تیرانگا: وہ لفظ جو سینیگال کی مہمان نوازی کا تعارف کرواتا ہے


جب میں نیویارک سے ڈاکار جانے والی پرواز پر سوار تھی تو ایک عورت رنگین کپڑے اور سر پر دمکتا ہوا رومال باندھے میرا پاس آئی اور پوچھا کہ کیا وہ میرا موبائل فون استعمال کرسکتی ہے؟ میں نے ہچکچاتے ہوئے اور اسی کیفیت کے ساتھ مسکرا کر سوچا کہ یہ کیسا خیال ہے کہ کسی اجنبی سے ایسی درخواست کی جائے مگر اس میں عجیب اُنسیت بھی تھی۔

جہاں میں ایسا کرتے ہوئے ہچکچائی، وہاں موجود ویسے ہی کپڑے زیب تن کیے ایک اور مسافر نے بلا ہچکچاہٹ ان خاتون کو اپنا فون پیش کردیا۔ اس طرح کے تجربات سینیگال تک کے میرے پورے سفر میں جاری رہے اور بہت جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ وہ کسی اجنبی کی جانب سے ڈھیٹ بن کر کی جانے والی درخواست نہیں تھی۔ یہ لوگ تیرانگا سے مجھے متعارف کروانے کا ذریعہ بنے۔

سینیگال کو ‘تیرانگا کی سرزمین’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نیویارک شہر میں سینیگالی شیف اور تیرانگا ریستوران کے شریک بانی پیئیر تھیئم کا کہنا ہے کہ ‘ٹریول گائیڈز اکثر وولوف زبان کے اس لفظ کا معنی ’مہمان نوازی‘ بتاتے ہیں، لیکن یہ اس کا بہت ہی سادہ ترجمہ ہے۔ درحقیقت اس لفظ کا مطلب اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ ایک طرز زندگی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

نیویارک شہر کا امتیازی رنگ

کاہلوں اور لفنگوں کا یورپی شہر

کوہ نور ہیرا اور اس سے جڑے چھ افسانے

وہ دارالحکومت جس کے ملک کا کوئی وجود ہی نہیں

ایک مہمان کے طور پر مجھے بہت جلد ہی یہ احساس ہوا کہ یہ قدر سینیگال میں روزمرہ کی زندگی کے بہت سارے پہلوؤں میں رچ بس گئی ہے۔ تیرانگا میں سخاوت کی روح اور تمام حالات میں مادی املاک کے مل بانٹ کر استعمال کرنے پر زور دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اجنبیوں کے ساتھ بھی۔

اس سے معاشرے میں کوئی بھی غیر نہیں ہوتا۔ قومیت، مذہب یا طبقے سے قطع نظر، سب کے ساتھ چیزیں مل بانٹ کر استعمال کرنے سے اس بات کا احساس بڑھتا ہے کہ ہر شخص محفوظ ہے اور ہر کسی کا خیر مقدم ہوتا ہے۔

موسم گرما کے دوران، میں نے یوف نامی علاقے کے ایک تعلیمی مرکز میں رضاکارانہ طور پر کام شروع کیا۔ یہ ڈاکار شہر کے شمال میں واقع ساحلی علاقے میں 90،000 افراد کی ایک کمیونٹی تھی جہاں موسم خشک اور گرد آلود تھا۔

یہاں تیرانگا نے مجھے سینیگالی ثقافت کو سمجھنے میں مدد دی اور میں نے اسے قبول کیا۔ مجھے ایک مقامی خاندان کے ساتھ رہنے کی دعوت دی گئی اور مجھے ہمسایوں کے گھر جانے اور چائے پینے کے لیے روزانہ پیشکش کی جاتی جو میں قبول کرلیتی۔

چونکہ میں سینیگال کے اس رواج کا بھرپور طریقے سے حصہ بنی اسی لیے میری مغربی عادات ختم ہوگئیں اور تیرانگا کے اہم جُز فراخدلی، سخاوت، گرم جوشی اور واقفیت نے ان کی جگہ لے لی۔ مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا جیسے سینیگال کے سولہ کروڑ شہریوں پر مبنی کنبہ میرا خیر مقدم کررہا ہے۔

کام کے دوران دوپہر کے کھانے کے وقت ہم میں سے سات افراد چاول، تازہ مچھلی اور سبزیوں سے بھرے تھال کے اردگرد فرش پر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں سبزی خور ہوں میرے سینیگالی ساتھی سبزی کو میری طرف دھکیل دیتے اور میں مچھلی کو اُن کی جانب۔

جب ہم ساحل سمندر کی سیر پر جاتے تو وہاں جو بچے مجھے بمشکل جانتے ہوں وہ بھی غیر متوقع لہروں سے بچنے کے لیے میری گود میں کود پڑتے۔ مجھے اُن کی اپنے ساتھ اُنسیت دیکھ کر حیرت ہوتی مگر پھر یاد آتا کہ ان کی پرورش اس یقین کے ساتھ کی گئی ہے کہ معاشرے میں یہاں تک کہ اجنبی بھی ہمیشہ ان کی مدد کو آئیں گے۔

کھانے کا تھال

سینیگال میں روایتی طور پر سب ایک بڑے تھال یا کٹورے سے اکھٹے کھانا کھاتے ہیں اور کھانے کا بہترین حصہ مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے

جہاں میں کام کرتی تھی وہاں سے چار سال کے بچے تن تنہا گھر چلے جاتے تھے اور کسی کو بھی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے اکثر دیکھا کہ آس پاس کے بڑوں نے محلے کے بچوں کی تعلیم اور رہنمائی میں ویسے ہی دلچسپی لی، جیسے والدین لیتے ہیں۔

امریکی ریاست اوہائیو کے دی سینٹر آف ووسٹر میں پڑھانے والے سینیگالی مورخ ڈاکٹر ابرا سینا کے مطابق ‘یہ تیرانگا کا ایک حصہ ہے جہاں آپ غیر لوگوں کو اپنے ہی خاندان کے فرد کی طرح مشورہ دینے کے لیے تیار ہوں۔’

گو کہ تیرانگا معاشرے کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے لیکن اس رواج کی شروعات اب بھی ایک معمہ ہے۔

مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تیرانگا صدیوں سے اس خطے کی ثقافت کا لازمی جزو رہا ہے اور ڈچ، برطانوی اور فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانی کے 300 سال طویل دور جو 1659 سے 1960 تک جاری رہا، اُس سے بھی پہلے موجود تھا۔

مورخ ڈاکٹر ابرا سینا نے اس خطے میں ایک دور میں ترقی پانے والی مالی، گھانا اور سونگھائی کی عظیم سلطنتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘دوسروں کے ساتھ باہمی رابطے، تبادلے اور فراخدلی جیسی ذہنیت کا سراغ شاید مغربی افریقہ کی بڑی سلطنتوں کے زمانے سے مل سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر سینا نے وضاحت کی کہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک اس خطے کی معیشت کا انحصار تجارت پر تھا اور سامان اور نظریات کے تبادلے جس پر یہ سلطنتیں بنیں، اُنھوں نے فراخدلی کے جذبے کے باعث فروغ پایا۔ یہاں تک کہ اگر یہ روایات تیرانگا کے نام سے نہ بھی جانی جاتی ہوں تب بھی آپ اسے مغربی افریقہ کی پوری تاریخ میں مختلف شکلوں میں دیکھتے ہیں۔

اگرچہ تیرانگا اپنی ابتدائی شکل میں مغربی افریقہ میں موجود تھا، لیکن کچھ کا خیال ہے کہ جدید دور میں یہ تصور شمال مغربی سینیگالی شہر سینٹ لوئس (جسے وولوف زبان میں نیدر کہتے ہیں) سے شروع ہوا تھا۔ تاہم سکالرز کا کہنا ہے کہ اس دعوے کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور ان کے پاس اس کی شروعات کے بارے میں دیگر نظریات موجود ہیں۔

سینٹ لوئس جسے یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے، اس شہر کا مغربی افریقہ کی فرانسیسی آبادکاری میں اہم کردار تھا. یہ وہی جگہ ہے جہاں پر انھوں نے 1659 میں آباد کاری شروع کی اور دارالحکومت قائم کیا۔

ڈاکٹر سینا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں سینٹ لوئس مغربی افریقہ میں فرانسیسی نوآبادیاتی توسیع کے لیے پہلے قدم اور لانچ پیڈ ثابت ہوا وہیں یہ شہر آہستہ آہستہ استعمار کے خلاف کثیر جہتی مزاحمت کا گڑھ بن گیا۔ اس نوآبادیاتی دور میں شہر میں بسنے والی افریقی کمیونٹی نے اپنی ثقافت کو ڈھٹائی کے ساتھ برقرار رکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سینٹ لوئس کے لوگوں نے بڑی شہرت کمائی اور اپنے آداب، کھانوں اور مذہبی علم کے لیے مشہور ہوئے۔’

اب رہا سوال، سینٹ لوئس میں تیرانگا شروع ہوا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن اس روایت کی بنیادیں یہاں آج بھی مضبوط ہیں۔ یونیورسٹی آف وسکونسن کے ڈپارٹمنٹ آف افریقن کلچرل سٹڈیز پروگرام میں ڈاکٹوریٹ کرنے والی آسٹو فال گویئے نے وضاحت دی کہ ‘سینٹ لوئس ان اقدر کا لب لباب ہے۔’ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ‘جب بھی آپ سینیگال میں تیرانگا کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ ‘تیرانگا ندر’ کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔’

اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ‘یہ اس شہر کی ثقافت میں بہت اہم ہے۔ اس شہر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس چیز پر ناز کرتے ہیں کہ وہ تیرانگا پر عمل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ جانتے ہیں۔’

جب سینیگال 1960 میں آزاد ہوا تو لفظ ‘تیرانگا’ کو اس نئے بننے والے ملک کی شناخت کو شکل دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ قومی فٹ بال ٹیم کا نام ‘تیرانگا کے شیر’ رکھا گیا اور اس کے ذریعے تیرانگا کو دنیا کے سامنے سینیگال کی مخصوص پہچان کے طور پر پیش کیا گیا۔

آج، معدنی کمپنیوں سے لے کر گیسٹ ہاؤسز تک مختلف قسم کے کاروبار ‘تیرانگا’ کے لفظ کواپنی کمپنی کے نام میں استعمال کرتے ہیں اور ملک میں باہر سے آنے والے لوگ اس تصور کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔

سینیگال کی مہمان نوازی

بہت سے سینیگالی گھرانوں میں جب کھانا پکایا جاتا ہے تو وہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ شاید کوئی مہمان آجائےاس لیے اکثر کھانے کی ایک اضافی پلیٹ تیار ہوتی ہے

تیرانگا خاص طور پر سینیگال کے کھانوں میں نظر آتا ہے۔ یونیورسٹی آف کینساس میں وولوف زبان کی لیکچرار میری کوریا فرنینڈس نے بتایا کہ ہر کھانے میں مہمان نوازی کسی نہ کسی طرح پکوان کاحصہ ہوتی ہے۔

‘بہت سے خاندانوں میں، جب کھانا پکایا جاتا ہے تو وہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ شاید کوئی آجائے۔ یہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے جسے آپ جانتے ہو یا ممکن ہے کہ آپ اُن کو نہ جانتے ہوں۔ ایسے مہمان جن کے آنے کی توقع بھی نہ ہو، اُن کا استقبال کرنے کے لیے اکثر کھانے کی ایک اضافی پلیٹ تیار ہوتی ہے۔’

کھانے کے وقت اگر کوئی مہمان آ جائے تو کھانے کا سینیگالی طریقہ تیرانگا کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ روایتی طور پر تمام کھانے والے ایک ساتھ ہی ایک بڑے تھال یا کٹورے سے کھاتے ہیں۔ تھیئم پیئیر کا کہنا ہے کہ ‘لیکن تھال میں کھانے کے بہترین حصے کا رخ ہمیشہ مہمانوں کی طرف ہوتا ہے۔’

اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ‘وہ آپ کو گوشت اور مچھلی کے سب سے اچھے ٹکڑے اور سبزیاں دیتے ہیں۔’ تھیئم کے مطابق ایسا کرنے کی وجہ بہت سادہ ہے، ‘ہم واقعتاً یقین رکھتے ہیں کہ آپ جتنا زیادہ دیں گے اتنا ہی زیادہ وصول کریں گے۔ اور حقیقت میں یہی تیرانگا ہے۔’

فال گوئیے کے مطابق تیرانگا کا کردار کھانے پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو بھی یکجا کرتا ہے۔ سینیگال ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور فال گوئیے کا کہنا ہے کہ ‘ایسٹر کے دوران مسیحی ایک ڈش تیار کرتے ہیں جس میں باجرا، مونگ پھلی کا مکھن اور باباب پھلوں کا پاؤڈر ڈلتا ہے اور اسے نگلیکس کہتے ہیں۔’

وہ مزید کہتی ہی کہ ‘مسیحی خاندان یہ کھانا مسلمان گھرانوں میں لے کر جاتے ہیں۔’ تہواروں کی چھٹیوں میں کھانا بھیجنے کا رواج دو طرفہ ہے۔ فال گوئیے کہتی ہیں کہ ‘عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران، مسلمان اپنے مسیحی ہمسایوں کو بھیڑ کی قربانی کا گوشت پیش کرتے ہیں۔’

سینیگال

تہواروں کی چھٹیوں میں مسلمان اور مسیحی ایک دوسرے کو کھانا بھجواتے ہیں

اس بارے میں کوریا فرنینڈس کا کہنا ہے کہ ‘ہم دونوں مذاہب کے تہوار مناتے ہیں اور اس سے ہم کمیونٹی میں اچھا محسوس کرتے ہیں۔’ تیرانگا میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا سلوک کرتے ہیں۔’ وہ کہتی ہیں کہ’ہماری ثقافت بہت ہی متنوع ہے۔’

سینیگال متعدد نسلی گروہوں پر مشتمل ہے جن میں وولوف، پلر، سیرر، مینڈنکا، جولا اور سوننکے شامل ہیں۔ ہمسایہ ممالک گنی بِساؤ اور مالی کو سیاسی بغاوت اور نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کی نسبت سینیگال میں تنوع کے باوجود یہ تاریخی طور پر زیادہ تنازعات کا سبب نہیں بنا ہے۔

ورلڈ بینک سینیگال کا شمار ‘افریقہ کے سب سے مستحکم ممالک’ میں کرتا ہے اور ڈاکٹر سینا کے مطابق تیرانگا نے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے سینیگالیوں کو متحد کرنے میں مدد دی ہے۔ انھوں نے کہا ‘جو چیز سینیگال میں سب سے زیادہ نظر آتی ہے وہ ہے تیرانگا کا تصور۔’

کوریا فرنینڈس کہتی ہیں کہ تیرانگا کا سب سے اہم پہلو ایک دوسرے کو سلام کرنا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ‘ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں جا کر پوچھیں کہ پوسٹ آفس کہاں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ پہلے آپ کو سلام کرنا ہو گا۔‘

اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ’سلام کرنا اور حال چال پوچھنا بہت ضروری ہے۔ کہیں داخل ہو کر دوسروں کو سلام کیے بغیر بات شروع کرنے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔’

سینیگال

پڑوسیوں کے لیے کھلے دل کی یہ روایت، ایسے اجنبیوں کے لیے بھی ہوتی ہے جو کمیونٹی سے گزر رہے ہوں

یہ جذبہ ہمسائیوں کے بیچ زندگی کو ہم آہنگ رکھتا ہے۔ فال گوئیے کا کہنا ہے کہ ‘یہاں یہ (سینیگالی) محاورہ مشہور ہے کہ آپ کے پڑوسی آپ کا خاندان ہیں، کیوں کہ اگر آپ کو کچھ بھی ہوتا ہے تو اس سے پہلے کہ آپ کے قریبی رشتہ دار آپ کی مدد کو آئیں آپ کے پڑوسی پہنچ جائیں گے۔’

کمیونٹی کی تقریبات میں بھی خیر مقدم کرنے کی روایت نظر آتی ہے۔ اہم مواقعوں پر سب کو شامل کیا جاتا ہے۔ کوریا فرنینڈس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ‘آپ کسی ایک شخص سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ آ سکتے ہیں اور دوسرے سے کہیں کہ وہ نہ آئیں۔ سبھی کو دعوت دی جاتی ہے۔’

جب کوریا فرنینڈس کی اپنے گاؤں میں شادی ہوئی تو وہاں کوئی دعوت نامے نہیں بھیجے گئے۔ اُن کے والدین نے پڑوسیوں کو بتایا کہ شادی کب ہوگی اور اُس روز سب پہنچ گئے۔’

پڑوسیوں کے لیے کھلے دل کی یہ روایت، ایسے اجنبیوں کے لیے بھی ہوتی ہے جو کمیونٹی سے گزر رہے ہوں۔ دیہی علاقوں میں پرورش پانے والے ڈاکٹر ابرا سینا کے اہل خانہ اکثر مسافروں کو اپنے گھر میں ایک یا دو رات کے لیے ٹھہراتے تھے اور بعض اوقات تو اس سے بھی زیادہ لمبے عرصے کے لیے لوگ رک جاتے تھے۔ اُن کے خیال میں یہ مہمان نوازی آج بھی برقرار ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘جیسا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے، ڈاکار میں بھی بڑھتی ہوئی ناشناسائی کے باوجود لوگوں کے پاس جو بھی ہو وہ اُسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔اجنبیوں کی جانب سے آرام کرنے کی جگہ، باتھ روم کے استعمال اور فون یا پانی کی درخواست کا جواب تیرانگا سے دیا جائے گا۔’

ڈاکٹر سینا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘آپ ڈاکار میں گھوم پھر سکتے ہیں اور کسی بھی دروازے پر دستک دے کر سوال کرسکتے ہیں کہ کیا آپ مجھے پانی دے سکتے ہیں؟’ لوگ آپ کو بغیر کسی پریشانی کے پانی دیں گے۔’

ملک کے سب سے معروف گلوکاروں میں سے ایک، یوسو اینڈور کا تیرانگا کے بارے میں ایک گانا ہے جو اس تصور کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ‘نِٹ کی نیو سی سا ریو، بو یگسی تیرو کو، سرگل کو با بو دِیمی بِگ دلوسی’، یہ اُس گانے کے الفاظ ہیں۔ کوریا فرنینڈس کے مطابق اس کا مطلب ہے ‘کوئی بھی جو آپ کے ملک میں آتا ہے، جب وہ پہنچیں تو ان کا استقبال کریں، ان کا اتنا احترام کریں کہ جب وہ چلے جائیں تو دوبارہ واپس لوٹنا چاہیں۔’

اس میں تعجب کی بات نہیں کہ سینیگال جانے والے مجھ جیسے کئی لوگت شدت سے واپس جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp