ناکام لوگوں کی سات عادات


 

امریکی دانشور سٹیفن کووی کی کتاب ”موثر ترین لوگوں کی سات عادات“ بھی ایک مناسب اور کسی قدر مفید کتاب ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر کووی اگر غیر موثر یا ناکام لوگوں کی عادات پر کتاب لکھتے تو بہتر ہوتا۔ اس کی وجہ ہے کہ خیر سے دنیا میں موجود انسانوں کی ایک کثیر تعداد اسی درجہ بندی میں ہی آتی ہے۔ لہذا کتابی موضوع کے لیے یہی لوگ نسبتاً زیادہ مستحق تھے۔ ادھر ہمارا حال باقی دنیا سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہمارے ہاں ناکام حضرات کی تعداد ”نمک میں آٹے“ کے برابر ہے۔ مجھے پچھلے کچھ عرصہ سے ایسے حضرات کو ذرا قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ذیل میں ایسے لوگوں کی سات عادات کا تذکرہ ہے۔

زندگی کی دوڑ میں ناکام افراد کی پہلی عادت جو عموماً دیکھی گئی ہے وہ یہ کہ ان کے کہیں دور پار کے عزیزوں میں سے بھی کوئی صاحب کہیں افسر وغیرہ ہوں تو یہ اس کا تعارف یوں کروائیں گے جیسے وہ ان کا لنگوٹیا یار ہو۔ تعارف کرواتے ہوئے ان کا جوش دیدنی ہوتا ہے یوں کہ آپ کو لگے گا کہ ان دونوں کا آپس میں جو تعلق اور قربت ہے وہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ اور جب تعلق کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ اس کی گہرائی اور ”لمبائی“ واضح کرتے ہیں تو آپ اپنا سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔

مثلاً کسی افسر سے اپنے ’قریبی‘ تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ میری بیوی کی سگی پھوپھی کے داماد کا خالو یہاں اپنے شہر میں آج کل نائب تحصیل دار ہے۔ اور ابھی آپ اس اتنے نزدیکی تعلق کی بھول بھلیوں میں ہی گم ہوں گے کہ یہ اس کی قربت کو اور بھی واضح کرتے ہوئے مزید جوش سے بتائیں گے کہ یہ وہی افسر ہے جس کے والد کی شادی میں ان کے والد شرکت کرنے گئے تھے اور یہ اگرچہ بہت چھوٹے تھے لیکن یہ بھی اپنے والد کے ساتھ شادی میں گئے تھے۔

ان کی جیب میں ایسے کئی ”قریبی افسران“ کے وزیٹنگ کارڈ موجود رہتے ہیں جو تعلق کی سند کے طور پر یہ اکثر دکھاتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر اوقات ان حضرات کے پاس ایک پھٹی پرانی اور بڑی بوسیدہ سی پاکٹ ڈائری بھی ہوتی ہے جس میں ان احباب/ افسران کے فون نمبرز اور پتے وغیرہ درج ہوتے ہیں جو لگتا ہے کہ بوجوہ ان کو اپنے وزیٹنگ کارڈ دینے سے معذرت کر لیتے ہوں گے۔ ان افسران سے اپنائیت کی سطح بتانے کے لیے یہ ڈائری بھی ایک بڑا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔

کسی بھی افسر سے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے ان حضرات کا آخری جملہ بڑا معنی خیز اور دردناک ہو تا ہے۔ اکثر اوقات اس موقعے پر آ کر ان کا چہرہ ان کی گفتگو کا ساتھ نہیں دیتا۔ جملہ یہ ہوتا ہے، ”اب ایک عرصے سے ہم نے فلاں افسر سے میل ملاپ بند کیا ہوا ہے“ ۔ سننے والے کے لیے یہ جاننا چنداں مشکل نہیں ہوتا کہ یہ ’ترک تعلق‘ اختیاری ہے یا اضطراری۔

ان حضرات کی اگلی عادت یہ ہے کہ یہ اپنی ناکامیوں کے لیے ہمیشہ کسی دوسرے کو موردالزام ٹھہرائیں گے۔ یہ ہمیشہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ فلاں شخص کی وجہ سے انہیں آج یہ دن دیکھنا پڑا۔ یہ کسی کام کے لیے باقاعدہ آپ کے پیچھے پڑھ کر مشورہ مانگیں گے اور اگر غلطی سے آپ نے کوئی مشورہ دے دیا تو بس پھر اس کے بعد اس کام میں کسی بھی کمی، خامی، کوتاہی یا ناکامی کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہے۔

