ماں کی قبر کی گیلی مٹی پر دعا کرنے کے لیے کتنے دن کافی ہوں گے؟


نواز شریف کی والدہ شمیم اختر نے زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے۔ انہوں نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں وہ وقت بھی دیکھا جب ہر طرف ان کے شوہر کے کاروبار کا طوطی بولتا تھا۔ کاروبار میں ایسی برکت ہوئی کہ دنیا بھر میں میاں شریف کا نام ہوا۔ اس وقت یہ خاندان پاکستان کے رئیس ترین خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ بھٹو دور میں نیشنلائزیشن کا نعرہ لگا تو میاں شریف سب کچھ سمیٹ کر دساور کے سفر پر جا نکلے۔ عرب ممالک نے پاکستان کے ایسے بزنس مین کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

آپی جی کی دعاؤں میں ایسی برکت ہوئی کہ کاروبار بیرون ملک بھی پھلنے پھولنے لگا۔ سربراہان مملکت سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ بڑے بڑے لوگ گھر پر مدعو ہونے لگے۔ لیکن اس سے آپی جی کی سوچ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے تمام تر امارات کے باوجود ہمیشہ سادہ لباس پہنا۔ نماز روزے کی پابندی کی۔ عزیز رشتہ داروں کا ہر مشکل میں خیال رکھا۔ کس کے گھر تعزیت کے لیے جانا ہے؟ کہاں مبارک باد دینی ہے؟ کہاں کسی بچے کے رشتہ کی بات کرنی ہے؟ کہاں کس کی چپکے سے مدد کرنی ہے؟ کس کے لئے نماز کے بعد خصوصی دعا کرنی ہے؟ کس کی کامیابی کے بعد شکرانے کے نفل پڑھنے ہیں؟ یہ سب فیصلے ہمیشہ سے آپی جی نے خود ہی طے کیے تھے۔ لیکن ان کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی دعائیں تھیں، نماز روزے کی عادت تھی۔ وہ آخری وقت تک اس معمول کی پابند رہیں۔ اس میں کوئی رخنہ یا رکاوٹ انہیں قبول نہیں تھی۔

پھر اس خوش قسمت خاتون نے وہ وقت بھی دیکھا کہ ایک بیٹا وزیر اعظم بنا اور دوسرا سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی۔ وہ اس وقت بھی شکرانے کے نفل پڑھتی تھیں۔ گھر میں آنے والے ہر شخص سے شفقت سے ملتیں۔ اس کے سر پر پیار کرتیں اور دعاؤں سے سرفراز کرتیں۔ سیاسی معاملات میں وہ بہت زیادہ گفتگو نہیں کرتی تھیں نہ کسی بحث میں الجھتی تھیں ہاں البتہ اگر کوئی شخص کج بحثی کرے یا کوئی بات انہیں ناگوار گزرے تو خاموش ہو جاتی تھیں۔

انہیں اپنے سب ہی بچوں سے ہر ماں کی طرح بہت محبت تھی۔ لیکن نواز شریف کے ساتھ وہ خصوصی لاڈ کرتی تھیں۔ نواز شریف نے بھی ساری عمر ماں کے اس لاڈ کا حق ادا کیا۔ نواز شریف روز صبح ان کو سلام کرتے۔ ان سے دعا لیتے پھر گھر سے نکلتے تھے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوا کہ میاں صاحب کے مہمان آئے ہوئے ہیں کھانا لگ چکا ہے۔ خوش گپیاں ہو رہی ہیں اور اچانک نواز شریف کھانے سے پہلے مہمانوں سے کچھ وقت کی اجازت لے لیا کرتے تھے کہ انہیں ماں کی خدمت میں پیش ہونا تھا۔

میاں صاحب والدہ سے عجیب لاڈ کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ چومتے، ان کے پاؤں میں بیٹھتے، ان کی ہر بات ادب سے سنتے، کبھی ان سے اختلاف نہیں کرتے تھے۔ ان کا ہر کام خود کرنے کی کوشش کرتے۔ اس خدمت کے بدلے میں نواز شریف آپی جی سے بچوں کی طرح دعاؤں کے ملتمس رہتے۔ حج کے موقعے پربھی نواز شریف کی خواہش ہوتی کہ طواف کے دوران وہیل چیئر وہ خود تھامیں۔

آپی جی نواز شریف کے جیل جانے پر بہت پریشان تھیں وہ بار بار ملنے والوں سے سوال کرتیں کہ جب عدالت نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف نے کوئی جرم نہیں کیا تو یہ انہیں رہا کیوں نہیں کرتے۔ جیل کے دورے کے دوران شمیم اختر مرحومہ نے کئی دفعہ ضد کی کہ انہیں نواز شریف کے ساتھ ہی جیل میں رکھا جائے۔ لاڈلے بیٹے سے جدائی ان کو برداشت نہیں تھی۔ ایسے میں انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیجا جاتا۔ نواز شریف انہیں کیا بتاتے کہ آپی جی آپ جیل میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ صرف اس ملک کے سیاستدانوں کا مقدر ہے۔ یہاں جیل صرف ان کے نصیب میں لکھی گئی ہے جنہوں نے اس ملک کی خدمت کی۔ جنہوں نے عوام کو شعور دیا۔ آپ جیل میں نہیں رہ سکتیں آپ کوئی سیاستدان تھوڑی ہیں؟

اپنے انتقال سے کچھ ماہ پہلے آپی جی لندن چلی گئیں۔ وہیل چیئر پر تو تھیں مگر اتنی طبیعت خراب نہیں تھی۔ اس قیام کے دوران وہ اسحاق ڈار کے گھر بھی گئیں۔ ہنستے کھیلتے سب سے ملاقات کی اور اپنا بہترین مشغلہ یعنی سب کو دعائیں دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخری پانچ دن طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔ اور بالآخر ترانوے برس کی عمر میں آپی جی سب کو دعائیں دیتے اس جہان سے رخصت ہو گئیں۔ ان کو آخری لمحے تک شہباز شریف کی گرفتاری کے بارے میں بے خبر رکھا گیا کہ اس خبر کا صدمہ ان سے برداشت نہیں ہونا تھا۔ یہ وہی کیفیت تھی جب بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے وقت ان سے نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کی خبر چھپائی گئی۔ نواز شریف کے ذہن میں یہ دونوں واقعات نیزے کی انی کی طرح گڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس غم کا ذکر بہت کم کرتے ہیں لیکن قریبی لوگ جانتے ہیں کہ یہ وہ واقعات ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

آپی جی نے مشرف کے دور میں جلاوطنی بھی دیکھی، اس دور پر آشوب میں بچوں کی گرفتاریاں بھی دیکھیں۔ لاڈلی بہو کے جانے کا غم بھی سہا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی دعا دینے کی صفت میں ذرا بھر تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اپنی دعاؤں پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔

سیاسی منظر نامے پر آج کل یہ خبر بہت رنگ جما رہی ہے کہ شہباز شریف کو والدہ کے جنازے کو کاندھا دینے کے لیے کتنے دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیا جائے۔ حکومت تھوڑا وقت دینے پر مصر ہے جب کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز زیادہ وقت مانگ رہے ہیں۔ اس پر بے ضمیر تجزیہ کار ٹی وی سکرینوں پر وہ زہر اچھال رہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ انسان ایسے شقی القلب کیسے ہو سکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز جن مقدمات میں قید ہیں اس کے پیچھے کوئی کرپشن نہیں صرف اور صرف چند لوگوں کا انتقام ہے۔

جی میں آتا ہے کہ میں ان تمام زہرآلود تجزیہ کاروں سے ایک دفعہ یہ سوال ضرور کروں کہ جب خدا نخواستہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو جائے گا تو آپ کو ماں کو غم منانے کے لیے کتنے دن درکار ہوں گے؟ پرسہ دینے والوں کے گلے لگ کر رونے کے لیے کتنے دن چاہیں ہوں گے؟ ماں کی قبر کی گیلی مٹی پر دعا کرنے کے لیے کتنے دن کافی ہوں گے؟ پانچ دن، سات دن یا دس دن؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar