الوداع” کاون“


اگر سب کچھ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوتا ہے تو دو دن بعد، یعنی 29 نومبر کی صبح چھ بجے کارروائی شروع ہو جائے گی۔ ”کاون“ کو کئی ہفتوں سے لوہے کے بنے ایک بہت بڑے پنجرے میں داخل ہونے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ کسی ترغیب کے سبب وہ اس فولادی پنجرے میں آ جائے گا۔ ٹھیک دس بجے اسے انجکشن لگیں گے جن کے باعث وہ بے ہوش ہو کر پنجرے میں ہی گر پڑے گا۔ تقریباً پانچ ٹن وزنی ”کاون“ کے فولادی پنجرے کو کرین کے ذریعے ایک بڑے ٹرک پر سوار کیا جائے گا۔

معلوم نہیں اس کی اسلام آباد کے اس قید خانے سے رہائی کے لئے ساری دنیا میں آواز اٹھانے والی امریکی گلوکارہ ”شیر“ (Cher) اس موقع پر یہاں موجود ہو گی یا نہیں، لیکن ان سرکاری اہلکاروں میں سے کچھ ضرور اسے الوداع کہنے موجود ہوں گے جنہوں نے اٹھارہ سال سے اسے لوہے کی بھاری زنجیروں کے ساتھ باندھ رکھا تھا اور اسے موت کنارے پہنچا دیا تھا۔ ”کاون“ کا ٹرک اسلام آباد کی ایکسپریس ہائی وے سے گزرتاہوا ”نور خان“ ائر بیس پہنچے گا۔ ”کاون“ کے پنجرے کو اس طرح ڈھانپ دیا جائے گا کہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ روس کا ایک کارگو طیارہ، کل 28 نومبر کی شام ہی نور خان ائر بیس پہنچ جائے گا۔ کرین ہی کی مدد سے ”کاون“ کا فولادی پنجرہ طیارے میں لادا جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ کر کمبوڈیا روانہ ہو جائے گا۔

کاون (Kaavan) ایک ہاتھی ہے جو تقریباً تین دہائیوں سے اسلام آباد کے ”مرغزار“ نامی چڑیا گھر میں عوام بالخصوص بچوں کی تفریح کا سامان بنا ہوا تھا۔ وہ پینتیس سال پہلے 1985 میں سری لنکا میں پیدا ہوا۔ اس کا نام ”کاون“ رکھا گیا۔ اس کی عمر تقریباً ایک سال تھی کہ اس وقت کے پاکستانی صدر، جنرل محمد ضیا الحق سری لنکا کے دورے پر گئے۔ میزبان حکومت نے ”نوعمر کاون“ جنرل صاحب کی صاحبزادی کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔

یوں ”کاون“ ماں باپ سے بہت دور اسلام آباد کے چڑیا گھر، ”مرغزار“ میں پہنچ گیا۔ مرغزار، مارگلہ کی شاداب پہاڑیوں کے دامن میں درختوں میں گھرا ایک خوبصورت قطعہ زمین ہے جو شروع میں تو ایک پارک تھا لیکن 1978 میں یہاں ایک چڑیا گھر آباد ہو گیا۔ ہاتھی، شیروں، چیتوں، بھیڑیوں، بندروں اور طرح طرح کے سینکڑوں چرند پرند کا یہ گھر اسلام آباد والوں کی بہت بڑی تفریح گاہ بن گیا۔ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ”سی۔ ڈی۔ اے“ کے سپرد تھی۔ اور پھر وہی ہوا جو ہمارے بیشتر سرکاری اداروں کا معمول ہے۔ جانوروں کی بد حالی کی کہانیاں عام ہوئیں۔ چڑیا گھر اجڑتا چلا گیا۔

”کاون“ کو اپنا نیا ٹھکانہ پسند نہ آیا۔ وہ بری طرح تنہائی کا شکار تھا۔ اس کا احاطہ بھی ڈربہ نما تھا اور نقل و حرکت کی زیادہ گنجائش نہ تھی۔ 1990 میں بنگلہ دیش سے ایک ہتھنی لائی گئی اور یوں کاون کی تنہائی کسی قدر کم ہو گئی۔ ہتھنی کا نام ”سہیلی“ تھا۔ 2012 میں سہیلی مر گئی۔ اس دن کے بعد سے کاون کے رویے میں بہت سختی آ گئی۔ اسے زنجیر تو پہلے ہی ڈلی ہوئی تھی۔ اب وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہو کر اپنا سر دائیں بائیں گھماتا یا دیوار سے ٹکراتا رہتا۔ ناکافی خوراک اور نگرانوں کی سختی کے باعث وہ واضح طور پر بیمار رہنے لگا۔ وہ بے طرح موٹا اور بھدا ہوتا گیا۔ اب اسے دیکھنے والوں کو لطف کے بجائے رحم آتا۔

پانچ سال پہلے، امریکہ میں جانوروں کے علاج معالجے کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک پاکستانی طالبہ ثمر خان اسلام آباد آئی۔ وہ مرغزار چڑیا گھر گئی۔ ”کاون“ کی حالت زار دیکھ کر وہ کانپ اٹھی۔ اس نے پہلی بار سوشل میڈیا پر عوام کو ”کاون“ کی حالت زار سے آگاہ کیا۔ اس کی آن لائن پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں بیدار ہو گئیں۔ معروف امریکی گلوکارہ شیر (cher) بھی اس مہم کا حصہ بن گئی۔

اس کی اپنی تنظیم free the wild مہم کا ہر اول دستہ بن گئی۔ شیر نے کہا کہ وہ ”کاون“ کو اسلام آباد سے کمبوڈیا لانے کا تمام خرچہ خود اٹھائے گی۔ اس خرچے کا تخمینہ چار لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے چھ کروڑ روپیہ لگایا گیا ہے۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیم ”چوپایہ“ (Four Paws) کے نمائندے اسلام آباد پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ”کاون“ ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہے۔ وہ شدید تنہائی کا شکار ہے۔ ا س کے پاؤں زخمی ہیں۔ ناخن ادھڑ رہے ہیں۔ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ پوری خوراک بھی نہیں دی گئی۔ بعد میں ایک خبر یہ بھی آئی کہ کاون کے لئے لائی جانے والی شراب اہلکاروں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ جس طرح شیروں اور چیتوں کے لئے لایا گوشت گھروں کی ہانڈیوں میں پکتا ہے۔

ایک مقامی وکیل اویس اعوان، اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ ہفتوں کیس چلا۔ ”کاون“ کی حالت زار کی تفصیلات سامنے آئیں۔ یہ بھی معلو م ہوا کہ صرف چار سالوں میں دو درجن سے زائد جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو شیروں کو پنجروں کی طرف دھکیلنے کے لئے آگ کا الاو روشن کیا گیا۔ شیر پنجروں میں گھس تو گئے لیکن تپتی ہوئی سلاخوں اور دھوئیں کی وجہ سے مر گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 67 صفحات پر مشتمل ایک تاریخی فیصلہ لکھا اور حکم دیا کہ دو ماہ کے اندر اندر تمام جانوروں کو اندرون ملک یا بیرون ملک روانہ کر کے چڑیا گھر بند کر دیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں جب سارے جانوروں کی فہرست مرتب ہوئی تو پتہ چلا کہ پانچ سو جانور غائب ہیں۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہاں گئے۔

”کاون“ کو فولادی پنجرے کی طرف مائل کرنے کے لئے عالمی ماہرین کئی ہفتوں سے موجود ہیں۔ تنظیم ”چوپایہ“ کے ایک ماہر ڈاکٹر عامر خلیل نے کاون سے دوستی لگائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اسے گانے سناتا ہوں اور کاون کافی محظوظ ہوتا ہے۔ کاون کی رخصتی کے لئے ایک چھوٹی سی تقریب ہوئی۔ بچوں نے روتے ہوئے اسے الوداع کہا۔ ایک دن صدر مملکت بھی اسے خدا حافظ کہنے آئے اور جانوروں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا ذکر کر کے چلے گئے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے آخری نبی ﷺ نے جانوروں کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کی کتنی سخت تاکید فرمائی ہے۔ بیسیوں احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ لیکن جو سلوک ہم چڑیا گھر کے جانوروں سے کر رہے ہیں اسے ساری دنیا جانتی ہے۔ ”کاون“ کے کام بھی غیر ہی آئے۔

درخواست کی گئی کہ کاون کا طیارہ سری لنکا کی فضاوں سے کمبوڈیا لے جانے کی اجازت دی جائے۔ ”کاون“ کے ماں باپ تو شاید زندہ نہ ہوں۔ یوں بھی وہ بے ہوش پڑا ہو گا لیکن وطن کی فضاوں کی علامتی قربت شاید وہ محسوس کر سکے۔ کاون کو ابتدائی طور پر ایک خصوصی پناہ گاہ میں رکھا جائے گا اور پھر پچیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگل میں کھلی نقل و حرکت کے لئے چھوڑا جائے گا۔

”کاون۔“ ریاست مدینہ سے رخصت ہو جائے گا تو مرغزار چڑیا گھر میں صرف دو ہمالیائی بھورے ریچھ رہ جائیں گے۔ دونوں کی حالت بہت خراب ہے۔ انہیں بھی خصوصی پنجروں میں داخل ہونے اور رہنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اگلے ماہ، دسمبر کی چھ تاریخ کو انہیں اردن روانہ کر دیا جائے گا۔ یوں پاکستان کے دارالحکومت میں واقع مرغزار چڑیا گھر ہماری ناہلی، بے حسی اور جانوروں سے بد سلوکی کا نوحہ پڑھنے والا ویرانہ بن جائے گا۔

”کاون“ کو اسلام آباد سے کمبوڈیا تک کوئی دس گھنٹے کا طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس کی سلامتی کی دعا کیجیے۔ اس کی عمر 35 برس ہو چکی ہے اور وہ بیمار ہے۔ معلوم نہیں اس پر کیا گزرتی ہے لیکن جو بھی گزرے، وہ اسلام آباد کی قید، بھاری زنجیروں اور بھوک ننگ سے اچھی ہی ہو گی۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).