پھر یہ لوگ عادتاً بہت بری طرح خود ترحمی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں ( اور سمجھاتے ہیں ) کہ ان کے پڑوسی خیر دین سے لے کر امریکی صدر تک۔ تمام لوگ پورے زور و شور سے بس انہیں ناکام کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے آس پاس موجود کئی لوگوں کا ٹاپ ایجنڈا صرف ان کے راستے میں روڑے اٹکانا ہے اور وہ سب بڑی تندہی سے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں لوگوں کو کوئی اور بھی ضروری کام درپیش ہو سکتا ہے لیکن ان کی پسپائی بہرطور ان لوگوں کی ترجیح اول ہے۔

اور پھر یہ صرف لوگوں پر ہی موقوف نہیں ان کے مطابق ایک پورا نظام کائنات ہے جو پورے شد و مد کے ساتھ انہیں ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ خفیہ قوتیں ان کے درپے ہیں اور وہ کئی گہری بھیانک سازشوں کی زد پہ ہیں۔ چنانچہ اک زمانہ جب ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہے تو ان کی ناکامی بالکل متوقع اور نوشتہ دیوار تھی۔ چنانچہ وہی ہوا جو نظر آ رہا تھا۔

ان حضرات کی ایک عادت یہ ہے کہ یہ دوسروں کے کاموں میں کیڑے نکال کر ان کی اصلاح کرنے پر لگے رہتے ہیں۔ یہ خود بھلے سائیکلوں کو پنکچر لگانے کا کام کر رہے ہوں لیکن یہ آپ کو بتائیں گے کہ وزیراعظم نے اپنی آخری تقریر میں کون سی غلطیاں کیں اور انہیں کس جگہ پر کیا بولنا چاہیے تھا۔ کسی کامیاب انسان کا ذکر ان کے سامنے کریں تو یہ اس میں پچاس خامیاں نکال کر دکھا دیں گے۔

یہ لوگ ازلی مایوس ہوتے ہیں۔ ان کی ایک مستقل اور پکی عادت ہوتی ہے کہ کہ اگر کسی کام کے متعلق یہ گمان ہو کہ اس میں صرف ایک فیصد لوگ ناکام ہو سکتے ہیں تو یہ خیر سے اپنے آپ کو وہی ایک فیصد خیال کرتے ہوئے وہ کام کبھی نہیں کریں گے۔ اگر ناکامی دنیا کے دوسرے کنارے پر بھی نظر آئے تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ نگوڑی اپنی طرف ہی بڑھ رہی ہے۔ یہ چالیس سال کی عمر میں اپنے آپ کو ریٹائرڈ اور بوڑھا تصور کرتے ہیں اور اسی عمر میں ہی اپنے کام اور فرائض وغیرہ اپنے کمسن بچوں کو سونپتے ہوئے یہ کہتے پائے جاتے ہیں ”بھئی! ہم نے تو جو کرنا تھا کر لیا۔ اب آگے بچے جانیں اور ان کا کام۔“ ۔ یا۔ ”۔ اب تو ہماری امیدوں کا واحد مرکز بچے ہی ہیں۔“ گویا یہ بہت جلدی ہار مان کر میدان چھوڑ جاتے ہیں۔

پھر یہ لوگ اظہار تشکر کی نعمت سے کلیتاً محروم ہوتے ہیں۔ شکر خدا تعالیٰ کا ہو یا کسی انسان کا یہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ یہ موجود نعمتوں کو Taken for granted سمجھتے ہیں۔

ان حضرات کی ساتویں عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ sharing پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے پاس کچھ بھی ہو۔ پیسہ، ہنر، وقت۔ یہ کسی کو دینے میں انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ بلا کے مفاد پرست ہوتے ہیں اور مجال ہے جو انہوں نے اپنے کسی قریبی سے قریبی انسان کی زندگی میں کوئی value add کرنے کا کبھی سوچا بھی ہو۔ یہ بدگمانی کا شکار رہتے ہیں اور شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ کسی کو کچھ دیں تو آگے سے کیا ملے گا۔

ہر انسان کے تجربات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے متذکرہ بالا ان سات عادات کے حامل افراد کو کبھی ایک کامیاب زندگی گزارتے نہیں دیکھا۔ اور بالفرض محال ان میں سے کوئی کسی حد تک بظاہر کامیاب ہو بھی جائے تو اسے خوشی اور سکون نصیب ہوتے نہیں دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).