پی ٹی وی کی سالگرہ کا تحفہ


ابھی چند روز پہلے پی ٹی وی کی 92ویں سالگرہ گزری اور شاید تحفے میں اسے نیا چیئرمین عطا کیا گیا، نعیم بخاری صاحب۔

ہماری نسل کی زندگی میں پی ٹی وی کی کس قدر اہمیت تھی یہ آج کے بچے نہیں جانتے اور ان کو جاننا بھی نہیں چاہیے کہ اس روئے زمین پہ ایک ایسی نسل بھی بستی تھی جو سرشام جب ابھی پی ٹی وی کا لوگو اور ایک اداس موسیقی ہی آن آئیر ہوتی تھی، سکرین کے آگے آن بیٹھتی تھی۔

اس وقت کا ٹی وی، چار ٹانگوں پہ کھڑا ایک چورس ڈبہ ہوتا تھا جس کے ادھر ودھر دو دستے والے پردے موجود ہوتے تھے۔ جنہیں بوقت ضرورت کھینچ کر سکرین کو ڈھانک دیا جاتا تھا۔ ٹی وی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا اور جس گھر میں ہوتا تھا وہاں مہمانوں کی تواضع کے لیے، بسکٹ نمکو، وافر مقدار میں رکھے جاتے تھے۔ کیا خبر، کب کس کے ہاں بتی چلی جائے اور وہ ڈرامے کی قسط دیکھنے آن وارد ہو؟

ایسے مہمانوں کے علاوہ روزانہ ٹی وی دیکھنے آنے والے بھی ہوتے تھے لیکن روز کے آوے جاوے کے باعث ان کو خالی چائے ملتی تھی اور کسی کسی کو، گاجریں کدوکش کرنے اور مٹر چھیلنے جیسے غیر دلچسپ کاموں میں بھی جھونک دیا جاتا تھا۔

سات بجے کی انگریزی خبریں، آٹھ بجے کا ڈرامہ اور نوبجے کا خبرنامہ، سماجی زندگی اس پرائم ٹائم کے گرد گھومتی تھی۔ رات ڈرامے میں جو ڈائیلاگ بولا جاتا تھا اگلے روز سارے ملک کی زبان پہ ہوتا تھا۔ عشرت فاطمہ صاحبہ کی ناک کی لونگ میں جڑے ہیرے کی آب، سب کی آنکھیں خیرہ کر دیا کرتی تھی۔

شائستہ زید اور ماہ پارہ صفدر صاحبہ کے لہجے کی نقالی کے لیے راقم سمیت کئی لوگ آئینے کے سامنے دوپہریں گزار چکے ہیں۔ خالد حمید صاحب کا لہجہ سند تھا اور طارق عزیز صاحب سے یہ سب ہی نے سیکھا کہ سوال کا جواب سوالیہ انداز میں نہیں دیتے۔

ڈراموں، اشتہارات کی دنیا کا تو پوچھیے ہی مت۔ الف نون، ففٹی ففٹی، انکل عرفی، کرن کہانی، دھوپ کنارے، ان کہی، من چلے کا سودا، گیسٹ ہاوس، وارث، خدا کی بستی، شب دیگ ، اندھیرا اجالا، کیا کیا نام گنواؤں؟ نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو۔

پی ٹی وی، لانگ پلے، سکرین پر ایک نئی صنف ،جسے آرٹ مووی یا لو بجٹ مووی کہہ لیجیے کی بنیاد بنا۔ موسیقی کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لیجیے، کیسے کیسے نغمے، کیسی کیسی غزلیں، کلاسیکل میوزک کے پروگرام، فوک موسیقی، ڈسکو اور پھر پاپ میوزک، سب ہی کو پی ٹی وی نے متعارف کرایا۔

ایسا نہیں کہ پی ٹی وی صرف ہمارا ناسٹیلجیا ہے۔ پی ٹی وی کا ایک معیار تھا۔ ہماری اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کی بد قسمتی کہ جس طرح ہم ہر شعبہ زندگی میں پھسڈی سے پھسڈی ہوتے گئے اسی طرح پی ٹی وی کے حالات بھی بدتر سے بد ترین ہوتے گئے۔

میں نے ریڈیو پاکستان سے انٹرن شپ ختم کی تو معلوم ہوا کہ پی ٹی وی نے ڈرامہ پروڈکشنز بند کر دی ہے اب یہ باہر کے پروڈکشن ہاوس سے بنے بنائے ڈرامے خریدا کرے گا۔ اس سے پہلے شالیمار ٹی وی نیٹ ورک کھل چکا تھا اور ایک کھلا راز یہ بھی تھا کہ یہ جو اجنبی سے ناموں والے، ڈائریکٹر وغیرہ ہیں، یہ کچھ جانے بوجھے لوگ ہیں جو بوجوہ پی ٹی وی سے تنخواہ لے رہے ہیں اور کام باہر کر رہے ہیں لیکن یہ یقینا ہوائی ہوگی اور کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔

قصہ مختصر جنرل مشرف صاحب کے دور میں پی ٹی وی نے اپنی پروڈکشنز بند کردیں اور اس کے بعد سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے جنم لیا۔ سمجھیے کہ پی ٹی وی ققنس نامی وہ پرندہ تھا جو اپنے ہی راگ سے آگ سلگا کے اس میں بھسم ہوا اور اس کی راکھ سے رنگ برنگے چینلز نے جنم لیا۔

قاسمی صاحب نے پی ٹی وی کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک میٹنگ کی اور پی ٹی وی کی بہتری کے لیے تجاویز،مانگیں۔ میں نے کہا کہ سب سے پہلے تو پروڈکشنز شروع کیجیے۔ یہ نکتہ تسلیم کر لیا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ کچھ معلوم نہیں۔ پی ٹی وی کا ٹائیٹینک غرق ہی ہوتا گیا۔

موجودہ حکومت نے جب پی ٹی وی کی بہتری کا بیڑہ اٹھایا تو پھر ایک میٹنگ ہوئی۔ اس آن لائن میٹنگ میں چئیرمین پی ٹی وی کی جگہ وزیر اعظم عمران خان تھے۔ جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ پچھلی تمام حکومتوں کی نسبت پی ٹی وی کے بھلے کے لیے زیادہ فکرمند ہیں۔

اس بار قسمت مہربان تھی اور میرا مائیک فنی خرابی کے باعث بند رہا میں نے جو سنا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ڈرامہ انڈسٹری کے غیر معیاری ڈراموں کے باعث عوام کے اخلاق خراب ہو رہے ہیں۔ چنانچہ پی ٹی وی اپنے ڈرامے بنائے گا۔

یہ سن کر دل بلیوں اچھلا مگر مائیک بند ہونے کے باعث چند مبہم سے اشارے کر کے رہ گئی جن کا مطلب خدا جانے کیا سمجھا گیا ہو گا۔ جلد ہی اس میٹنگ کی پہلی سالگرہ بھی آ جائے گی مگر پی ٹی وی کی صورت حال میں اب تک کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔

نعیم بخاری صاحب کے اس بیان پہ بہت لے دے ہو رہی ہے کہ انھوں نے دو ٹوک فرما دیا کہ پی ٹی وی پہ صرف حکومت کو وقت ملے گا۔ دیجیے، ہماری بلا سے پی ٹی وی کا خبروں کا پورا وقت مع ٹاک شوز حکومت کو دے دیجیے لیکن خدارا! پی ٹی وی کی ڈرامہ پروڈکشنز پھر سے شروع کر دیجیے۔ یہ ادارہ صرف ہمارے ٹیکسوں سے ہی نہیں بنا، اس کے درو دیوار میں فنکاروں کی زندگیاں دفن ہیں۔ اسے ڈوبنے نہ دیجیے۔

ویسے تو بخاری صاحب بھی تحفے کے طور پہ برے نہیں لیکن پی ٹی وی کو اس کی اصل حالت میں بحال کر لینا ہی اس کے لیے بہت بڑا تحفہ ہو گا۔

شبلی فراز صاحب کو وزیر اطلاعات کی کرسی پہ دیکھ کے خواہ مخواہ ہی احمد فراز صاحب کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں۔ اب جانے یہ بے موقع ہے یا برمحل لیکن اس صورت حال پر فراز کا ایک شعر یاد آگیا۔

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).