کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ڈیٹنگ اتنی مختلف کیوں نظر آنے لگی ہے؟


ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ صحت کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہمارے رومانوی برتاؤ میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ لندن میں 29 سالہ محقق خاتون ایملی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہی انٹروورٹ یعنی کھل کر نہ ملنے جلنے والی خاتون رہی ہیں۔

کورونا کی وبا سے قبل تو وہ ڈیٹنگ کرتی تھیں لیکن اس کے بعد برطانیہ میں کچھ عرصے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا۔ جولائی میں برطانیہ میں پہلی بار لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم ہوئیں تو وہ دوبارہ ذاتی طور پر ڈیٹنگ شروع کرنے سے گریزاں تھیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ ڈیٹنگ ایپس پر بات کی لیکن میں کسی سے ملنے کے لیے جلد بازی میں نہیں تھی۔ وبائی امراض کے بارے میں ہر چیز نے مجھے کافی متفکر کر دیا تھا۔‘

اگست کے شروع میں وہ ایک ڈیٹنگ ایپ پر کسی کے ساتھ ڈرنکس پر ملنے کے لیے تیار ہوئیں۔ یہ مارچ کے بعد ان کی پہلی ڈیٹ تھی۔

ایملی اپنا پورا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ‘کچھ مہینوں سے ایک دوسرے کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں، اور وہ واقعی اچھا آدمی ہے۔‘

لیکن جب آخر کار ان سے ملاقات ہوئی تو وہ کہتی ہیں: ‘مجھے بہت ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ ذہن کے کسی گوشے میں مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں دوبارہ کسی کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار ہوں۔ بعد میں میں نے اسے ایک ٹیسکٹ میسیج بھیجا اور بتایا کہ میں نے کیا محسوس کیا، اس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے برتاؤ سے اس کا اندازہ ہو گیا تھا۔’

کووڈ 19 کے دوران ڈیٹنگ کے معاملے میں ایملی تنہا اس طرح کے احساس کی زد میں نہیں ہیں۔

در حقیقت ان کا طرز عمل سنہ 2017 کی ایک تحقیق سے ملتا جلتا تھا۔ اس تحقیق میں مانٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات نے اس بات پر غور کیا تھا کہ وبائی بیماری کے خطرے کے باعث کیا لوگوں کے ڈیٹنگ کرنے کے طریقے میں فرق آئے گا۔

یہ بھی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ کیا لوگ رومانوی برتاؤ سے باز آجائیں گے۔ اگر وہ شعوری طور پر صحت کے کسی امکانی خطرے سے آگاہ ہوں، یا پھر کسی ساتھی کو تلاش کرنے کی فطری انسانی خواہش ان پر غالب ہوگی؟

محققین کو ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کووڈ 19 آس پاس ہی ہے۔ اب وبائی مرض کے دوران ہونے والے دیگر نفسیاتی مطالعات کے ساتھ اس ضمن میں انتہائی دلچسپ دریچہ روشن ہوتا کہ کوئی بحران ڈیٹنگ کے طریقے کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔

ڈیٹنگ

اور یہ ان طریقوں کی نشاندہی کرتا ہے جن میں لوگ مستقبل میں زیادہ موثر طریقے سے ڈیٹنگ کر سکیں گے اور ساتھ ہی تعلقات زیادہ مضبوط اور گہرے ہوں گے۔

میک گیل کے تجربے سے پتا چلتا ہے کہ ایملی کی جانب سے ہچکچاہٹ ہماری نفسیات کے اس عنصر کا نتیجہ ہوسکتی ہے جسے ہم ‘طرز عمل کے ذریعے قوت مدافعت کے نظام’ کے نام سے جانتے ہیں۔

پوری انسانی تاریخ میں پیتھوجنز یعنی مرض پھیلانے والے جراثیم کی جانب سے ہماری بقا کو خطرہ لاحق رہا ہے۔

لہذا ارتقائی سائنس کے ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ انسانوں نے لاشعوری طور پر ردعمل کا ایک ایسا مجموعہ تیار کیا ہے جو خاص طور پر کسی متعدی بیماری کی موجودگی کے بارے میں ہمیں متفکر کر دیتا ہے۔

ان کے تحت ہم ایسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں جس سے ہم کم سے کم انفیکشن کا شکار ہوں۔ مثلاً سماج میں ہم لوگوں سے کم ملتے ہیں، شناسا لوگوں سے نظریں چراتے ہیں، چیزوں کو دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

میک گل کی ٹیم نے یہ جانچ کی کہ ڈیٹنگ کے معاملے میں یہ عناصر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

انھوں نے 18 سے 35 سال کی عمر کے کئی سو متضاد مرد اور خواتین سنگلز کو لیا اور ان سے پی وی ڈی ایس کے نام سے جانے جانے والے ایک معروف سائیکو میٹرک ٹیسٹ مکمل کروایا، جس کے تحت بیماری کے خطرے کے تحت لوگوں کے سلوک کا پتا چلتا ہے۔

اس میں 15 چیزوں پر مشتمل ایک سوالنامہ ہوتا ہے جس میں شرکا سے 1 (سختی سے غیر متفق) سے 7 تک (یعنی پوری طرح متفق ہونے) کی رینک میں اپنے جذبات کی درجہ بندی کرنے کو کہا جاتا ہے۔

مثلاً اس میں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ‘جب لوگ منھ چھپائے بغیر چھینکتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟‘ یا ‘میری مدافعتی صلاحیت دوسروں کے مقابلے میں مجھے زیادہ تر بیماریوں سے بچاتی ہے؟’

اس کے بعد اس میں شامل ہر فرد نے حفظان صحت اور روزمرہ دنیا میں ہمارے آس پاس بیکٹیریا کی کثرت کے بارے میں ایک ویڈیو دیکھی۔

اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ شام کو اپنے مخالف جنس کے ساتھ ڈیٹ پر جانے سے قبل اپنی عادت پر مبنی اپنی قوت مدافعت کے نظام کو بہتر طور پر سمجھیں۔

حیرت انگیز طور پر محققین نے پایا کہ جن لوگوں نے اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ انھیں بیماری کا زیادہ خطرہ رہتا ہے انھوں نے ڈیٹنگ میں اپنی دلچسپی کا مستقل طور پر کم مظاہرہ کیا۔ انتہائی پرکشش ہونے کے باوجود ان کا یہ حال تھا۔ بیماری کے خوف نے رومانوی برتاؤ میں ان کی دلچسپی کم کر دی تھی۔

ایملی کے معاملے کی طرح فاسٹ ڈیٹنگ کرنے والے شراکت داروں نے اپنے ساتھی کے رویے کو نوٹس کیا۔ اس مطالعے کے مصنفین میں سے ایک جان لیڈن نے اس بات کو ‘خاص طور پر قابل ذکر’ کہا۔

انھوں نے کہا: ‘صرف چند منٹ کے اندر ہی لوگوں نے پتا چلا لیا کہ جنھیں بیماری کا زیادہ خطرہ تھا وہ لاشعوری طور پر کھچے کھچے اور کم دوستانہ رہے۔’

یقیناً، اگرچہ آپ اپنے لاشعور سے خارج ہونے والے مدافعتی پیغامات کو نظرانداز بھی کر دیں تو بھی وبائی امراض کے دوران اس کا ذریعہ بننے والے کسی ممکنہ ساتھی سے ملنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ قومی سطح پر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے انفرادی آزادیوں کو مہینوں تک ایک ساتھ غیر معمولی انداز میں متاثر کیا اور باہر نکلنے اور ڈیٹنگ کرنے کو تقریباً ناممکن بنا دیا۔

لیکن جیسے جیسے کام آن لائن منتقل ہوا، اسی طرح رومانس بھی آن لائن منتقل ہوا ہے۔

ڈیٹنگ

برسٹل میں رہائش پذیر 27 سالہ بین، جو ایک دفتر میں کام کرتے ہیں، ابتدائی طور پر ویڈیو ڈیٹنگ کے بارے میں مطمئن نہیں تھے۔ لیکن اپریل کے اوائل میں کچھ متبادل کے ساتھ انھوں نے جلد ہی ڈیٹنگ کے اس نئے ٹرینڈ کو اپنانا شروع کیا، یہاں تک کہ اس کے کچھ فوائد بھی ڈھونڈ لیے۔

بین نے کہا: ‘ڈیٹنگ ایپس کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دوسرا شخص واقعتاً کیسا ہے۔’ انھوں نے اپنے پورے نام کو نہ ظاہر کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ کہیں ان کے پرانے ڈیٹنگ پارٹنرز کو ان کے بارے میں پتا نہ چل جائے۔

انھوں نے کہا کہ ‘بار میں آپ کسی سے ملتے ہیں اور پہلے پانچ منٹ میں پتا چلتا ہے ان کے ساتھ آپ کی کیمسٹری نہیں ہے، اس سے زیادہ عجیب اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

’ویڈیو ڈیٹنگ کے ساتھ یہ قدرے پُرسکون ہے۔ آپ اپنے گھر سے چیٹ کرتے ہیں اور اپنی ڈرنکس لیتے ہیں اور اگر آپ کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ آپ کی ہم آہنگی نہیں ہے تو آپ کو شام کے برباد ہونے کا غم نہیں ہوتا۔‘

ماہرِ نفسیات لوگن اوری فی الحال ڈیٹنگ ایپ ’ہنج‘ میں ریلیشن شپ سائنس ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔

انھوں نے بھی آن لائن ڈیٹنگ کے دور سے آنے والی تبدیلیوں کو نوٹس کیا ہے۔ وبا سے پہلے لوگوں میں ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہونے کے لیے ایپ کا استعمال عام تھا۔

لیکن جیسے ہی معاشرتی پابندیوں کا سامنا ہوا لوگوں نے ملاقات سے پہلے ورچوئل (انٹرنیٹ کی دنیا) میں ایک دوسرے کو جاننے میں زیادہ وقت لگانا شروع کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ جب بالآخر انھیں ذاتی طور پر ملنے کا موقع ملا تو ان کے ذہنوں میں اس ملاقات کی زیادہ اہمیت تھی۔

لوگن اوری نے کہا: ‘وبائی مرض نے بتا دیا ہے کہ ہر ڈیٹ زیادہ قیمتی ہے۔‘

‘میں نے دیکھا ہے کہ جب لوگ ایک لمبے عرصے کے دوران پہلی بار رشتوں میں داخل ہوئے تو ان میں خلل کم تھا اور جس شخص سے وہ ملاقات کر رہے تھے وہ ان کے لیے زیادہ قیمتی ہو گیا تھا۔ ان لوگوں نے ہمیشہ دوسری جانب دیکھنا بند کر دیا تھا کیونکہ دوسری طرف گھاس ہمیشہ زیادہ سبز نظر آتی ہے۔ اور یہ سب ممکنہ طور پر وبائی مرض کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔’

ان کا خیال ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کے دوران خود احتسابی کی وجہ سے خود اپنے اور دوسروں کے بارے میں زیادہ واضح ہو گئے ہیں کہ انھیں کیا چاہیے۔

‘چونکہ لوگوں نے بہت زیادہ وقت تنہائی میں گزارا ہے اور یہ سوچتے رہے ہیں کووِڈ میں کب پھر سے اضافہ ہوگا، کب پھر سے لاک ڈاؤن نافذ ہو جائے گا اس لیے وہ بہت غور کے بعد دانستہ طور پر ڈیٹنگ کر رہے ہیں۔ اور ان کی یہ نیت کئی طریقوں سے ظاہر ہو سکتی ہے۔

’مثال کے طور پر آپ جب اپنے اور دوسروں کے بارے میں زیادہ واضح ہیں کہ کیا چاہتے ہیں اس لیے آپ ہر ڈیٹ کی قدر کرنے کے لیے واقعی ذہنی طور پر تیاری کرتے ہیں اور یہ فتور نہیں پالتے کہ آپ کی دلچسپی نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ ایسی چیزیں ہیں جو ڈیٹنگ کمیونٹی کے لیے عام طور پر اچھی ہیں۔’

تاہم جو لوگ پہلے ہی مطمئن ہو چکے ہیں ایسا نہیں کہ وبائی امراض کے رومانس سے متاثر نہیں ہیں۔ ماہر نفسیات پولا پیٹرموناکو یہ جانچ کررہی ہیں کہ بحران کے تناؤ کے سبب کچھ جوڑے کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں جبکہ بعض ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں۔

ڈیٹنگ

اگرچہ معاشی اور سماجی عوامل ایسے جوڑوں کو ایک دوسرے سے دور لے جاتے ہیں جو وبا کے دوران مالی طور پر زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن پیٹروموناکو کا کہنا ہے کہ چیزیں اس بات پر زیادہ منحصر ہیں کہ خود کو درپیش کسی مسئلے کو لوگ کس طرح حل کرتے ہیں یا انھیں کس طرح دیکھتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘اگر وہ خود کو ایک ٹیم کے طور پر دیکھتے ہیں اور اپنے ساتھی پر الزام ڈالنے کے بجائے وبائی بیماری کو وجہ سمجھتے ہیں تو یہ توقع ہے کہ وہ اس صورتحال سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ باہر آئيں گے۔’

چونکہ یہ وبائی مرض ہر ایک کے لیے زندگی کو بدلنے والا رہا ہے اس لیے وہ پیش گوئی کرتی ہیں کہ بہت سے جوڑوں کے تعلقات پر اس کے دیر پا اثرات رہیں گے کہ انھوں نے اس سے کیسے نمٹا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘وبا کے بعد بھی لوگوں کے برتاؤ دیر تک قائم رہیں گے۔ اس کے خاتمے کے بعد جوڑے آپسی بات چیت میں بہتر ہو سکيں گے، ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ لیکن اگر وہ تنازعات کا شکار ہو گئے تو یہ بڑھ سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ہلا دینے والا تجربہ ہوگا کہ وہ اپنے سلوک کو بہتری کے لیے بدلیں جبکہ دوسروں کے لیے یہ کمر توڑ بوجھ ہو سکتا ہے۔’

کچھ اکیلے افراد کے لیے یہ وبائی مرض ایسی تبدیلیاں لے کر آیا ہے جو زندگی کے معمول پر آنے کے باوجود ان کے ساتھ رہیں گی۔

بین کہتے ہیں: ‘میرے خیال میں ڈیٹنگ ایپس دیر پا رہیں گی تاکہ آپ جن سے ملیں انھیں ملنے سے پہلے جان سکیں۔ جب پہلا لاک ڈاؤن ختم ہوا اس کے بعد بھی میں لوگوں سے ڈرنکس پر ملنے سے پہلے ان کو ورچوئل دنیا میں جاننا چاہتا تھا۔

’مجھے لگتا ہے کہ یہ یقینی طور پر ایک مثبت ٹرینڈ ہے۔ میں اب کم ڈیٹ پر جاتا ہوں لیکن جب میں ڈیٹ پر جاتا ہوں اس کا امکان بہت زیادہ رہتا ہے کہ وہی اچھی گزرے گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp