ماہواری سے منسلک مسائل: پاکستان میں سینیٹری پیڈ کب تک خواتین کی پہنچ سے دور رہیں گے؟


ماہواری
سینیٹری پیڈ خریدتے ہوئے میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا کبھی پاکستان کی خواتین کو بھی یہ مصنوعات سکاٹ لینڈ کی طرح مفت مل سکیں گی۔ مجھے یہ ناممکن سا لگتا ہے اور شاید اس کے لیے نصف صدی بھی کم پڑ جائے جب ہمارے گھروں کی دہلیز تک ہمیں یہ اشیا مل پائیں یا فقط اتنا ہو سکے کہ ان پر عائد ٹیکس ہی ختم یا کم کر دیا جائے۔

سکاٹ لینڈ میں اس حکومتی فیصلے کا مقصد پیریئڈ پاورٹی یا ماہواری سے متعلق غربت کو ختم کرنا ہے۔

پاکستان میں تو صورتحال یہ ہے کہ شہر کے کسی بھی ڈیپارٹمنٹل سٹور پر سینیٹری پیڈ کے ریک کے ساتھ موجود خاکی لفافے کو اگر میں نے استعمال نہ کیا تو کاؤنٹر پر پہنچنے تک وہاں موجود عملے کا کوئی رکن مجھے روک دے گا کہ میڈم یہ کور کریں اور اگر میں کاؤنٹر پر پہنچ بھی جاؤں تو مجھے عجیب نظروں کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔

گلی کے نکڑ میں بنے سٹور سے تو شاید ہی کوئی لڑکی اسے خریدنے کی ہمت کر پائے کیونکہ یہاں اب بھی ماہواری اور اس سے منسلک موضوعات پر کھل کر بات تک کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور کئی لڑکیوں کو اس کے بارے میں صحیح معلومات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہ

’پہلی بار پیریڈز ہوئے تو سمجھی بلڈ کینسر ہو گیا‘

انڈیا نے ماہواری کے پیڈ سے ٹیکس ہٹا دیا گیا

90 کی دہائی کے اواخر میں مختلف کمپنیوں کے سینیٹری پیڈ متعارف ہوئے اور ٹی وی پر اشتہارات چلنے شروع ہوئے۔ لیکن چاہے خاندانی منصوبہ بندی کی بات ہو رہی ہو یا سینیٹری پیڈ کے بارے میں چینل تبدیل کرنا اور ٹی وی کی آواز دھیمی کر دینا ہر دوسرے گھر میں ایک روٹین ہے۔

جیسے یہ حقیقت کہ ہر لڑکی کو ماہواری ہوتی ہے اور اس کے لیے اسے کچھ اشیا کے استعمال کی ضرورت بھی ہوتی ہے کے بارے میں سننا ایک نامناسب معیوب اور شاید شرم سے زیادہ گناہ کی بات ہے۔

ماہواری کا موضوع کتابوں میں اب بھی ممنوع

اب وقت کچھ حد تک اتنا بدلا ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں ماہواری اور پیڈ کے استعمال کے حوالے سے آگاہی دی جاتی ہے۔

گذشتہ چار سال سے ملک کے سرکاری سکولوں میں سینیٹری پیڈ بنانے والی کمپنیاں اپنی ٹیموں کے ہمراہ چھٹی سے دسویں جماعت تک کی طالبات کو سینٹیری پیڈ کی اہمیت اور ان کے استعمال کے طریقہ کار کے متعلق بتاتی ہیں۔

اسلام آباد کے مضافات میں ایک چھوٹے سے دیہی علاقے میں موجود استاد عظمیٰ نے مجھے بتایا کہ سال میں کم ازکم ایک بار حکومتی اجازت نامے کے ساتھ ایسی ٹیمیں ضرور آتی ہیں اور دو سے چار سو پیڈ مفت فراہم کرتی ہیں تاکہ سکول کے اوقات میں ضرورت پڑنے پر ہم انھیں بچیوں کو استعمال کے لیے بروقت دے سکیں۔

‘یہ ٹیمیں جن کے ہمراہ ایک ڈاکٹر بھی ہوتی ہیں طالبات کو ماہواری کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں اور سینیٹری پیڈ کے استعمال کے بارے میں بھی بتاتی ہیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ صحت و صفائی کس قدر ضروری ہے۔’

ماہواری

ماہواری ایک قدرتی عمل ہے اور یہ تبدیلی نو سال سے 15 برس کی عمر کے درمیان آتی ہیں جو بلوغت کہلاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں خواتین خصوصاً بالغ لڑکیاں اس موضوع پر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد لڑکیوں کو کو پہلی مرتبہ مخصوص ایام کا سامنا ہونے سے قبل ماہواری سے متعلق کوئی معلومات ہی نہیں ہوتیں اور تقریباً 80 فیصد اس دوران اپنا خیال رکھنے سے متعلق پُراعتماد نہیں ہوتیں۔

آگاہی کے لحاظ سے پاکستان میں 70 کی دہائی تک یہ موضوع کتابوں میں موجود تھا۔

ڈاکٹر سمیرہ ہاشمی ایک معروف گائنا کالوجسٹ ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ‘ہمارے سکول کے دور میں چھٹی سے آٹھویں تک ہوم اکنامکس کی کتاب میں ماہواری کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا تھا۔’

لیکن ملک میں اسلام آئزیشن کے بعد شاید اس موضوع کو شرم و حیا سے جوڑ کر نصاب سے ہی نکال دیا گیا اور اب دہائیوں بعد بھی یہ موضوع کتابوں میں ممنوع ہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق قوتِ خرید سے باہر ہونے کے باعث پاکستان میں 70 فیصد سے زائد خواتین سینیٹری پیڈ استعمال نہیں کرتیں۔

سینیٹری پیڈ

2019 میں کیے گئے بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق پاکستانی خواتین ماہواری سے متعلق اشیا اور ادویات پر ایشیا کے 18 ممالک میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔

‘پاکستانی خواتین اپنی ماہانہ آمدن کا تقریباً چھ فیصد حصہ ماہواری کے درد اور اس سے منسلک دوسرے مسائل سے نمٹنے میں مدد کرنے والی مصنوعات اور ادویات پر خرچ کرتی ہیں۔ یہ رقم ان اخراجات سے نسبتاً دگنی سے بھی زیادہ ہے جو ایک اوسط پاکستانی گھرانہ صحت یا تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔’

اس جائزے کے مطابق پاکستان میں خواتین ماہواری کے حوالے سے عمر بھر میں اوسطاً دو لاکھ 78 ہزار 340 روپے خرچ کرتی ہیں۔ یہ رقم کسی بھی بین الاقوامی سکول میں ایک بچے کی سالانہ فیس سے زیادہ ہے۔’

پاکستان میں سینیٹری پیڈ کی زیادہ قیمت کی بڑی وجہ اس پر بہت زیادہ درآمدی ٹیکس ہے۔ سینیٹری پیڈ کی اتنی زیادہ قیمت کی وجہ سے پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت ماہواری کے دوران ایسے طریقے اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہے جو اتنے زیادہ صاف ستھرے نہیں ہوتے۔

پاکستان کی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ‘ریئل میڈیسن فاؤنڈیشن’ کے ایک مطالعے کے مطابق 79 فیصد پاکستانی خواتین پیڈ کے بجائے پھٹے پرانے کپڑے وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔

مہنگے پیڈ کی وجہ سے کم آمدنی والے علاقوں خاص طور پر دیہات میں رہنے والی خواتین کی اکثریت ماہواری کے دوران اپنی صحت کا مناسب انداز میں خیال نہیں رکھ پاتیں۔

دیہات میں کچھ خواتین کھجور کے پتے پر راکھ رکھ کر اسے رسی کے ساتھ اپنے جسم سے باندھ لیتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں حیض کے دوران مٹی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

ماہواری

پاکستان میں ماہواری سے متعلق مصنوعات کے گرد اتنی جھجھک موجود ہے کہ انھیں فروخت کرتے وقت کاغذی لفافے کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انھیں کوئی دیکھ نہ لے

ڈاکٹر سمیرہ کہتی ہیں کہ سینیٹری پیڈ تو ہر عورت استعمال نہیں کر سکتی تاہم یہ ضروری ہے کہ اگر وہ کپڑا بھی استعمال کریں تو حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انفیکشن ہونے سے بچہ دانی اور نلوں میں پیپ پڑ جاتی ہے۔ بچے نہیں ہو سکیں گے۔ اووریز، یوٹرس اور بچہ دانی ایک دوسرے کے ساتھ چپک جاتی ہیں۔ پیپ پڑنے سے مہینہ بھر خواتین مسلسل تکلیف میں رہتی ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ کاٹن کا کپڑا ہی ہو لیکن صاف ہو کپڑا دو تین بار بدلیں مسلسل ایک ٹاول یا کپڑا یا سینیٹری پیڈ استعمال کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔’

یہاں زمینی صورتحال کچھ انتی بہتر نہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کو گھر کے اندر صاف پانی تک میسر نہیں ہوتا اور انھیں دور دراز جا کر کپڑے دھونے پڑتے ہیں یا پھر انھیں دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔

ماہواری

پاکستان میں کئی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے تعلیمی اداروں میں ماہواری سے متعلق آگاہی پھیلانے کی مہم چلائی جاتی ہیں

سینیٹری پیڈ کو گھروں میں کاٹن اور نیٹ کے ذریعے بنانے کا کاروبار بھی کسی حد تک دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک گاؤں میں رہنے والی خاتون اپنا پورا کنبہ سینیٹری پیڈ بنا کر ہی چلا رہی ہیں کیونکہ ان کے شوہر معذور ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی میری سٹوری بنانے میرا انٹرویو کرے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں لوگ میرے کام کو اچھا نہیں سمجھتے میرے شوہر کو اس کی وجہ سے بہت باتیں سننی پڑتی ہیں لیکن میں گزر بسر کے لیے یہ کام جاری رکھو ں گی۔‘

‘ان کی مدد کریں! خواتین خاندان کا دل ہوتی ہیں’

سینیٹری

سکاٹ لینڈ سے ماہواری سے متعلق مصنوعات کو مفت کیے جانے کی خبر آنے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی ردعمل آنا شروع ہوا۔ لگ بھگ تمام سوشل میڈیا صارفین نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا اور پاکستان میں بھی اسی طرح کے اقدامات، خاص طور پر ان مصنوعات پر لگے ٹیکس کو ختم کرنے کے بارے میں بات کی۔

انسٹاگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہین رضوی احمد نے لکھا کہ ‘پیریئڈ پاورٹی کو ختم کرنا ایجنڈے میں سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ اور پہلا قدم اس طرح کی مصنوعات پر ٹیکس کو ختم کرنا ہونا چاہیے۔’

ایشا سید نے لکھا، ‘کاش پاکستانی حکومت بس ان مصنوعات پر ٹیکس لگانا ہی بند کر دے۔ اس سے ان کی قیمت بہت کم ہو جاتی۔’

خواتین کے ساتھ ساتھ کئی مرد حضرات نے بھی اس موضوع پر اپنی رائے دی۔

فہیم راقب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ’یہ مصنوعات مفت فراہم کی جانی چاہییں۔ اور مفت نہیں تو کم سے کم ان پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، اور دنیا کی ہر عورت کو ان تک رسائی ہونی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کو بھی جلد از جلد اسی طرح کے اقدامات کرنے چاہییں۔‘

نعمان نامی انسٹاگرام صارف نے لکھا ‘ان کی مدد کریں! خواتین خاندان کا دل ہوتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کو اس طرح کے اقدامات کرنے چاہییں تاکہ کم سے کم نچلے طبقے کی ہر ایک لڑکی کی مدد ہو سکے۔’

یاد رہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا کی حکومت نے 2018 میں ماہواری کے دوران استعمال ہونے والی مصنوعات پر عائد 12 فیصد ٹیکس واپس لے لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp