امریکی ریاست یوٹاہ کے صحرا میں نصب پراسرار ڈھانچہ، معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی دوڑ


David Surber standing in front of the monolith
David Surber
ڈیوڈ سُربر اس مقام تک پہنچنے والے پہلے غیر سرکاری فرد تھے
پہلے شخص کو اس مقام تک پہنچنے میں صرف 48 گھنٹے لگے۔

پیر کے روز امریکی ریاست یوٹاہ میں حکام نے انکشاف کیا کہ انھیں ایک چمکتا ہوا دھات سے بنا ایک ایسا ماڈل یا سٹرکچر ملا جو ریاست کے ریڈ راک صحرا میں زمین میں دھنسا ہوا تھا، لیکن حکام نے اس ماڈل کو ملنے والی جگہ کو خفیہ رکھا۔

انھیں امید تھی کہ ایسا کرنے سے شاید وہ سیر و تفریح کی غرض سے جانے والے مہم جو افراد کو اس مقام سے دور رکھ سکیں گے، جہاں جانا کافی جان جوکھوں کا کام ہے اور ان کا کہنا تھا کہ لوگ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ وہاں گم ہو سکتے ہیں۔

لیکن ایسا ہونا ممکن نہ تھا اور بدھ کے روز انسٹاگرام پر ایسی تصاویر آنا شروع ہو گئیں جس میں لوگ اس سٹرکچر کے ساتھ تصاویر شائع کرنے لگے، شاید دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ سب سے پہلے یہاں تک پہنچے ہیں۔

لیکن یہ ابھی تک ایک معمہ ہے کہ یہ کیا چیز ہے، اور اسے صحرا میں کس نے نصب کیا، اور کیوں کیا۔

A wildlife official stands by the monolith

Utah Department of Public Safety
یوٹاہ کے صحرا میں موجود وہ پراسرار فن پارہ

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

مصر: ‘اہرام مصر خلائی مخلوق نے تعمیر نہیں کیے تھے’

سعودی عرب کی پراسرار تہذیب کے راز جاننے کی کوشش

لمبوترا مہمان سیارچہ یا خلائی مخلوق کا جہاز؟

نیو یارک میں خلائی مخلوق کی آمد؟

صحرا میں خفیہ مقام تک رسائی کیسے ہوئی؟

ان افراد کو ریڈ راک صحرا میں اس سٹرکچر کے مقام تک پہنچنے میں انٹرنیٹ کے صارفین نے مدد فراہم کی جنھوں نے بڑی تیزی سے گوگل ارتھ کی مدد سے اس جگہ کو تلاش کر لیا۔

امریکہ کے سابق فوجی اہلکار، 33 سالہ ڈیوڈ سُربر کہتے ہیں کہ انھوں نے اس مقام تک جانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ وہ چیز اس مقام پر پانچ سال سے چھپی ہوئی تھی۔

ڈیوڈ نے وہاں تک پہنچنے کے لیے رات بھر چھ گھنٹے گاڑی چلائی اور اس مقام تک پہنچے جسےشناخت کرنے کا دعوی ایک ریڈٹ صارف نے کیا۔

A picture of big horn sheep

Utah Department of Public Safety
ریاست کے حکام ہیلی کاپٹر سے ان مخصوص بھیڑوں کی گنتی کر رہے تھے

ریاست کے حکام نے 18 نومبر کو اس سٹرکچر کی شناخت اس وقت کی جب وہ ہیلی کاپٹر کی مدد سے اس جگہ کا معائنہ کر رہے تھے تاکہ وہاں پائی جانے والی مخصوص بھیڑوں کی گنتی کی جا سکے۔

ریڈٹ کے صارف ٹم سلین نے اس پر لکھا کہ انھوں نے ہیلی کاپٹر کی پرواز کا جائزہ لیا اور جس مقام پر وہ ریڈار سے غائب ہوا، اس جگہ کو نوٹ کر لیا کیونکہ اس سے یہ محسوس ہوا کہ شاید ہیلی کاپٹر زمین پر اتر گیا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے گوگل ارتھ کی مدد سے صحرا میں اس مقام کا جائزہ لیا اور اس کا موازنہ ان تصاویر سے کیا جو حکام نے جاری کی تھیں۔ اس کی مدد سے وہ اس چٹان کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بارے میں انھیں شک تھا کہ وہ ماڈل ادھر نصب ہے۔

اس مقام پر تصویر میں ایک لمبا اور پتلا سایہ نظر آ رہا تھا۔

گوگل ارتھ پر پرانی سیٹلائٹ تصاویر سے نظر آتا ہے کہ 2015 میں اس مقام پر یہ سایہ نہیں تھا لیکن اکتوبر 2016 میں وہ وہاں پر آ گیا تھا۔

ٹم سلین کہتے ہیں کہ انھیں اندازہ تھا کہ جب ایک دفعہ جگہ کے بارے میں معلومات آ جائے گی تو لوگ وہاں ضرور جانا چاہیں گے۔

Satellite images showing the location of the Utah monolith

Google Earth

'مجھے کئی غصے بھرے پیغامات آئے ہیں کہ میں نے اس مقام کی شناخت کیوں کی لیکن اگر میں نہ بھی کرتا تو کوئی اور کر لیتا۔'

یوٹاہ کے رہائشی ڈیوڈ سُربر کہتے ہیں کہ جیسے ہی اس مقام کی شناخت ہوئی انھوں نے فوراً وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں ریڈٹ پر لکھ دیا کہ وہ جا رہے ہیں۔

صبح کے وقت جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے بتایا کہ وہاں پرمکمل اندھیرا تھا اور وہ وہاں پر اکیلے تھے۔ انھوں نے وہ وقت نہ صرف اُس ڈھانچے کو حیرت سے دیکھنے میں گزارا بلکہ ستاروں بھرے آسمان کے نظارے سے بھی محظوظ ہوئے۔

لیکن کچھ دیر بعد وہاں پر مزید افراد آنا شروع ہو گئے جنھوں نے ریڈٹ پر اس مقام کے بارے میں دیکھا تھا۔

یہ چیز کس نے نصب کی ہے اور کیوں؟

لیکن دو سوالوں کے جواب ابھی بھی ملنے باقی ہیں۔ یہ ڈھانچہ وہاں پر کس نے نصب کیا، اور کیوں۔

کئی لوگوں کا خیال ہے، کچھ کا مذاقاً اور کچھ کا سنجیدگی کے ساتھ، کہ یہ سٹرکچر وہاں پر خلائی مخلوق نے نصب کیا ہے۔ لیکن اکثریت سمجھتی ہے کہ یہ شاید کسی نامعلوم آرٹسٹ کا فن پارہ ہے۔

شروع میں ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ شاید جان میک کراکین کا بنایا ہوا فن پارہ ہے جو ایسے عمودی سٹرکچر بنانے کے لیے مشہور تھے۔

John McCracken

شروع میں ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ شاید جان میک کراکین کا بنایا ہوا فن پارہ ہے

جان میک کراکین کے سابق ساتھی ڈیوڈ زیورنر نے پہلے تصدیق بھی کی کہ یہ انھی کا کام ہے لیکن بعد میں ان کی گیلری اس بیان سے منحرف ہو گئی اور کہا کہ یہ جان میک کراکین کا کام نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جان میک کراکین کا 2011 میں انتقال ہو گیا تھا۔

پھر انٹرنیٹ پر صارفین نے ایک اور آرٹسٹ پیٹسیا لے فانک ہاک کے بارے میں ذکر کیا کہ شاید یہ ان کا کام ہو سکتا ہے۔ پیٹیسیا خود بھی یوٹاہ ریاست کی رہنے والی ہیں اور ایسے فن پارے بنانے کے لیے معروف ہیں جو صحراؤں میں خفیہ مقامات پر نصب ہوتے ہیں۔

لیکن انھوں نے بھی ایک جریدے کو انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے ایسے فن پارے صحراؤں میں لگانے کے بارے میں سوچا ہے لیے یہ فن پارہ ان کا نہیں ہے۔

فن پاروں کو دور دراز کے مقامات پر لگانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

آرٹسٹ ایسے فن پارے بناتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ نصب کی گئی جگہ کو بھی اس فن پارے کا حصہ بنا دیں اور ایسے کئی فن پاروں کو دیکھنے کے لیے اس مقام تک پہنچنے کی جد و جہد کرنا بھی آرٹسٹ کے نزدیک اس فن پارے کو سراہنے کا ایک جزو ہیں۔

اس نوعیت کے فن پاروں میں ایک مشہور مثال مصور والٹر ڈی ماریا کے فن پارہ ‘دا لائٹننگ فیلڈ’ کی ہے۔ اس فن پارے کے مقام کے بارے میں بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے اور اسے خفیہ رکھا گیا ہے۔

اس کے بارے میں صرف یہ معلوم ہے کہ اسے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے صحرا میں کسی مقام پر نصب کیا گیا ہے۔

اسی طرح کی ایک اور مثال آرٹسٹ مارٹن ہل اور فلیپا جونز کا بنایا ہوا فن پارہ ‘سئنرجی’ ہے جو نیوزی لینڈ میں موجود جھیل واناکا میں 2009 میں نصب کیا گیا تھا۔

یوٹاہ کے صحرا میں نصب اس ڈھانچے کی انٹرنیٹ پر موجود ویڈیوز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ماہر شخص نے بنایا ہے۔

David Surber's picture of the monolith

David Surber

اس کو بنانے میں سٹیل کی تین لمبی شیٹوں کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ جس کسی نے بھی کیا ہے، اس نے بڑے بھاری اوزار استعمال کر کے اسے زمین میں نصب کیا ہے۔

اسی نوعیت کے عوامی فن پارے تخلیق کرنے والے برطانوی آرٹسٹ اینڈی میرٹ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے یوٹاہ کے اس سٹرکچر کے بارے میں پڑھا تو انھیں لگا کہ یہ شاید کسی آرٹسٹ، یا کسی بہت ہی امیر شخص کا شوق ہے جسے ‘2001: اے سپیس اوڈیسی’ نام کی فلم بہت پسند ہو۔

اس سٹرکچر کو جا کر دیکھنے والے ایک شخص ڈیوڈ کہتے ہیں کہ میری شروع سے خواہش تھی کہ یہ کسی خلائی مخلوق کی بنائی ہوئی چیز ہو لیکن جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو دل سے آپ جانتے ہیں کہ یہ بہت ہی کوئی صبر کرنے والے آرٹسٹ نے بنایا ہے، یا ‘2001: اے سپیس اوڈیسی’ فلم کے شائق نے۔

واضح رہے کہ معروف فلم ساز سٹینلے کوبرک نے 1968 میں ‘2001: اے سپیس اوڈیسی’ نام کی فلم بنائی تھی۔

یوٹاہ کے ڈیپارٹمنٹ برائے عوامی تحفظ کے ایک نمائندے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی شخص کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گہ جو وہاں نصب اس فن پارے کو دیکھنے جائیں کیونکہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو روک بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ عوامی مقام ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے کہ اس فن پارے کو ہٹایا جائے یا وہیں رہنے دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp