میڈیکل کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ میں تاخیر کے باعث ہزاروں طلبا ذہنی اذیت کا شکار، والدین مستقبل کے لیے فکرمند


میڈیکل طلبا
کورونا نے دنیا سمیت پاکستان میں جہاں دیگر شعبوں میں معاملات زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیمی شعبے پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے باعث تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

اس صورتحال میں ایسے طلبا جو پیشہ وارانہ شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہ بہت زیادہ فکر مند اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے میڈیکل ٹیسٹ کی بار بار تاریخ بدلنے کی وجہ سے کرب اور اضطراب کا شکار ہیں وہیں ان کے والدین بھی سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔

واضح رہے کہ بار بار ملتوی کرنے کے بعد اب حکومت کی جانب سے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحان کی تاریخ 29 نومبر رکھی گئی ہے جس میں ملک بھر سے لاکھوں طلبا انٹری ٹیسٹ میں شامل ہوں گے۔ تاہم ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر چند سیاسی و سماجی حلقوں سے اس ٹیسٹ کو موخر کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر لکی مروت سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ ماہ نور نے چھ ماہ تک میڈیکل کالج میں داخلے کے تیاری کی لیکن داخلہ ٹیسٹ بار بار ملتوی ہونے پر مایوس ہو کر اپنی کتابیں فروخت کر دی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت کی طرف سے پہلے اعلان کیا گیا کہ داخلہ ٹیسٹ ستمبر میں ہوں گے پھر داخلہ ٹسیٹ کی تاریخ بھی دے دی گئی لیکن مقررہ تاریخ سے دو دن پہلے ہی یہ ٹیسٹ ملتوی کردیے گئے۔ یہی معاملہ ایک بار پھر اکتوبر میں دہرایا گیا جس کے بعد ٹیسٹ کی تاریخ نومبر میں رکھی گئی ہے اور اب کچھ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ شاید اس تاریخ کو بھی داخلہ ٹیسٹ نہ ہو سکیں۔‘

ماہ نور کا کہنا ہے کہ ہر انٹری ٹیسٹ کے لیے 3200 روپے تک وصول کیے جاتے تھے۔ گزشتہ چھ ماہ سے اس غیر یقینی صورت حال سے دلبراشتہ ہو کر انھوں نے اپنی کتابیں فروخت کر دی ہیں اور اب وہ ان نوٹس کو بھی فروخت کرنا چاہتی ہیں جو انھوں نے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بنائے تھے۔

ماہ نور کے والد خصوصی بچوں کی تعلیم کے محکمے میں نچلے درجے کے ملازم ہیں۔ ماہ نور کا کہنا ہے کہ ’ان کے والدین نے شروع ہی سے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی کہ انھوں نے ڈاکٹر بننا ہے اس لیے میں پہلے دن سے ہی یہ بات ذہن نشین کر کے سکول جاتی تھی کہ مجھے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے جہاں ان کے والدین نے بھی انھیں مالی معاونت فراہم کی وہیں انھوں نے خود اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا کر میڈیکل کی کتابیں خریدیں اور داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے دن رات ایک کر دیے۔

ماہ نور کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ان سمیت ڈاکٹر بننے کے خواہش مند ہزاروں طلبا نے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں داخلے کے لیے امتحان دیا جس میں نمبر لگ کر تو آ گئے لیکن میرٹ نہیں بنا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سمیت بہت سے طالب علموں کے اچھے نمبر آئے لیکن چونکہ میرٹ نہیں بتایا گیا تو اس لیے یہ ٹیسٹ نہ ہونے کے برابر ہی سمجھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

‘میڈیکل کی ڈگری اچھے رشتے کی ضمانت’

میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے نصاب میں تبدیلی طلبہ کے لیے ذہنی اذیت

’گریڈز اس قدر گرائے گئے کہ کوئی میڈیکل کالج داخلہ نہیں دے گا‘

میڈیکل کے طلبا کا ایک اور ’امتحان‘ لینا ضروری ہے؟

’اتنی تیاری کے باوجود غیر یقینی‘

میڈیکل کالج میں داخلے کی ایک اور خواہش مند طالبہ رمشا عزیز کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بڑی محنت کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’متعلقہ حکام کی طرف سے بارہا اس انٹری ٹیسٹ کا نصاب تبدیل کیا گیا، کبھی طالب علموں سے کہا گیا کہ وہ صوبہ بلوچستان کے نصاب کی تیاری کریں، پھر کہا گیا سندھ کے سلیبس کی تیاری کریں۔ جب ہم نے سندھ کے نصاب کی تیاری کی تو پھر کہا گیا کہ پنجاب کے سلیبس کی تیاری کرو کیونکہ انٹری ٹیسٹ اسی میں سے ہو گا، بعد میں خیبر پختونخوا کا نصاب بتایا گیا اور پھر اب طالب علموں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ وفاق میں رائج نصاب کی تیاری کریں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’طلبا اتنی تیاری کے باوجود غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں کہ معلوم نہیں کہ مقررہ تاریخ کو بھی انٹری ٹیسٹ ہوں گے بھی یا نہیں۔‘

رمشا عزیز کی جڑواں بہن لائبہ عزیز بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی لیے تیاری کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جتنی محنت اُنھوں نے داخلے کے لیے کی ہے اگر اتنی محنت اُنھوں نے سی ایس ایس کےامتحانات کے لیے کی ہوتی تو وہ اس کو پاس کر لیتی کیونکہ اُنھیں معلوم ہے کہ یہ امتحان مقررہ تاریخ کو ہی ہوں گے۔

وہ بتاتی ہے کہ ’ہمیں شروع سے ہی یہ کہا گیا کہ دونوں بہنوں نے ڈاکٹر ہی بننا ہے اس لیے والدین کی اس خواہش کو پورا کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔‘

لاہور کے رہائشی طالب علم طلحہ محمود کا کہنا ہے کہ اگر اُنھیں معلوم ہوتا کہ داخلہ ٹیسٹ نہیں ہونے تو وہ اس عرصے میں کوئی ہنر ہی سیکھ لیتے تاکہ اگر ایسی ہی صورت حال مستقبل میں بھی رہتی تو کم از کم روزگار کمانے کے لیے ان کے پاس کوئی ہنر تو ہوتا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’اس غیر یقینی صورت حال سے ان سے زیادہ ان کے والدین پرشان ہیں لیکن وہ زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تاکہ میری توجہ تعلیم پر ہی مرکوز رہے۔‘

تاہم حکام نے میڈیکل ٹیسٹ کی تاریخ میں بار بار تبدیلی اور تاخیر کی وجہ کورونا کی وبا کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک میں کورنا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ حکام کی طرف سے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے کے لیے کورونا ٹیسٹ کروانے کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ نیگیٹو آنے کی صورت میں ہی انٹری ٹیسٹ میں بیٹھنے کی اجازت ہو گی جبکہ کورونا کا ٹیسٹ پازٹیو آنے کی صورت میں طالب علم دسمبر میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں بیٹھنے کے اہل ہوں گے۔

میڈیکل طلبا

میڈیکل کالجوں میں داخلے کی خواہشمند بچوں کے والدین بھی آئے روز انٹری ٹیسٹ کی تاریخ میں تبدیلیوں کی وجہ سے شدید پرشان ہیں اور ان والدین کا کہنا ہے کہ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے نہ صرف ان کے بچوں کی صحت خراب ہو رہی ہے بلکہ اب کورونا ٹیسٹ کروانے کی شرط نے انھیں مزید پرشان کر دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو انٹری ٹیسٹ کے لیے بھیجیں یا نہیں۔

ثمینہ عزیز کے دو بچے بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی خواہشمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بار بار نصاب میں تبدیلی کرنے کے ساتھ ساتھ داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ بدلنے کی وجہ سے ان کے بچے پریشانی اور اضطراب کے باعث صحت کے مسائل کا شکار ہیں جبکہ والدین بھی فکرمند ہیں۔

اُنھوں نے اس غیر یقینی صورتحال کو ’تعلیمی دہشت گردی‘ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔

ثمینہ عزیز کا کہنا ہے کہ ’اس صورت حال کی وجہ سے بچے ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے رات رات بھر جاگ کر تیاری کرتے ہیں اور ان کے ساتھ والدین کو بھی جاگنا پڑتا ہے۔‘

ثمینہ عزیز نے کورونا ٹیسٹ کی شرط پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ طالب علم کورونا پازیٹو کا بہانہ بنا کر اگلے ماہ ہونے والے ٹیسٹ میں بیٹھ جائیں گے کیونکہ اس سے ایک تو اُنھیں نومبر میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ کے بارے میں معلوم ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ انھیں میڈیکل کالج میں داخلے کے میرٹ کے بارے میں بھی پتہ چل جائے گا۔‘

ثمینہ عزیز کی دو بیٹیوں کے امتحانی مراکز مختلف مقامات پر قائم کیے گئے ہیں۔ ایک بیٹی کا سینٹر پشاور جبکہ دوسری بیٹی کا امتحانی مرکز چارسدہ ہے جبکہ دونوں مراکز میں انٹری ٹیسٹ ایک ہی وقت میں شروع ہوں گے۔

کورونا کی اب تک کی صورت حال میں صوبائی حکومتیں اور ضلعی انتظامیہ ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہیں تاہم ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں جو امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں وہاں پر ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے والے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp