سائنس دان کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے: خامنہ ای اور روحانی کا اعلان
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ سائنس دان فخری زادے کی ہلاکت کے ذمہ داروں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ہفتے کو ایک ٹوئٹ میں خامنہ ای نے ایرانی ایجنسیوں پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کریں اور ذمہ داروں کا تعین کر کے اُن کے خلاف کارروائی کریں۔
خامنہ ای نے فخری زادے کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران فخری زادے کے مشن کو ہر صورت آگے بڑھائے گا۔
One of our country’s eminent scientists in the nuclear & defense fields – Dr. Mohsen Fakhrizadeh -has been martyred by brutal mercenaries. With his great, enduring scientific efforts, he sacrificed his life on the path of God & the lofty status of martyrdom is his divine reward.
— Khamenei.ir (@khamenei_ir) November 28, 2020
اس سے قبل ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اُن کا ملک ‘مناسب وقت’ پر ملک کے اہم جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کا بدلہ لے گا۔
ہفتے کو ملک کے تمام نشریاتی اداروں پر نشر ہونے والے خطاب میں روحانی نے جمعے کو تہران کے نواح میں گھات لگا کر ہلاکت کے اس واقعے کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا۔
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ “ایرانی عوام سمجھ دار ہیں اور وہ اسرائیل کے کسی جال میں نہیں آئیں گے اور یقیناً کسی مناسب وقت پر اپنے سائنس دان کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔”
ایرانی صدر نے کہا کہ ایک بار پھر ایک عالمی مغرور کے کرائے کے اسرائیلی فوجیوں نے اپنے ہاتھ ایران کے ایک اور عظیم بیٹے کے خون سے رنگ لیے ہیں۔ تاہم ایران فخری زادہ کی ہلاکت سے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اسرائیل نے تاحال ایرانی صدر کے ان الزامات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اس ہلاکت سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے پہلے رواں سال کے آغاز پر ایک ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا، جس سے ایران اور امریکہ جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فخری زادہ کی ہلاکت سے امریکہ اور ایران کے تعلقات میں صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کے آخری ایام میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی ان کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جو سابق صدر اوباما کے دور میں ایران پالیسی کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ، پینٹاگون، سی آئی اے اور بائیڈن کی عبوری ٹیم کی جانب سے اس واقعے پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