شطرنج کی تین بازیاں


بازی شروع ہوئی۔ میرے اندیشوں کے برعکس، ابو کا لاغر ہوتا جسم کئی تکیوں کے سہارے ہی سہی، مگر جم کر بیٹھا تھا۔ حسب عادت ان کی عینک کھسک ناک کی پھننگ پر کھسک آئی تھی۔ کمزوری کے باعث ان کی بڑی بڑی آنکھیں یوں اندر دھنس گئی تھیں کہ پپوٹوں کی درز سے بمشکل پتلی کی سیاہی دکھائی دیتی تھی پر اس باریک سی درز سے بھی میں ان کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھ سکتا تھا جو نہ جانے کتنے زمانوں بعد لوٹی تھی۔

کچھ دیر بعد شاید ہم دونوں بھول گئے کہ ان کی زندگی کی گنتی اب سالوں کی نہیں، دنوں کی بات ہے۔ ہم یہ بھی فراموش کر گئے کہ بیماری نے انہیں اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ وہ اپنے سہارے کھڑا ہونا تو دور، اپنی مرضی سے کروٹ لینے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ان کی سانسیں شطرنج میں خرچ ہونے والی توانائی کو بھی سہارنے سے قاصر ہوں گی۔ ان لمحوں میں ہم وہی حریف تھے جو بیس سال سے مقابل تھے۔ پانچ سال ان کے، پندرہ سال میرے۔ نہ میں اپنی زمین چھوڑنے کو تیار تھا نہ وہ اپنی آس۔ بازی طویل ہوئی تو گھر کے اور لوگوں نے بھی ادھر ہی ڈیرہ لگا لیا۔ کچھ کی آنکھوں میں پریشانی تھی، کچھ کی خاموشی میں خدشے لیکن کوئی کچھ نہیں بولا۔ سب دم سادھے بازی دیکھتے رہے۔

بازی میں اب انتظار یہ تھا کہ پہلے غلطی کون کرے۔ میں حسب عادت جارحانہ چالیں چل رہا تھا اور ابو بہت سوچ سمجھ کر دفاع میں مصروف تھے۔ ادھر سے میں نے فیل آگے بڑھایا۔ ادھر سے رخ تک پہنچنے کا رستہ ابو نے پیادے سے مسدود کر دیا۔

”فرزیں کو دائیں سے لاؤں تو دوسرے فیل کا رستہ کھلے گا۔ ابو کی توجہ اگر فرزیں پر رہی تو فیل شہ کے لیے نکل سکے گا۔ ابو کو لگے گا کہ وہ دو چالوں میں میرا فرزیں اٹھا لیں گے لیکن ادھر شہ در شہ کے بعد انہیں موقع کہاں ملے گا۔ رخ آگے آئے گا تو فرزیں کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ ادھر سے بھی شہ۔ یہ پیادہ ادھر سے آگے بڑھے گا۔ دونوں فیل برابر کھڑے ہوں گے۔ ادھر سے فرزیں آگے اور شہ مات“

پورا خاکہ واضح تھا۔ بس مجھے فرزیں آگے چلنا تھا اور یہ توقع رکھنی تھی کہ ابو اس کو جال میں پھنسانے کی کوشش کریں گے۔ یہ لیجیے۔ میں نے فرزیں اٹھایا اور دو خانے آگے رکھ دیا۔ اب میں منتظر تھا کہ ابو اس حربے میں آتے ہیں یا نہیں۔ چارہ لگا دیا گیا تھا۔ کانٹا اب پانی میں تھا۔ مچھلی دھوکا کھاتی ہے یا نہیں۔ میں نے انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائیں اور ٹھوڑی ان میں دھر کر انتظار شروع کر دیا۔

ترغیب بڑی تھی، جال بڑی ہوشیاری سے بچھایا گیا تھا۔ دام ہمرنگ زمین ہو تو باز سی آنکھ بھی دھوکا کھا جاتی ہے۔ ابو کی نظر اور قوی تو پہلے ہی بہت کمزور ہو چکے تھے۔ بازی کے فیصلہ کن مراحل میں انہوں نے چال کے انتخاب میں کچھ وقت لیا لیکن جو چال انہیں چلنا چاہیے تھی اس کے بجائے وہ وہی چال چل بیٹھے جو میں چاہتا تھا۔

فیل کو ہاتھ میں پکڑا۔ چالیں گنیں۔ چھ چالوں میں بازی تمام تھی۔ لیکن چھ چالیں اتنی آگے کی داستان تھی کہ ابو کی نظر سے اب بھی اوجھل تھی۔ ابو کی غلطی سے فائدہ اٹھانے کا وقت آن پہنچا تھا۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سا فاتحانہ تبسم پھیل گیا۔ ابو کو دیکھا کہ ان کی توجہ اب بھی فرزیں پر ہی تھی۔ شاید دل میں وہ اپنی چالیں سوچ رہے تھے۔ ان چالوں میں فرزیں کی موت اور اس کے ساتھ ہی میرے دفاع کا ڈھے جانا یقینی تھا اس لیے ابو اس منظرنامے کے باہر لکھی جانے والی مات سے بے خبر تھے۔ لیجیے جناب، یہ رہی بے خبری کی سزا۔

فیل میرے ہاتھ میں تھا اور میری نظریں ابو کے چہرے پر۔ ابھی مہرہ آگے بڑھانے کو تھا کہ ابو کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھل گئی۔ بچوں کی سی معصوم مسکراہٹ۔ چھ ماہ سے ہم میں سے کسی نے ابو کو مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔ اس مسکراہٹ میں ان کی چہرے کی ساری نقاہت، بیماری کی تمام تھکن، دستک دیتی ہوئی مردنی، آنکھوں کی زردی اور ہاتھوں کا رعشہ سب گھل گیا۔ صرف وہی مسکراہٹ باقی رہ گئی۔ اس مسکراہٹ میں برسوں بعد بساط پر نظر آتی فتح کی چاشنی تھی، عمر رفتہ کا ہر لمحہ مسرت تھا، خوشی کی ہر کرن وہیں ان دو ہونٹوں پر ابھرنے والی کمزور سی مسکراہٹ میں جھلکتی تھی۔ اب فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔ میں نے فیل ہاتھ سے رکھا اور پیادے کو آگے چل دیا۔

ابو کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔ اگلی چال فرزیں پر اسپ کا وار تھا۔ فرزیں کے پاس ایک ہی گھر تھا۔ پیچھے ہٹا تو پیادے نے جگہ بنائی اور فرزیں کے سارے گھر مسدود ہو گئے

”آہا۔ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے“ ابو کی مسکراہٹ اب ایک قلقاری میں ڈھل گئی تھی۔

ادھر ابو نے فرزیں اٹھایا ادھر بازی چار پانچ چالوں میں سمٹ گئی۔ ایک کے بعد دوسری شہ اور مات۔ پندرہ برس بعد باپ نے بیٹے کو شکست دی۔ زندگی کا دائرہ بیس برس پہلے بساط کے جس نقطے سے شروع ہوا تھا۔ اسی پر وقت کی پرکار کی نوک پھر لوٹ آئی تھی۔ ابو کی مسکراہٹ قلقاری سے ہوتے ہوئی ایک قہقہے میں بدل گئی۔ تماشا دیکھنے والوں نے الگ شور مچا دیا۔ سب کو پتہ تھا کہ یہ نتیجہ کیسا حیران کن، کیسا غیر متوقع تھا۔

”گڈ گیم، ابو“
”اوہ یس، ویری گڈ گیم۔ پر ہار گئے تم“ ابو نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
”جی۔ آپ کو انڈر ایسٹیمیٹ کر گیا“
”استاد استاد ہی ہوتا ہے“ ابو اب بھی مسکرا رہے تھے۔
”دریں چہ شک۔ ایک گیم اور“
ابو نے ایک گہری سانس لی ”نہیں یار، میں بہت تھک گیا ہوں، اب اور بیٹھ نہیں سکتا۔ مجھے اندر لٹا دو“

”جی ابو“ بھائیوں کے ساتھ مل کر ابو کو سہارا دیا اور اندر بستر پر لٹا دیا۔ کئی کئی دن بغیر سوئے کام کرنے والا شخص اب اتنا ناتواں تھا کہ شطرنج کی ایک بازی کی تھکن بھی اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ لیٹنے کے کچھ لمحے بعد ہی ابو بے سدھ سے ہو گئے۔ یہ وہ دن تھے جب ان کی نیند اور بے ہوشی میں فرق کرنا مشکل تھا۔ بھائی کمرے سے گئے پر میرے قدم وہیں جم گئے تھے۔ پہلے کھڑا ابو کی اس مسکراہٹ کو دیکھتا رہا جس کا شائبہ اب بھی ان کے ہونٹوں پر موجود تھی پھر کرسی کھینچی اور ابو کے سرہانے بیٹھ گیا۔

عمر بھر جس شخص کے سائے میں زندگی بسر کی تھی، اب میرے سامنے بستر پر اس کا بس ایک ہیولہ سا تھا۔ چند لمحوں میں گویا ساری عمر آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ ابو کے سفید بالوں پر نظر گئی تو بچپن کے وہ دن یاد آ گئے جب ابو کا سر دبانا روز کا معمول ہوتا تھا۔ سر دبانے کی رسم کا آخری مرحلہ بھی جب ابو کی فرمائش پر ان کے بال کھینچے جاتے۔ اس کے بعد ان کے بے ترتیب بال انگلیوں سے سیدھا کرنا بھی میری ذمہ داری تھی۔ بڑا ہوا تو یہ کام چھوٹے بھائیوں نے باری باری سنبھالا۔ اب کتنے ہی سالوں بعد میری انگلیاں انہیں بے ترتیب بالوں کو چھو رہی تھیں۔ انگلیاں پھیر کر ابو کے بال سنوارنے شروع کیے تو پتہ نہیں کیوں حلق میں ایک گولہ سا پھنس گیا۔ اپنے پر قابو رکھنے کی دو لمحے ناکام کوشش کی پھر بلک بلک کر رو دیا۔ کچھ دیر بعد آنسو تھمے تو زندگی میں پہلی دفعہ ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کمرے سے نکل آیا۔

چند دن کی بات تھی کہ ابو بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ شطرنج کی وہ بازی ان کی زندگی کی آخری بازی تھی۔ اس کے بعد ان کی نقاہت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ شطرنج کھیل سکیں۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے بیچ ان کے کرب کے آخری کچھ روز مجھے یاد نہیں ہیں کیونکہ میں نے انہیں کبھی یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی، صرف بھلانے کی محنت کی ہے۔ لیکن شطرنج کی اس آخری بازی میں ابو کی مسکراہٹ مجھے آج بھی بس چند لمحے پہلے کی بات لگتی ہے۔ ان کی زندگی کی آخری بازی میں جیتی ہوئی ایک مسکراہٹ، موت سے چھینی ہوئی آخری مسکراہٹ اور اس کے بدلے ایک شکست جو سو جیتوں پر بھاری تھی۔ عمر بھر میں اس سے اچھا سودا کبھی نہیں کیا۔

ابو کو گئے بائیس سال ہو گئے ہیں۔ میرے بالوں میں ویسی ہی چاندی اتر آئی ہے جیسی کبھی ابو کے بالوں میں اتری تھی۔ آئینہ دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی، بس ایک لحظے کو ابو دکھائی دیتے ہیں، اس لیے آئینہ بھی کم کم دیکھتا ہوں۔ کچھ زخم بھرنے کے لیے نہیں ہوتے، یہ امی اور ابو کے جانے کے بعد معلوم ہو گیا تھا۔ کچھ تنہائیاں کسی انجمن، کسی محفل سے دور نہیں ہوتیں، یہ بھی بائیس برس سے جانتا ہوں۔ بس کبھی کبھی جب اس تنہائی سے دل بہت گھبرا جاتا ہے تو گھر کے کونے میں خاموش پڑی ایک گرد آلود بساط کو نکالتا ہوں، مہرے سجاتا ہوں، بازی شروع ہوتی ہے اور دونوں طرف سے میں خود کھیلتا ہوں۔ ایک چال میری، ایک چال ابو کے نام کی۔ بائیس سال ہو گئے ہیں، میں دوبارہ ابو سے نہیں جیت پایا۔ جانتے ہیں کیوں۔ کیونکہ میری ہر ہار کے بعد ابو اب بھی مسکرا دیتے ہیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad