بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ کا مبینہ اغوا: ’گاڑی سے اُتار کر سر نیچے کرنے کو کہا تو لگا یہ زندگی کا آخری لمحہ ہے‘


اغوا
’جب مسلح افراد نے ہمیں گاڑی سے اُتار کر سر نیچے کرنے کو کہا تو میں سمجھا کہ یہ زندگی کا آخری لمحہ ہے۔۔۔ لیکن گاڑی سے اتارنے کے بعد دیر تک خاموشی چھائی رہی تو میں نے ہمت کی اور اپنی آنکھوں سے کوٹ ہٹایا۔ وہاں کوئی نہیں تھا اور ہم پہاڑوں کے درمیان ایک ویران علاقے میں تھے۔‘

یہ کہانی ہے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ براہوی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شبیر شاہوانی کی جنھیں سینیچر کو یونیورسٹی کے دو دیگر اساتذہ کے ہمراہ مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ لیکن اندازاً دو گھنٹے بعد ان سمیت دو کو چھوڑ دیا گیا جبکہ تیسرے شخص اب بھی لاپتہ ہیں۔

یہ لاپتہ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی ہیں جن کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ حکومتِ بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

ڈاکٹر شبیر شاہوانی نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے تحت بی اے کے امتحان چل رہے ہیں اور یونیورسٹی کی جانب سے شعبہ براہوی کے سربراہ ڈاکٹر لیاقت سنی، شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر نظام شاہوانی اور ان کی ڈیوٹی امتحانات کی ویجیلینس کے سلسلے میں خضدار میں لگائی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سنیچر کی صبح کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے چوتو پہنچے تو وہاں روڈ کے ساتھ تین کرولا گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پاس نقاب پوش مسلح افراد تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان گاڑیوں میں سے دو سفید رنگ کی تھیں جبکہ ایک سیاہ تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’روڈ پر کھڑے مسلح افراد کے اشارے پر ہم لوگوں نے اپنی گاڑی روکی اور ڈاکٹر لیاقت سنی نے ان کو بتایا کہ وہ ’یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور ڈیوٹی کے سلسلے میں خضدار جا رہے ہیں۔‘

اغوا

پروفیسر لیاقت سنی جو تاحال لاپتہ ہیں

ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے گالی دی اور ان کو گاڑی سے باہر کھینچ لیا، اور اس کے ساتھ ’ہم دونوں کو بھی گاڑی سے باہر نکال کر ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے ’مجھے اور پروفیسر نظام کو ایک گاڑی میں بٹھا دیا۔۔۔ ہم نے محسوس کیا جس گاڑی میں ہمیں بٹھایا گیا ہے اس میں ڈاکٹر لیاقت سنی نہیں ہیں۔‘

’جس گاڑی میں ہم تھے، اس میں موجود ایک شخص اُردو اور پشتو زبان میں بات کر رہا تھا اور اُن کا پشتو کا لہجہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لہجے کی طرح تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں راستے میں بتایا گیا کہ وہ ہمیں افغانستان لے جا رہے ہیں اور ہم سے پانچ کروڑ روپے دینے کی بات کی گئی۔ ہم نے اُنھیں بتایا کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے، تاہم اپنے خاندان کے لوگوں اور ساتھیوں سے بات کریں گے۔‘

ڈاکٹر شبیر شاہوانی کے مطابق اندازاً گاڑی میں دو گھنٹے کے سفر کے بعد ’مجھے اور پروفیسر نظام بلوچ کو گاڑی سے اتار دیا گیا۔‘

گاڑی سے اتارنے کے بعد کیا ہوا؟

پروفیسر شبیر شاہوانی نے بتایا کہ گاڑی سے اتارنے کے بعد انھیں کہا گیا کہ وہ افغانستان کے علاقے میں ہیں۔

’گاڑی سے اتارنے کے بعد ہمیں نیچے بیٹھنے اور سر نیچے کرنے کا کہا گیا۔ یہاں ہماری آنکھوں سے وہ پٹیاں اتاری گئیں جو انھوں نے ہمیں اٹھانے کے بعد باندھی تھیں اور یہاں ہماری آنکھوں پر ہمارے کوٹ اور جیکٹیں باندھی گئیں۔‘

یونیورسٹی کے ٹیچر کے مطابق اُنھیں بتایا گیا کہ ان کا ایک آدمی ان کے سر پر کھڑا ہے۔ ’ہمیں بتایا گیا کہ سر نہیں اٹھائیں اور امیر صاحب کے حکم کا انتظار کریں۔ آیا وہ آپ لوگوں کو مارنے کا حکم دیں گے یا پیسوں کا کہیں گے۔ یہ کہنے کے بعد گاڑیوں کی روانگی کی آواز آئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ دیر کے بعد میں نے کہا کہ مجھے رفعِ حاجت کے لیے جانا ہے، اس لیے میری آنکھوں کو کھول دیا جائے لیکن کوئی آواز نہیں آئی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد جب جواب نہیں آیا تو میں نے دوبارہ کہا، مگر دوبارہ کوئی جواب نہیں آیا۔

’جب میں نے اپنی آنکھوں سے اپنا کوٹ ہٹا لیا تو دیکھا ہمارے پاس کوئی بھی آدمی نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پہاڑوں کے درمیان ایک ویران علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔‘

پروفیسر شبیر شاہوانی نے بتایا کہ اس کے بعد ’ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ نتائج جو بھی ہوں ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد ان کو ایک ڈیم اور آبادی نظر آئی۔ ’جب ہم اس آبادی کے قریب پہنچے تو وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کوئٹہ کے قریب اغبرگ کے علاقے میں ہیں۔‘

پروفیسر شبیر نے کہا کہ جہاں وہ اپنی حفاظت پر شکر ادا کر رہے ہیں وہیں انھیں اس بات کا دُکھ اور غم ہے کہ ان کے ساتھی ڈاکٹر لیاقت تاحال لاپتہ ہیں۔

پروفیسر لیاقت کی بازیابی کے لیے مظاہرہ

پروفیسر لیاقت کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرہ

مستونگ پولیس اسٹیشن میں اغوا کا مقدمہ درج

مستونگ سٹی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سعید احمد نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ تینوں افراد کو صبح ساڑھے سات بجے چوتو کے مقام سے اٹھا لیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر سید عین الدین کی مدعیت میں ان کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

اگرچہ مستونگ پولیس نے پروفیسر لیاقت سنی کے اغوا کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم ابھی تک اس واقعے کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔

بعد ازاں یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ایک ہنگامی اجلاس میں مغوی پروفیسر کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ لاپتہ پروفیسرز میں سے دو پروفیسر صاحبان بازیاب ہوگئے ہیں جبکہ ڈاکٹر لیاقت سنی تاحال لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp