دکھایا جاتا ہے یا فالکن کے سر کے ساتھ) کی آنکھیں اپنے چچا کے ساتھ ہونے والی ایک جنگ کے دوران کاٹ کر نکال لی گئیں تھیں۔ دیوتا ہورس کی نکلی ہوئی آنکھیں بعد میں ایک اور دیوتا نے ٹھیک کر دی تھیں۔ لہذا ’آئی آف ہورس‘ ایک حفاظتی علامت تھی، جسے اکثر ایک تعویذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی جیب میں رکھتے تاکہ وہ محفوظ رہ پائیں۔

’آئی آف ہورس‘ اور مصریوں کی اسی نوعیت کی دیگر نشانیوں اور علامتوں نے نشاط ثانیہ کے دور میں یورپی نقش نگاروں کو متاثر کیا۔ اس وقت کے یورپی مصنفین اور فنکاروں کو مصری تحریروں سے دلچسپی تھی۔ صرف ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ اسے پوری طرح سے نہیں سمجھتے تھے۔ سنہ 1499 کے ایک مشہور و معروف رومانوی نمبر میں مصر کی ایک آنکھ والی علامت کا ترجمہ بطور’خدا‘ کیا گیا تھا۔

اور ایسا تصویری تحریروں کے اصل استعمال کے حوالے سے پائی جانے والی بنیادی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔ آج کل ہم جانتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر صوتی علامات کی تحریری زبان ہیں، لیکن 14ویں اور 15ویں صدی میں ایسی تصویری تحریروں کو باطنی اظہار کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔

ان تحریری تصویروں میں موجود علامتیں جیسا کہ جانور، پرندے اور تجریدی شکلوں کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ وہ زبان کے اظہار کے ذریعے کی بجائے پراسرار نشان ہیں جن کے کچھ مخفی معنی ہیں۔

اور اس عقیدے کا یورپی فن پر بہت گہرا اثر ہوا۔ جب 15ویں صدی میں علامتوں کی لغتیں سامنے آئیں تو ان میں پورا زور خفیہ اور اکثر انتہائی پیچیدہ بصری علامتوں پر ہوتا تھا، ان لغتوں کو دیکھنے والوں کو اُن علامات کے معنی سمجھنے اور مطلب اخذ کرنے کے تفریحی عمل میں شریک ہونا ہوتا تھا۔

اس کے نتیجے میں ’آئی آف پراویڈینس‘ جیسے محرک کے باطنی معنی تھے۔ یہ ایک علامت ہے جس کی غلط ترجمانی بھی کی جا سکتی ہے۔

انقلابِ فرانس کے بعد سنہ 1789 میں جین جیکس کے ’انسانوں اور شہری حقوق‘ کے اعلامیے میں لکھے گئے نئے متن سے اوپر آئی آف پراویڈینس بنائی گئی ہے۔ شاید اس معاملے میں اسے ایک ایسے نشان کے طور پر دکھایا گیا جو قوم پر نظر رکھنے کا ایک ذریعہ ہو گی۔

برطانیہ میں سنہ 1794 میں جیریمی بینتھم نے معمار (آرکیٹیکٹ) وللی رویلے کو ’پینوپٹیکون‘ (ایک ایسی نئی جیل جہاں موجود تمام قیدیوں کے سیلز پر نظر رکھی جا سکے) کے لیے ایک لوگو ڈیزائن کرنے کا کام دیا۔ اور آرکیٹیکٹ کی جانب سے جب جیل کے لوگو کا نیا ڈیزائن سامنے آیا تو اس پر نمایاں طور پر آئی آف پراویڈینس کا نشان شامل کیا گیا تھا۔

سنہ 1782 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عظیم مہر کا نقشہ سامنے لایا گیا تھا۔ تھامس جیفرسن، بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز نے اس ڈیزائن کے لیے سفارشات تجویز کیں تھیں مگر درحقیقت یہ کانگریس کے سیکریٹری چارلس تھامسن تھے جنھوں نے اس مہر میں اہرام اور آئی آف پراویڈینس شامل کرنے کی تجویز دی۔ چارلس تھامسن نے اس معاملے میں ایک نوجوان وکیل اور فنکار ولیم بارٹن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔

نامکمل اہرام کا مقصد ’طاقت اور مدت‘ کی علامت کا اظہار تھا۔ اس میں موجود 13 فلورز امریکہ کی 13 ریاستوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اوپر بیان کی گئی تمام علامتوں کا جب انتخاب ہو رہا تھا جو اس میں کسی مرحلے پر بھی فری میسنز کا عمل دخل نہیں تھا۔

اب بات کرتے ہیں ایلومینیٹیز کی۔

اس گروپ، جو ابتدائی طور پر سنہ 1776 میں باویریا میں قائم ہوا اور 1787 میں ختم کر دیا گیا، کے بارے میں دستیاب اطلاعات نسبتاً غیر واضح ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے نزدیک بصری علامتیں کتنی اہم تھیں۔ یہ سچ ہے کہ الیومیناٹی فری میسنز کے نظریات سے متاثر تھے اور یہ فری میسنز ہی تھے جن کے گرجا گھروں پر آئی آف پراویڈینس کا استعمال کیا گیا تھا۔

میسنز نے 18ویں صدی کے اختتام تک اس نشانی کا بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کیا تھا خاص کر اس وقت تک نہیں جب بینتھم، لی باربیئر، تھامسن اور بارٹن نے اپنے معلوم مقاصد کے لیے اس تنظیم کو نہیں اپنایا تھا۔

ایک ڈالر کے بل پر اس نقش کا موجود ہونا ہمیں 18 ویں صدی کے آخر میں جمالیات کے اظہار کے بارے میں بتاتا ہے ناکہ کسی خفیہ اشرافیہ کے اختیار کے بارے میں۔

اگر حالیہ دور کی بات کریں تو میڈونا، جے زی اور کین ویسٹ پر ایلومینیٹی کے نشانات اور آئی آف پرویڈینس کے استعمال کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مگر یہ کسی خفیہ نشانی کے اظہار کے بجائے اس لوگو کا بے حد مقبول ہونا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp