جسے چاہیں اسے نواز دیں


اعتزاز احسن کا خیال ہے کہ بر صغیر کا وہ علاقہ جسے آج پاکستان کہا جاتا ہے، تہذیبی طور پر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔ ’انڈس ساگا‘ نامی اپنی کتاب میں، شمال میں واقع گورداسپور اور جنوب میں کاٹھیا وار کو ملا کر کھینچی گئی لکیر کے جنوب مشرق میں واقع خطے کو وہ ’انڈیا‘ جبکہ شمال مغرب میں موجودہ پاکستان کو وہ ’انڈس‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اعتزاز صاحب کے خیال میں، بعد از مسیح ابتدائی صدیوں کے دوران مشرقی حصے میں جہاں بادشاہت کا نظام رائج تھا تو اس کے برعکس انڈس چھوٹی چھوٹی نسبتاً جمہوری مزاج رکھنے والے ریاستوں پر مبنی تھا۔

انڈیا میں ذات پات پر مبنی سخت گیر مذہبی نظام استوار تھا تو انڈس وسط ایشیائی معتدل مزاج تہذیب کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ انڈیا برہمن راج کی گرفت میں تھا تو انڈس محبت اور امن کا پیغام بکھیرنے والے صوفیوں کی سر زمین تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے پر ہی صدیوں پہلے شمالی دروں سے امنڈنے والے رشیوں نے وید لکھے تھے۔ سکھوں کے گرو نانک نے بھی پانچ دریاؤں کی زمین پر جنم لیا اور اسی خطے میں امن و آشتی کا پیغام پھیلایا۔ اعتزاز احسن کا خیال ہے کہ انڈس میں ’انڈیا‘ کی نسبت برداشت اور رواداری کا نظام استوار رہا ہے۔ چنانچہ آج کے پاکستان کو صدیوں قدیم انڈس کی تہذیبی وراثت کا ہی امین ہونا چاہیے۔

قیام پاکستان سے لے کر پہلی افغان جنگ تک تین عشروں پر محیط دور میں پاکستان اپنی تمام تر معاشرتی خوبیوں، خامیوں، معاشی زیروبم، جنگوں، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ایک متنوع، پرجوش مگر اعتدال پسند اسلامی ملک کے طور پرہی عالمی برادری میں اپنی شناخت رکھتا تھا کہ جس کے عوام کی اکثریت کو مذہب سے فطری لگاؤ رکھنے کے ساتھ ساتھ رواداری اور زندہ دلی کے لئے جانا جاتا تھا۔ مذہبی و مسلکی مسائل سے ہمارا معاشرہ اگرچہ کبھی بھی پاک نہیں رہا، تاہم تشدد اور عدم برداشت پر مبنی رویے اس دور میں ہماری پہچان نہیں تھے۔

دیگر مذاہب کے جان و مال ہمارے ہاں نسبتاً محفوظ تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کو بنیادی طور پر صوفیا کرام کے ہی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔ لہذا مزارات اور خانقاہوں سے وابستہ مبینہ غیر شرعی رسومات پر اعتراضات کے باوجود عوام الناس کی اولیا کرام سے گہری انسیت کی بنا پران کی نسبت سے منائے جانے والے میلے اور عرس صدیوں سے ہماری تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ اگرچہ فرقہ وارانہ عقائد کو زیر بحث لانا یہاں مقصود نہیں، تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وطن عزیز میں اکثریتی مسلک کو اگر دیگر مسالک سے کوئی جذبہ ممتاز کرتا ہے تو وہ چند بنیادی عقائد کے علاوہ حب رسول ﷺ میں خصوصیت کے ساتھ شدت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عبادات اور اخلاقیات کے معاملات میں غفلت برتنے والے بھی آپﷺ سے عقیدت کے سوال پر جان و مال کی بازی لگا دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ میں اور آپ ان کے رویے کی شدت سے بھلے ہی اختلاف رکھتے ہوں، تاہم جذبے کی سچائی سے بہرحال انکار ممکن نہیں۔

افغان جنگ کے ہنگام جہادی تنظیموں کے بے مہار پھیلاؤ نے ہماری معاشرتی اقدار کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ملک کے کونے کونے میں ان تنظیموں سے وابستہ مدارس کھمبیوں کی طرح پھوٹ پڑے۔ اسلحے کی بھرمار اور منشیات کی معیشت کے فروغ نے مسلکی عدم برداشت اور مذہبی تشدد کے لئے خون تازہ کا کام دیا۔ تقسیم در تقسیم نے معاشرے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ رویے متشدد اور خون انسانیت ارزاں ہوتا چلا گیا۔ آقا ﷺ کے ارشاد کے عین مطابق یہ وہ دور تھا جب مارنے والے کو پتا نہیں تھا کہ وہ کیوں مار رہا ہے اور مرنے والا نہیں جانتا تھا کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔

اسی ہزار جانوں کے خراج کے بعد دہشت گردی کا عفریت دم توڑ رہا تھا تو ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ اسلام آباد کی معروف مسجد کے سامنے چند نہتے پاکستانیوں نے دہشتگردوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قافلہ بڑھتا چلا گیا۔ ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستانیوں نے تاریکی کی قوتوں کو سرحد پار دھکیل دیا۔ برسوں بعد افغان جنگ سے ابھرنے والے عفریت کا سایہ ہماری سر زمین سے سمٹا تو اکثریتی مسلک کی رہبری کے دعویٰ دار بھی کونے کھدروں سے نمودار ہونے لگے۔ یکایک دھرنوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگے۔

یہی وہ دور تھا جب تحریک لبیک پاکستان کے نام سے مولانا خادم حسین رضوی گمنامی کے گوشے سے نکل کر قومی سطح کے رہنما بن کر سامنے آئے۔ اس امر کے باوجود کہ 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت قومی سطح پر حاصل کیے گئے ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آئی، جبکہ کراچی میں اسے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ پڑے، الزام لگایا گیا کہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہے۔ نومبر 2017 میں جب اس جماعت نے فیض آباد میں دھرنا دے کر پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا تو حکومت وقت کو طاقت کے استعمال سے پرہیز برتنے کا مشورہ دیا گیا۔

مشورہ عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے کے بعد ہی دیا گیا تھا۔ باہم بد اعتمادی عروج پر تھی، لہٰذا جن کو مشورہ دیا گیا تھا، انہوں نے معاملات الٹا مشورہ دینے والوں کے حوالے کر دیے۔ بالآخر مجمع ریاستی طاقت کے استعمال کے بغیر منتشر کیا گیا تو راستہ نکالنے والوں کو ہی اس گروہ کی سرپرستی کے لئے مطعون ٹھہرا دیا گیا۔ عدالتی فیصلے میں بھی اداروں کی خوب خبر لی گئی۔ بعد ازاں تو یہاں تک کہا گیا کہ ایک صدارتی ریفرنس کا بنیادی محرک بھی جرآت مندانہ عدالتی فیصلہ ہے۔ ابھی چند روز پہلے مریم نواز نے بھی تحریک لبیک کے حالیہ دھرنے کو ’کرما‘ قرار دے کر والد صاحب کی طرح بذریعہ ٹویٹ پرانا حساب چکتا کرنے کی کوشش کی۔

خادم حسین رضوی کو اول درجے کے دانشور تو ایک طرف، ہم جیسے نیم خواندہ مڈل کلاسیے بھی حقارت اور بیزاری کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ ہمیں ان کے خیالات ہی نہیں، ان کے دھرنوں اور دھرنوں میں بولی گئی زبان پر سخت اعتراضات رہے ہیں۔ تاہم مولانا رضوی اپنے خالق حقیقی کے ہاں لوٹ چکے۔ ان کے معاملات اب اللہ کے سپرد۔ چشم فلک نے مگر مینار پاکستان کے سائے میں خلق خدا کا اس قدر بڑا اجتماع کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک اوسط درجے کا مذہبی رہنما، جو کرائے کے ایک مکان کے بالائی حصے میں رہتا تھا، لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں میں کیونکر گھر کر کیا۔ اس سوال کا جواب بہتان طرازی کے ذریعے نہیں، بلکہ زعم برتری، نفرت اور تعصب کے حصار سے نکل کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).