وزیر اعظم عمران خان: مجھ پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں ہے، ساری خارجہ پالیسی پی ٹی آئی کی ہے


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فوج کا ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور انھوں نے اپنے منشور پر عمل کیا ہے۔

نجی چینل کے اینکر پرسن منصور علی خان کو ہفتے کی شب دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ’فوج کے سامنے میں مزاحمت تو تب کروں جب فوج مجھ پر کوئی دباؤ ڈالے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو میں کرنا چاہوں اورفوج کہے کہ نہ کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ساری خارجہ پالیسی پی ٹی آئی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف اور زرداری حکومت سے نکلتے تھے تو وہ یہی کہتے تھے کہ خارجہ پالیسی میں مداخلت کی بات کرتے تھے لیکن آپ میرا منشور اٹھا کر دیکھ لیں میں نے ان پر عملدرآمد کیا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’سر سچ بتائیں، آپ انٹرویو لے رہے تھے یا آپ سے لیا جا رہا تھا؟‘

عمران خان: ’اگر اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر بھی چھوڑنا پڑے گا‘

’نواز شریف کو واپس لانے کے لیے جا کر بورس جانسن سے بات کروں گا‘

’وزیر اعظم عمران خان کا عاصم باجوہ کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار‘

انھوں نے افغان پالیسی کا حوالہ دیا افغان مذاکرات کے بارے میں بات کی اور کہا کہ ہم نے مسلمان ملکوں کے مسائل کے حوالے سے بھی کسی ایک کی سائیڈ نہیں لی۔

عاصم باجوہ کا معاملہ

وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ انھوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے چیئرمین کے عہدے پر فائر جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کا استعفیٰ لینے سے انکار کیوں کر دیا۔

اس پر وزیر اعظم کا جواب تھا کہ ’عاصم سلیم باجوہ بلوچستان میں سدرن کمانڈ کے سربراہ تھے، وہ پہلے سے وہاں کام کر رہے تھے تو ہم نے سمجھا کہ بہترین آپشن جنرل باجوہ ہیں اور کسی کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔‘

لیکن سپیشل اسسٹنٹ کے طور پر ان کا استعفیٰ کیوں منظور کر لیا گیا؟

اس سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جنرل باجوہ کے لیے یہ عہدہ عارضی تھا۔ انھوں نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا حوالہ دیا جس کی سربراہی عاصم باجوہ کر چکے تھے۔

لیکن عمران خان کا کہنا تھا کہ عاصم باجوہ پر جو الزامات لگے تھے اس کا انھوں نے تفصیلی جواب دیا تھا۔

’اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو نیب میں درج کروا دیں، اور وہ تو صرف الزامات تھے جو بس کسی اخبار میں آیے تھے یا ٹی وی پر۔‘

میڈیا پر قدغنیں اور صحافیوں کی گمشدگی

وزیراعظم سے حالیہ عرصے میں صحافیوں کی گمشدگی کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ الزامات ہیں کہ میڈیا کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے اور حال میں صحافی مطیع اللہ جان، علی عمران سید، ایس ای سی پی کے ڈائریکٹر ساجد گوندل وغیرہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہوئے۔

وزیراعظم نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ‘مجھے ان میں سے کسی کا بھی آئیڈیا نہیں کہ یہ کیا ہوا ہے۔ مطیع اللہ جان یا کسی پر تو فوری طور پر پتہ چلا تو فوراً تحقیقات کروائیں، جب بھی ہوا نوٹس لیا اور وہ بندہ اسی وقت وہ مل گیا۔‘

جب اینکر نے سوال کیا کہ پتہ تو چلے کون لے کر گیا تو وزیراعظم کا جواب تھا انھیں اس کا علم نہیں اور یہ معاملہ انھوں نے وزارتِ داخلہ پر چھوڑا ہوا ہے۔

سیلیکٹڈ یا الیکٹڈ

کیا برا لگتا ہے جب آپ کو سلیکٹڈ کہا جاتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کرکٹ میچ کا حوالہ دیا اور کہا کہ جب ایک مقابلے میں ہوں تو جیت کے لیے لائحہ عمل مسلسل تبدیل کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلاحی ریاست بنانے کے لیے اپنی سٹریٹیجی اگر ایک فیل ہوتی ہے تو دوسری بناؤں گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف سلیکٹڈ تھے الیکشن لڑ کر نہیں آئے تھے پہلے فنانس منسٹر اور پھر چیف منسٹر بنے۔

انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ رپے۔ اور اس کے بعد انھوں نے پارٹی بنائی ایک ایسے وقت میں جب ایوب خان نے سیاست پر پابندی لگا رکھی تھی۔

’ادارے آزاد ہیں‘

اپوزیشن جماعتوں پر چلنے والے مقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے مختلف کیسز کا حوالہ دیا اور کہا کہ دونوں جماعتوں نے بیشتر کیسز خود بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اداروں کو آزاد چھوڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیب ہمارے نیچے نہیں ہے، جیلیں ہمارے نیچے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم چاہیں تو ان کے ساتھ مل کر نیب کے قانون بدل دیں ان کو این آر او مل جائے گا۔‘

وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ ن کے قائد کے بارے میں کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پڑھی تو یقین نہیں آیا کہ کسی شخص کو اتنی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ شہباز شریف نے لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر گارنٹی دی تھی۔

عمران خان

’جہانگیر ترین میرے بہت قریب تھے‘

جب اینکر منصور علی خان نے ان سے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وہ اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں تو اس پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر ان کا عہدہ نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اداروں کے اندر کسی قسم کی مداخلت نہیں کروں گا، جو بھی ملوث ہو گا اسے سزا ملے گی۔‘

جہانگیر ترین کے اوپر لگے الزامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انھیں افسوس ہوتا ہے۔

‘ ابھی تو خیر کیس چل رہا ہے ہاں مجھے افسوس ہوتا ہے۔ جہانگیر میرے بہت قریب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بالکل بے قصور ہوں۔ جہانگیر نے ہمارے ساتھ بہت کام کیا ہے۔ اور وہ ابھی بہت مشکل وقت میں ہیں۔’

وزیراعظم نے کہا کہ جب بھی کوئی اطلاع ملتی ہے پارٹی کے اراکین اور وزرا کے حوالے سے تو وہ آئی بی سے تحقیقات کرواتے ہیں۔

تاہم وزیراعظم نے جن پارٹی اراکین کے خلاف کارروائی کی ان کے نام لینے سے گریز کیا۔

پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تگڑی وزارت چاہتے تھے وہ انھیں دے دی گئی ہے اور فیاض الحسن نے پہلے اقلیتوں کے بارے میں ایسا تبصرہ کیا تھا جس پر انھیں ہٹایا گیا۔

خارجہ پالیسی اور دوست ممالک سے تعلقات

وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے ویزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ان سے بات چیت چل رہی ہے اور ہم نہیں بلکہ اور بھی ممالک شامل ہیں۔

سعودی عرب سے خراب تعلقات کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

’محمد بن سلمان سے بالکل ٹھیک تعلقات ہیں، کوئی ایشو نہیں ہے۔ ترکی سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں اور چین سے شاید وہ تعلقات ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ افغانستان سے آج وہ تعلقات ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھے۔ امریکہ آج ڈو مور کہنے کے بجائے پاکستان کے حوالے سے بیان دیتے ہیں کہ پاکستان نے امن عمل کے اندر جو مدد کی ہے پہلے طالبان کو بٹھانے میں پھر انٹرا افغان ڈائیلاگ میں جو کردار ادا کیا وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp