شطرنج کی تین بازیاں


”شطرنج سیکھو گے“
ابو نے مہرے سمیٹتے ہوئے پوچھا۔

میری عمر کوئی آٹھ سال کے لگ بھگ ہو گی۔ اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ چھٹیوں کا کام پہلے ماہ ہی ختم کرنے کے بعد میرے پاس کرنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیلی ویژن کے اکلوتے چینل پر پروگرامز کا دورانیہ چند گھنٹے ہوا کرتا تھا۔ کمپیوٹر کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ رابطے کے لیے ابھی لینڈ لائن استعمال ہوتی تھی اور ہمارے گھر ابھی اس کا کنکشن لگنے میں کچھ سال باقی تھے۔ کتاب بینی کی لت اس عمر میں بھی تھی پر ویسی ہی کتابوں کی جیسی کہ اس عمر میں ہونی چاہیے سو ان پر وقت بھی اتنا ہی دیا جاتا تھا جتنا اس عمر میں ممکن تھا۔ اس سارے قضیے میں جو فراغت مجھے نصیب تھی، اس کا علاج ابو نے یہ سوچا کہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔ کالج جاتے تو میں لائبریرین کے سپرد کر دیا جاتا جو مجھے بھانت بھانت کی کتابوں سے روشناس کرواتا۔ دوستوں کے ہمراہ کرکٹ کھیلنے پہنچتے تو میں باؤنڈری لائن کے باہر سکورر سے سکورنگ کے اسرار سیکھتا اور وقفے میں جو غریب ہتھے لگتا، اس سے گیند پھینکنے اور بلا پکڑنے کے رموز سمجھتا۔

ابو کی اکثر شامیں ان کے ایک دوست شاہد صاحب کے یہاں گزرتیں۔ وہیں ان کے کچھ اور دوست بھی آ جاتے۔ ان شاموں میں حیرت انگیز طور پر کبھی ایسی گفتگو نہیں تھی کہ ایک بچے کا موجود ہونا معیوب ٹھہرتا۔ گہری بحثیں ہوتیں۔ کبھی ادب پر بات ہوتی، کبھی فلسفے سے زور آزمائی ہوتی تو کبھی سیاست اور مذہب کے بخیے ادھیڑے جاتے۔ سب سمجھ نہ آتا پر جو آیا وہ زندگی کرنے کی تربیت میں خشت اول ٹھہرا۔ ان شاموں میں ایک اور لازمہ شطرنج کی بازیوں کا تھا۔ حلقے میں سب شطرنج کے کھلاڑی تھے۔ جب بات چیت سے سانس پھولنے لگتا تو بساط بچھا دی جاتی اور کھلاڑی اور تماشائی سب ایک اور نشے میں غرق ہو جاتے

شروع شروع میں میرے لیے یہ سخت بوریت کا وقت تھا۔ شطرنج کی کچھ سمجھ نہیں تھی۔ بازی لگتی تو سب لے لبوں پر مہر سکوت بھی لگ جاتی۔ ان لمحوں میں سننے کو کچھ ہوتا نہ سیکھنے کو۔ انتظار کرتا کہ کب بازیاں سمیٹیں تو گھر کا رخ کریں۔ لیکن یہ انتظار اکثر کئی گھنٹوں پر پھیل جاتا۔ سمجھ نہ آتا کہ ایک چونسٹھ خانوں کا کھیل اتنا طویل کیسے ہو سکتا ہے اور اتنی طوالت کے باوجود ایسا دل چسپ کیونکر ہے کہ کھیلنے اور دیکھنے والے بساط سے نظر نہیں اٹھا پاتے۔ تجسس نے راہ بنائی تو مہروں کے نام یاد ہوتے گئے۔ چالوں کی ابجد کچھ کچھ پلے پڑتی گئی لیکن ابھی بھی دلی بہت دور تھا۔

کھیل میں اپنے انہماک کے باوجود ابو بھانپ گئے کہ شطرنج سے میرا تعارف ابتدائی مراحل سے آگے نکل گیا ہے۔ کچھ دن شاید وہ مشاہدہ کرتے رہے پھر ایک دن سیدھے پوچھ لیا

”شطرنج سیکھو گے“ ۔
اس کا جواب اثبات کے سوا بھلا کیا ہو سکتا تھا۔

شطرنج کے ابتدائی سبق سیکھنے میں کچھ دن لگے، بساط کیسے کھلتی ہے۔ مہروں کا کردار کیا ہے۔ ابتدائی چالوں کے کون کون سے طریق معروف ہیں۔ بازی آگے بڑھانے کے گر کیا ہیں۔ مخالف کی چال کا توڑ کیسے کرنا ہے۔ بازی کھینچی کیسے جاتی ہے۔ کس وقت کون سے مہروں پر انحصار بڑھتا ہے، کب کم ہوتا ہے۔ مہرے ایک دوسرے کا سہارا کیسے بنتے ہیں۔ جوں جوں کہانی کھلتی گئی، شطرنج سے میری دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مشقوں سے بڑھتے بڑھتے بات وہاں جا پہنچی جب ابو نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے باقاعدہ بازی کھیلنی چاہیے۔

پہلی بازی لگی اور چند لمحوں میں ختم ہو گئی۔ شطرنج کی بساط پر پہلا مقابلہ انتہائی مختصر تھا۔ ابھی میں اپنے پیادوں کی چال پر غور کر رہا تھا کہ دائیں بائیں سے گھوڑے وارد ہوئے، ان کے جلو میں وزیر نکلا۔ پیچھے سے فیل کا زور آیا۔ یہ ہوئی شہ۔ یہ ایک اور شہ اور شہ مات۔ اسباق طاق پر دھرے تھے سو دھرے رہے۔ کھیل سمٹا تو معلوم ہوا کہ یہ میدان آسان نہیں ہے۔ چالیں تھیں ہی کتنی کہ ان کے تجزیے میں وقت صرف ہوتا۔ غلطی کہاں ہوئی، کیسے ہوئی، بس یہ سمجھنا تھا۔

اب کے نہیں، شروع شروع کی حماقت کہہ لیجیے۔ دوبارہ نہیں ہو گی۔ دوبارہ مہرے سجائیے۔ ایک بازی اور سہی۔

خوش گمانی کی عمر پھر مختصر نکلی۔ اب کے تو وزیر ہلا بھی نہیں۔ فیل نے پیادے روندے۔ گھوڑے نے شہ دی۔ ذرا دائیں ہوئے تو دوسرا فیل تیار تھا۔ آگے بڑھے تو پیادہ مزاحم تھا۔ معلوم ہوا کہ سمت درست نہ ہو تو شاہ کو ڈھانے کے لیے پیادہ بھی کافی ہوتا ہے۔ لیجیے دوسری بازی بھی تمام ہوئی۔

پہلے دن شاید گھنٹے بھر میں چھ سات بازیاں ہارنے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ سنگلاخ زمین میں فتح کے پھول اگانے میں ابھی بہت محنت درکار ہے۔ ابو اچھے کھلاڑی تھے اور ہم بالکل نو آموز اور بساط پر ابو کو صرف حریف دکھائی دیتا تھا۔ رشتوں کا پاس اور بیٹے کی محبت کبھی ان کے آڑے نہیں آئی۔ روز کھیلتا اور روز ہارتا۔ وقت گزرتا گیا پر اس معمول میں تبدیلی نہ آئی۔ خدا جانے ابو بہت اچھے کھلاڑی تھے یا میں انتہائی اناڑی یا پھر کوئی نفسیاتی مسئلہ پر برسوں میں ایک دفعہ بھی ابو سے جیتنے کی نوبت نہ آئی۔

شطرنج کی بساط پر زندگی کے بہت سے سبق بھی سیکھے۔ ایک روز جب سارے مہرے آپس میں گتھے ہوئے تھے تو کوئی مشکل کشا چال نہ پا کر یوں ہی ایک پیادہ آگے بڑھا دیا۔ ابو کچھ دیر چال پر غور کرتے رہے لیکن جب یہ احساس ہوا کہ اس میں غور طلب کچھ ہے ہی نہیں تو پوچھا

”یہ چال چلنے کی وجہ ارشاد فرمائیے“ ۔ طنز اور غصے میں اکثر ابو کی گفتگو لکھنوی سی ہو جاتی تھی۔ احساس ہو گیا کہ معاملہ اب یہاں نہیں تھمے گا لیکن کچھ بتانے کو تھا نہیں

”کوئی وجہ نہیں، بس ایسے ہی چل دی“ ۔ اور کیا کہتا۔

ابو چند لمحے مجھے گھورتے رہے پھر بولے
”یہ“ ایسے ہی ”کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی میں ہر قدم کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، کوئی مقصد ہوتا ہے۔ بعض اوقات لگتا یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر ایک کام کر لیا گیا ہے لیکن تب بھی تحت الشعور میں کوئی نہ کوئی حساب کتاب چل رہا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے لیا جانے والا قدم کسی کھائی میں گرا دے یا کسی چوٹی پر پہنچا دے، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس لیے پھر سے سوچو اور بتاؤ کہ یہ چال کیوں چلی ہے؟“

عمر ایسی تھی اور علم اتنا تھا کہ ہمارے فرشتے بھی تحت الشعور کی تعریف سے نا آشنا تھے لیکن ابو سے ڈر بھی لگتا تھا تو سوال در سوال کرنے کے بجائے چال کی کوئی توجیہہ سوچنا مناسب سمجھا لیکن بہت غور و فکر کے بعد بھی اس چال کا کوئی جواز نہیں ملا

” ابو، کوئی وجہ تو نظر نہیں آ رہی۔ بس یہ کہ کہیں کوئی جگہ کھل نہیں رہی تھی اور اس پیادے کے پاس ایک گھر تھا تو چل دیا۔ اب آپ کی جوابی چال کے بعد دیکھتے ہیں“

”یعنی آپ نے اپنی قسمت میری چال پر رکھ دی ہے۔ یہ تو سخت بیوقوفانہ بات ہے۔ اپنی زندگی آپ بنائیے میاں۔ یہ چال واپس لیں۔ اور سوچ کر ایک چال چلیں اور سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بہترین جوابی چال بھی خود سوچیں اور یہ بھی کہ پھر آپ کیا کریں گے، اس وقت جب میں وہی چال چلوں گا یا اس وقت اگر میں کوئی اور چال چل دوں تو۔“

حکم حاکم۔ چال واپس لے کر بساط کا پھر سے جائزہ لیا۔ ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ۔ بہت سوچنے کے بعد یہی معلوم ہوا کہ خانہ تو وہی ایک خالی ہے جہاں پہلے پیادہ بڑھایا تھا اس کے علاوہ ہر چال نقصان کا سودا تھا۔ لیکن وہ چال چلیں تو پھر کیا ہو گا، یہ اب زیادہ توجہ سے دیکھا۔ گھوڑا ادھر سے بڑھے گا کہ مخالف پیادہ سامنے کھڑا ہو گا۔ یوں ہو گا تو کیا کیا جائے گا اور ووں ہو گا تو کیا پینترا بہتر رہے گا۔ حساب کتاب کیا اور دوبارہ وہی چال چل دی جس سے سارے فتنے کا آغاز ہوا تھا

”پھر وہی چال“ ابو کا پوچھنا تو لازم تھا

”جی، چال تو وہی ہے لیکن اس لیے کہ اس کے علاوہ ہر چال میں نقصان ہے اور اس کے بعد آپ کیا چالیں چل سکتے ہیں، اس کا حساب کرنے کے بعد یہ چال سچ سے بہتر ہے۔ لیکن میں یہ نہیں بتا رہا کہ وہ چالیں کیا ہیں۔ وہ آپ خود سوچیں“

ابو مسکرائے اور یہ کم کم ہی ہوتا تھا

”اب ٹھیک ہے۔ بس اسے زندگی کا سبق سمجھو۔ جو کچھ کرو سوچ سمجھ کر کرو اور اپنی تقدیر کا بوجھ اپنے کندھوں پر رکھو۔ اتنا کر لیا تو کسی سے شکایت نہیں رہے گی اور نہ ہی پچھتاووں کی گٹھری سر پر لے کر چلنا پڑے گا“

اس وقت تو یہ سبق پوری طرح سمجھ نہ آیا لیکن زندگی نے جلد ہی سکھا دیا کہ کھیل سے سیکھی گئی حکمت کیسی زود اثر اور کیسی حقیقت پرور ہوتی ہے۔

اس دوران شطرنج کے حوالے سے حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ شد بد کے مراحل سے گزرنے کے بعد ابو کے دوستوں سے کھیلنا شروع کیا۔ شکست اور فتح کے تناسب میں بہتری آتی گئی۔ کچھ ہم عمر بھی مل گئے جو شغف رکھتے تھے۔ اس بہانے کچھ دوستیاں بنیں، کچھ ختم بھی ہوئیں کہ شطرنج کا ایک اپنا مزاج اور رنگ تھا جس کے باہر بسنے والی دنیا سے ہم آہنگی ہونے میں کبھی کبھی تفاوت در آتی۔ اس میں چار پانچ برس گزر گئے۔ اس دوران جہاں بہت کچھ بدل گیا وہاں ابو سے ہارنے کی روایت نہ بدلی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اب بازیاں بہت طویل ہوتیں۔ کئی دفعہ تو یوں لگتا کی جیت بس دو چالوں کی دوری پر دھری ہے لیکن دست طلب دراز ہونے پر وہ اور دور کھسکتی چلی جاتی اور پھر وہی ہوتا جو گویا تقدیر مبرم سے کم نہیں تھا۔

زیادہ لوگوں سے کھیلنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کھیل میں یک رنگی نہ رہی۔ اب ہر طرح کا مقابل تھا۔ ہر ایک کا کھیلنے کا طریق فرق تھا۔ چالوں کی ترتیب جدا تھی۔ کچھ ایسے تھے جو رخ اور فرزین کے ساتھ حکمت عملی بناتے تھے۔ کچھ کے لیے اسپ اور فیل مرکزی کردار تھے۔ کئی ایسے بھی تھے جو پیادوں کی ترتیب سے کھیل کا رخ طے کرتے تھے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ کھیلتے کھیلتے میری مہارت بھی بڑھتی گئی اور میرے کھیل کی بنت بھی روایتی سے غیر روایتی ہوتی چلی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دن بھی آن پہنچا جب ابو کے ساتھ طے کردہ ریت بھی ایک دن بدل گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad