جو بائیڈن کا امریکہ اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی


ارشد وحید چوہدری چلا گیا گزشتہ چودہ پندرہ برس کا تعلق یوں اچانک ختم ہو گیا کہ زمین پاؤں سے کھسک گئی۔ جب بھی اسلام آباد آنا ہوتا تو ضرور ملاقات ہو جاتی ورنہ رابطہ تو رہتا ہی تھا۔ اپنے بچوں کے ساتھ عمرے کی تصاویر بھیجی یا اپنے کالم، کمنٹ ضرور مانگتا کہ باس کمنٹ ضرور کرنا۔ آخری بار جب اسلام آباد جانا ہوا تو اس سے ملے بنا واپس لاہور جا رہا تھا تو اس کا فون آ گیا بغیر ملے واپس جانے پر خفا ہو رہا تھا وعدہ کیا کہ آئندہ آؤں گا تو ضرور ملاقات ہوگی مگر اس نے وعدہ وفا کرنے کا موقع نہ دیا اور چل بسا۔ مغفرت مغفرت دعائے مغفرت۔ آخری گفتگو میں امریکی انتخابات پر باتیں کر رہا تھا۔ جو اس سے گفتگو کی تھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے جانے کے بعد سپرد قلم کروں گا۔

خطے میں امریکی ترجیحات جو پاکستان سے وابستہ ہے گزشتہ 20 برسوں میں بالخصوص اور درحقیقت سوویت روس کے افغانستان میں داخلہ کے وقت سے امریکہ کی افغان پالیسی سے جڑی ہوئی ہے۔ اور پاکستان کی اہمیت کو اس حوالے سے دیگر حوالہ جات کے ہمراہ امریکی پالیسی ساز دیکھتے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے چین اس رفتار سے آگے بڑھنے لگا کہ پاکستان کی معاشی کڑیاں چین سے مضبوط سے مضبوط تر ہو کر جڑتی چلی گئی۔

اور جو دوستی اسٹریٹجک تناظر میں موجود تھی وہ اکنامک اسٹریٹجک تناظر میں پروان چڑھنے لگی۔ گزشتہ حکومت کا سی پیک کا معاہدہ اور اس کا آغاز کر دینا اس بات کا آئینہ دار تھا کہ خطے میں امریکی ترجیحات بھی نئے زاویے اختیار کرے گی اور اس میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ گزشتہ حکومت کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ پاکستان کو چین اور امریکہ سے اپنے حالات کے تناظر میں اچھے تعلقات درکار ہے۔

امریکی انتخابات سے قبل اور اس کے بعد بھی پاکستان کے اردگرد تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہے جو پاکستان پر براہ راست اثرانداز ہو رہی ہے یا ہو سکتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کرونا وائرس کے سبب سے پاکستان ترکی اور ایران پر پابندیاں عائد کر رہا ہے مگر انڈیا اور اسرائیل جہاں کرونا ان ممالک سے کہیں زیادہ ہے وہاں کے حوالے سے رویہ دوسری طرح کا ہے۔ برسبیل تذکرہ چین کے صدر شی جن پنگ کی جی ٹوئنٹی کانفرنس میں کرونا ویکسین پر عالمی کوآپریشن کے بیان کا ذکر کروں گا کہ اس مسئلہ کو وہ صرف انسانی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔

عرب دنیا میں ایک تبدیلی کی لہر اس حد تک ہے کہ نیوم میں اسرائیلی وزیراعظم، موساد کے سربراہ اور مائیک پومپیو کی ایک عرب شخصیت سے ملاقات کی خبریں گردش کر رہی ہے۔ ان حالات میں یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ امریکہ کی اگلی حکومت کی خارجہ پالیسی پاکستان اور خطے کے متعلق کیا ہوگی؟ تاکہ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے پالیسی ساز اپنی ترجیحات کو متعین کریں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ امریکہ میں ایک تبدیلی ضرور رونما ہوگی کہ وائٹ ہاؤس سے براہ راست معاملات نبٹانے کی کوششوں کو ترک کر کے جو بائیڈن انتظامیہ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کریں گی جس سے ایک بار دوبارہ ادارہ جاتی تعلقات بڑھ جائیں گے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مضبوط جمہوریت اور سیاسی استحکام کے سبب سے امریکہ میں نا تو کوئی فرد ناگزیر ہوتا ہے نہ ہی ان کی پالیسی ایک دم تبدیل ہو جاتی ہے۔ امریکہ چین کو وہ الجھانے کی غرض سے انڈیا کو خطے میں اپنا ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے جو وہ کرتا رہے گا۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ وہ انڈو پیسفک میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی غرض سے بھارت کو اپنے سے دور نہیں کر سکتا۔

ابھی گزشتہ ماہ کے کیے گئے معاہدے بیسک ایکسچینج اینڈ کو آپریشن ایگریمنٹ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بھارت کو سٹرٹیجک حوالے سے مزید سہولیات دینے پر آمادہ ہے بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بھارت کو بالکل کھلا چھوڑ دینے کی پالیسی کو اختیار نہیں کرے گا۔ مگر اس سے یہ تصور نہیں کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے حوالے سے معاملات نرم پڑ جائیں گے۔ افغانستان میں پاکستان کو اپنے مفاد میں کرنے اور چین کے حوالے سے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی غرض سے جہاں انڈیا کی پیٹھ کو تھپتھپایا جائے گا وہی پر ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ پر امریکی پابندی کا خاتمہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ معاملہ بھی پاکستان کے سامنے لا کھڑا کر دیا جائے گا۔

دہشت گردی کا الزام تو ویسے ہی ساتھ ساتھ چل رہا ہے اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 2019 میں امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بلیک لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔ جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان سے انسانی حقوق، میڈیا پر قدغنیں، اور اقلیتوں کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے اعتراضات کرے گی۔ پھر ادریس خٹک جیسے واقعات ان کو بات کرنے کا زیادہ موقع بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف جس کو اسحاق ڈار نے 2016 میں خدا حافظ کہہ دیا تھا کو اپنی عجیب و غریب ڈاکٹرائن کے سبب سے دوبارہ وطن عزیز میں لے آئے ہے اور اب اس کے ذریعے امریکہ کے لیے آسان ہو گا کہ وہ دباؤ قائم کرسکے۔

ایف اے ٹی ایف ایک علیحدہ درد سر ہے۔ دباؤ افغانستان اور سی پیک کے معاملے پر ہوگا۔ سی پیک کے جس کی معاشی اور اسٹریٹجک غیر معمولی اثرات سے پاکستان وابستہ ہے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ اس کو بھی نئے نئے قوانین اور کرسی پر براجمان افراد کی وجہ سے متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ضروری طور پر امریکہ اور چین کے معاملات میں نہ الجھائے بلکہ واشنگٹن کو قائل کریں کہ وہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان متوازن پالیسی اختیار کرے۔

یہ ناممکن نہیں ہے مگر اس کے لیے مربوط اور عرق ریزی سے تیار کی گئی حکمت عملی کی ضرورت ہے یہ حکمت عملی ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ ڈیل کرنے سے تیار کی جا سکتی ہے۔ امریکہ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کی بات نہ سنیں اگر بات کرنے والا موجود ہو مگر یہ بات کوئی سابقہ یا موجودہ بیوروکریٹ نہیں کر سکتا وہ صرف سفارتخانہ چلا سکتے ہیں ان تمام مسائل سے نکلنے کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے ورنہ کوئی بھی آ جائے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).