لبرٹی چوک کا نام رین بو چوک کرنے کا نیک نیت احمقانہ فیصلہ


گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھ کر جتنی خوشی ہوئی اس سے کہیں بڑا صدمہ تصویر دیکھ کر ہوا۔ خبر یہ تھی کہ لبرٹی چوک کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ہماری رائے میں یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ وطن عزیز ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہاں مادر پدر آزادی کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ جب بھی لبرٹی چوک پر کسی مظاہرے کی خبر آتی تو یہی پتہ چلتا کہ موم بتی مافیا نے بلاوجہ کا ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔

کبھی علم ہوتا کہ غیرت کے نام پر کوئی قتل ہو گیا ہے تو اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ بھلا اس نظریاتی ملک میں یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ کوئی بے غیرتی کرے تو اسے قتل نہ کیا جائے؟ یہ درست ہے کہ کئی مرتبہ جائیداد یا دشمنی وغیرہ کے چکر میں بھی غیرت کا الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے، مگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس قتل و غارت کے سبب معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار اور امن و آشتی کی ترویج ہوتی ہے۔ پھر احتجاج کیوں؟

کبھی پتہ چلتا ہے کہ کوئی بندہ غائب ہو گیا ہے تو اسے جبری گمشدگی کا نام دے کر احتجاج کیا جانے لگتا ہے۔ حالانکہ سب کو علم ہے کہ اول تو یہ لوگ غائب نہیں ہوئے، خود ہی کہیں افغانستان وغیرہ چلے گئے ہوں گے جہاد کرنے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو غائب کیا گیا ہے تو اس نے ضرور کچھ غلط کیا ہو گا۔ نظریاتی غدار ہو گا اور کوئی تحریر لکھ یا تقریر کر بیٹھا ہو گا۔ بھلا اب ایسے افراد کو غائب نہ کیا جائے تو کیا ہماری حب الوطنی خراب کرنے کی آزادی دے دی جائے؟

ایک مرتبہ تو یہ موم بتی مافیا ادھر لبرٹی چوک پر موم بتیاں رکھنے جمع ہو گئی۔ پتہ چلا کہ ادھر پشاور میں آرمی پبلک سکول میں کوئی ڈیڑھ سو بچے اور اساتذہ قتل ہو گئے ہیں اس پر احتجاج کرنے نکل آئے کہ قتل کیوں کیا؟ کیا انہیں علم نہیں کہ جنگ میں کولیٹرل ڈیمیج تو ہوتا ہی ہے اور ادھر افغانستان میں امت کی سربلندی کے لیے کتنی اہم جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس عظیم مقصد کی خاطر سکول میں سینکڑوں بچوں کا قتل برداشت نہیں کر سکتے کیا؟

ان کی بے لگامی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ ایک مرتبہ ایسے ہی کسی قطعاً غیر اہم معاملے پر موم بتی مافیا کی خواتین احتجاج کرنے لبرٹی چوک پر جمع ہو گئیں۔ اس پر پولیس کے غیرت مند جوانوں سے یہ بے حیائی برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے حیا کے تحفظ کے لیے ان خواتین کی قمیضیں پھاڑ دیں اور انہیں گرفتار کر لیا۔ محب وطن فوٹوگرافروں نے اس کی تصاویر بھی اتار کر پھیلا دیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ یہ خواتین شرمندہ ہوں گی۔ لیکن انہوں نے الٹا حکومتِ وقت کو شرمندہ کر ڈالا۔

لیکن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا غالباً وہ معاملہ ہوا جب ایک خاتون کسی محرم کو ساتھ لیے بغیر موٹروے پر نکل کھڑی ہوئی اور بچوں کے سامنے اس کا ریپ کر دیا گیا۔ جب اعلیٰ حکام نے بتا بھی دیا تھا کہ یہ ساری غلطی اس خاتون کی تھی تو پھر اس پر احتجاج کی کیا تک بنتی ہے؟ کیا انہیں علم نہیں کہ اس احتجاج کے نتیجے میں پاکستان کے دشمن ممالک کا پریس اس واقعے سے آگاہ ہو جائے گا اور ساری دنیا میں پاکستان بدنام ہو جائے گا۔

اس کے بعد کسی محب وطن افسر کو خیال آیا ہو گا کہ یہ چوک مادر پدر آزادی کا گڑھ اس لیے بنا ہوا ہے کہ اس کا نام لبرٹی چوک ہے۔ موم بتی مافیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ انہیں انسانی حقوق، نسوانی حقوق، شہری حقوق، مظلوم کی حمایت، اور ایسے دیگر معاملات کے بارے میں بولنے کی لبرٹی دے دی گئی ہے۔ اس لیے سوہنا لاہور نامی پراجیکٹ کے تحت اگر اس کا نام تبدیل کر کے رینبو چوک رکھ دیا جائے تو یہ موم بتی مافیا لبرٹی کے نام پر یہاں اکٹھی نہیں ہو پائے گی۔ ترنت اس چوک کا نہ صرف یہ نام رکھ دیا گیا، بلکہ اسے سات رنگوں سے رنگ بھی دیا گیا۔ گویا اسے دیکھتے ہی لوگ پکار اٹھیں گے کہ کیا قوس قزح کے رنگ بکھرے پڑے ہیں، یہ ضرور رین بو چوک ہے۔

لیکن بدقسمتی سے عیار لبرل پھر سازش کر گئے۔ یہ فیصلہ کرنے والے نیک نیت افسران اپنے بیچ گھسی لبرل کالی بھیڑوں کی سازش نہ بھانپ سکے کہ لبرٹی کو سترنگا کرنے کے پیچھے کیا مذموم مقاصد ہیں۔ خیر غلطی ان کی بھی نہیں ہے۔ وہ حب الوطنی کے جذبات سے مغلوب ہیں اور صرف محب وطن پریس کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر ہم جنس پرستوں نے دھنک کو اپنی مذموم تحریک کا نشان مقرر کر لیا ہے۔ یعنی ایک نظریاتی ملک کا قلب کہلائے جانے والے اہم ترین چوک کو دیکھتے ہی باہر سے آنے والے لوگ یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ خدانخواستہ اس نیک معاشرے میں بھی ہم جنس پرستوں کی سرکاری اور معاشرتی حمایت موجود ہے۔ حکومت اور معاشرہ نہ صرف اس مذموم تحریک کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔

حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں ہم جنس پرستی نہیں ہوتی۔ انگریزوں کے کہنے پر شعرا نے جو الٹے سیدھے شعر لکھے ہیں یا جوش ملیح آبادی جیسے لوگ جو قصے یادوں کی بارات میں بیان کر گئے ہیں، وہ درحقیقت مغربی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیز قصور کے ویڈیو سکینڈل میں بھی فلمیں درحقیقت فیک تھیں اور سپیشل کمپیوٹر افیکٹ استعمال کر کے بنائی گئی تھیں تاکہ وطن عزیز کو دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔

اب چالاکی دیکھیں ان لبرلوں کی۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ لبرٹی چوک کا نام ان کی مرضی کے خلاف تبدیل کیا جا رہا ہے، اور انہیں لبرٹی یعنی مادر پدر آزادی پسند ہے، وہ اس تبدیلی کے خلاف بھی احتجاج کرنے لگے ہیں۔ اس سے ہماری نظریاتی سرحدوں کے محب وطن محافظ یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ انہوں نے رین بو کا نام رکھ کر ضرور کوئی اچھا کام کیا ہے جو لبرل اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یوں وہ پکے ہو جائیں گے اور یہی نام رکھیں گے۔

ہماری رائے میں اس چوک کا نام لبرٹی سے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس نظریاتی ملک میں عوام کو لبرٹی نہیں دی جا سکتی۔ اس کا کوئی اچھا نام رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً حب الوطنی چوک، پیارا پاکستان چوک، امت چوک، وغیرہ۔ بلکہ حجاب چوک رکھ دیں تو سب سے بہتر ہو گا۔ یوں موم بتی مافیا کی خواتین یہاں مظاہرہ کرنے آئیں گی تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ حجاب کی خاطر مظاہرہ کر رہی ہیں، یوں وہ خوب خفیف ہوں گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar