عمران خان کس قدر بااختیار  وزیر اعظم ہیں؟


عمران خان ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جنہیں اپنے بااختیار ہونے کا یقین دلانا پڑتا ہے اور بتانا پڑتاہے کہ وہ مکمل طور سے خود مختار ہیں اور فوج ان کے کسی معاملہ میں مداخلت نہیں کرتی۔ بلکہ ان کی حکومت کے ہر فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرتی ہے۔ ایک تازہ انٹرویو میں اس اعلان کو ایک پیج کی کرامات کے بارے میں وزیر اعظم کا اعتراف نامہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر تحریک انصاف کی حکومت کسی ایک بھی شعبہ میں کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ملک کے معاملات براہ راست فوج کی نگرانی میں سرانجام پارہے ہیں۔

وزیر اعظم کی بات کو اس حد تک درست مانا جاسکتا ہے کہ فوج اور سول حکومت کے درمیان کوئی ’اختلاف‘ نہیں ہے کیوں کہ اختلاف اس صورت میں پیدا ہوگا جب کوئی حکومت قومی ترقی کے کسی منصوبے پر عمل درآمد کی کوشش کرے گی یا خارجہ اور قومی سلامتی کے معاملات پر ریاستی پالیسیوں کی اصلاح کرے گی۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے کبھی ایسا کوئی منشور پیش نہیں کیا۔ ان کی طویل سیاسی زندگی میں جسے وہ ’جد و جہد ‘ قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں، ان کا مدعا صرف اقتدار کا حصول تھا۔ اسی مقصد سے وہ ماضی میں فوجی آمروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کی قسمت میں یہ کامیابی اس وقت آئی جب اسٹبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) کو بھی مستقل طور سے سیاست سے نکال باہر کرنے کا منصوبہ بنایا اور کسی ایسے کردار کی ضرورت پیش آئی جو مقبول بھی ہو اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے پرجوش بھی ۔ عمران خان میں یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

وہ اقتدار اور طاقت کے لئے کسی بھی حد تک جانے اور کوئی بھی رشتہ قربان کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ 2014 کے دھرنے کے دوران ’امپائر کی انگلی‘ کے اٹھنے کا انتظار جب ناکامی میں تبدیل ہؤا تو 2018 میں بالآخر ان کے نام قرعہ فال نکلا۔ انہیں اقتدار تو مل گیا اور اختیار کے نام پر پروٹوکول بھی حاصل ہوگیا لیکن فیصلے کرنے کا ’حق‘ وہ کبھی حاصل نہ کرسکے۔ اس کے لئے کارکردگی دکھانے اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان ہی نہیں ان کی پوری ٹیم اس مقصد میں بری طرح ناکام ہے۔ اب وہ اپنے باقی ساتھیوں کی طرح نعرے لگا کر اور پسندیدہ اینکرز کو مرضی کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اپنی کامیابی کے ڈنکے بجاتے ہیں لیکن ملک کا کوئی شہری ان کی باتوں پر یقین نہیں کرسکتا کیوں کہ ان دعوؤں کا کوئی عملی ثبوت موجود نہیں ہے۔

حکومت ملکی معیشت، خارجہ حکمت عملی یا سیکورٹی معاملات میں کسی ایک بھی ایسی تبدیلی کا ذکر نہیں کرسکتی جسے تحریک انصاف کا منشور یا عمران خان کا نظریہ کہا جاسکے۔ آج کے انٹرویو میں بھی عمران خان نے اپنی حکومت کے فیصلہ ساز ہونے کے حوالے سے جو مثال دی ہے وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز اور امریکہ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ ہے۔ یہ تو درست ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے جنگجوؤں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے ہی عمران خان کو ’طالبان خان ‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے ہی افغان طالبان کی محبت میں امریکہ کی سپلائی لائن کے خلاف دھرنا دینے کی کوشش کی تھی۔ طالبان سے یہ محبت البتہ ان کے کسی سیاسی نابغہ ہونے کا مظہر نہیں تھی بلکہ فوج کی حکمت عملی کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ افغان طالبان کو پاک فوج نے کھڑا کیا اور انہیں امریکہ کے ساتھ برسرپیکار رہنےکے لئے ہر ممکن امداد فراہم کی۔ عمران خان بھی پاک فوج کی طرح افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنی ’کوششوں‘ کو عظیم قرار دے سکتے ہیں لیکن ان کوششوں کا بنیادی نکتہ افغان طالبان کے ظلم و جبر کو تسلیم کروانا تھا۔ کیوں کہ پاکستان، افغانستان میں اثر و رسوخ کے لئے طالبان کو اپنا اہم ترین حلیف سمجھتا ہے۔

دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی کردار کے سارے حقائق تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ پاکستان کو افغانستان میں امریکی اور حلیف افواج کے خلاف طالبان کی مدد کرنے اور وہاں دہشت گردی کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کی وجہ سے پاکستان کو دنیا کے ہر قابل ذکر پلیٹ فارم پر مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں عمران خان اس وقت رطب اللسان ہیں، انہوں نے امریکی صدارت سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں پاکستان اور اس کی فوجی قیادت کے بارے میں جو بیانات اور ٹوئٹ پیغامات جاری کئے تھے وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پاکستان افغانستان میں طالبان کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا اور صدر ٹرمپ وہاں سے امریکی فوج نکال کر اپنے انتخابی وعدے کی تکمیل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے پاکستان پر شدید دباؤ تھا۔ امریکی دباؤ ہی کے نتیجہ میں دوحہ مذاکرات میں ایک لولا لنگڑا معاہدہ طے پایا تھا جس میں امریکہ کو فوجی انخلا کا موقع ضرور مل گیا لیکن افغانستان میں قیام امن ابھی تک خواب و خیال ہے۔ یہ ایسا عجیب و غریب معاہدہ تھا جس میں ایک فریق مسلسل جنگ جاری رکھنے پر مصر ہے ۔ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کا اعتراف خود عمران خان کرچکے ہیں۔

پاکستان طالبان اور امریکہ کامعاہدہ کروانے کا سہرا اپنے سر ضرور باندھتا ہے اور امریکی حکام بھی سفارتی تقاضوں کی حد تک پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ البتہ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے امداد بند کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا ، اس میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں اب پاکستان کی بجائے بھارت کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر مانتا ہے اور پاکستان کو محض طالبان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک خاص سیاسی اور سفارتی مقصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ عمر ان خان جس افغان پالیسی کو اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دیتے ہیں ، وہ دراصل پاک فوج کی دو دہائیوں پر محیط افغان پالیسی کی ناکامی ہے جس کا سب سے بڑا اعتراف اس سال فروری میں ہونے والا امریکہ طالبان معاہدہ ہے۔ امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے پاک فوج کو یہ سچائی تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ٹرمپ کے بعد پاکستان بین الافغان مذاکرات کے دوران اگر طالبان کی حمایت جاری رکھے گا تو امریکی پالیسی اور افغانستان کے حالات تبدیل ہوتے بھی دیر نہیں لگے گی۔ افغانستان میں مملکت خداداد پاکستان کی طویل ناکام فعالیت کو اپنی ’کامیابی‘ بتا کر عمران خان اپنے علاوہ نہ جانے کسے بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔

اسی انٹرویو میں وزیر اعظم نے پچاس لاکھ گھر بناکر دینے اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’ جزیرہ بندال اور راوی اربن ریور منصوبوں کی تکمیل سے پچاس لاکھ لوگوں کو گھر بھی مل جائیں گے اور ایک کروڑ لوگ بھی روزگار پر لگ جائیں گے‘۔ جزیرہ بندال صوبہ سندھ کی ملکیت ہے اور وفاقی حکومت نے ایک آرڈی ننس کے ذریعے اس کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو خلاف آئین اقدام ہے۔ یہ فیصلہ عدالتوں میں طے ہوگا۔ اسی طرح وزیر اعظم نے لاہور کے اربن ریور منصوبہ کا سنگ بنیاد ضرور رکھا ہے لیکن یہ منصوبہ ابھی تک دفتری کارروائی سے آگے نہیں بڑھ سکا لیکن عمران خان 2023 تک ان منصوبوں کے ثمرات عوام کو پہنچانے کی بات پورے یقین سے کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ منصوبے مکمل ہونے کی صورت میں بھی غریبوں کے لئے گھر تعمیر نہیں ہوں گے بلکہ امرا کی کالونیاں بنائی جائیں گی۔ ماہرین ماحولیات پر ان منصوبوں کے تباہ کن اثرات سے بھی متنبہ کررہے ہیں لیکن تقریر کے جوش میں عمران خان کو یہ پہلو ابھی دکھائی نہیں دیتا۔

وزیر اعظم کسی معاملہ میں کریڈٹ لینے میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن کہیں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم مسلمان ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ وزارت خارجہ میڈیا کو یہ خبر جاری کررہی تھی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نائیجرمیں او آئی سی اجلاس کے موقع پر متحدہ عرب امارات کی نائب وزیر خارجہ سے پاکستانیوں کے لئے ویزے کھولنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں پائی جانے والی موجودہ سردمہری شاید گزشتہ پچاس برس کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ معاملات ہوں، آئی ایم ایف سے قسط کی ادائیگی کا معاملہ ہو یا بھارت کے ساتھ تعلقات ہوں، کسی بھی شعبہ میں کوئی ایسی پالیسی موجود نہیں ہے جو ماضی سے کسی بھی طرح مختلف ہو یا اس میں بہتری کا کوئی امکان ہو۔ حتی کہ اندرون ملک علاقائی گروہوں کے ساتھ زور ذبردستی کا وہی سلسلہ جاری ہے جو دہائیوں کے استبدداد کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا ۔ عمران خان کی ’بااختیار حکومت ‘ بلوچ قوم پرستوں، پشتون نوجوانوں یا لاپتہ افراد کے حوالے سے کسی ایک معاملہ میں فوج کو نرم روی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کرسکی۔

سفارتی امور میں ہمارے وزیر اعظم کی چابکدستی کا یہ عالم ہے کہ وہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے باوجود اس کی توصیف کرنا اور امریکی میڈیا کی ٹرمپ دشمن مہم کے باوجود اس کی مقبولیت کا ذکر کرنا نہیں بھولے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر کورونا سے امریکہ میں بیروزگاری نہ بڑھی ہوتی تو ٹرمپ لازمی جیت جاتا اور میڈیا کی نکتہ چینی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ یہ تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان کو قطعی یہ احساس نہیں تھا کہ وہ کوئی سیاسی تجزیہ نگار نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جسے امریکہ کی ہر حکومت کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ ایک ہارے ہوئے صدر کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم شاید یہ بھول گئے کہ جنوری 2020 سے پاکستان کو صدر جو بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور اپنے مفادات کے لئے ان سے مدد مانگنا ہوگی۔

خارجہ امور کا کیا مذکور جب ہمارے ہونہار وزیر اعظم نامزد ہونے کے طعنے کا جواب دینے کے لئے نواز شریف اور بھٹو خاندان کو فوج کا پروردہ قرار دینے پر مصر ہوں اور بدعنوانی کے اپنے ہی مقدمے کو یہ کہہ کر خارج کرتے ہوں کہ ان کی حکومت نے تو کسی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا۔ شریف اور زرداری نے تو ایک دوسرے کے خلاف مقدمے قائم کئے تھے۔ اب اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ تو انا للہ پڑھنے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali