’صحت مند غذا سے متعلق میرے دوستوں کی غلط فہمیاں جنھوں نے مجھے پاگل کردیا ہے!‘


مفروضے
کھانے پینے کی اشیا کے متعلق بہت سے مفروضے بنے ہوئے ہیں اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ جب ہم بلاگز اور سوشل میڈیا پر دلچسپ اور کلک بیٹ ’حقائق‘ دیکھتے ہیں تو ان پر یقین کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

یہاں میں، ’گاجر کھانے سے بینائی تیز ہو جاتی ہے‘ یا ’چاکلیٹ کھانے سے جنسی خواہشات بڑھتی ہیں‘ جیسے بے ضرر مفروضوں کی بات نہیں کر رہی۔

لیکن ایسے مفروضے جو ہماری روزمرہ کی غذا پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں اور ان سے اکثر باتیں پھر سچ ثابت ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے ہم ان پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

آخری بار آپ نے یہ کب سنا تھا کہ ’گڑ زیادہ صحت بخش ہے؟‘ یا ’اگر آپ ورزش کرتے ہیں تو پروٹین شیک پینا ضروری ہے‘ یا ’اگر اپ کو سوجن ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے جسم میں یقینی طور پر گلوٹن کے لیے عدم برداشت ہے‘۔

میں نے یونیورسٹی میں غذائیت کا مطالعہ کی، لہذا زیادہ تر میں حقیقت اور مفروضے میں فرق کر سکتی ہوں (حلانکہ دوست جو کہیں، میں اس پر یقین کرنے کے لیے شہرت رکھتی ہوں)۔

صحت مند غذا

آئیے آپ کو ان چند مفروضوں کے متعلق بتاتے ہیں جو ہم اکثر سنتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا سچ ہونا ضروری نہیں:

’کاربز صحت بخش نہیں‘

میں یہ برسوں سے یہ سنتی آ رہی ہوں خاص طور پر ان لوگوں سے جو وزن کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اکثر ان دوستوں کی طرف سے جو صرف صحت مند غذا کھانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا کارب ہے اور کیا نہیں، اس کے متلعق کچھ الجھنیں ہیں۔

ایک دوست نے حال ہی میں دوپہر کے کھانے کے دوران سوپ کے ساتھ روٹی کھانے سے انکار کردیا کیونکہ وہ کاربز سے پرہیز کررہی تھی، لیکن پھر ایک لذیذ مشروب اٹھا لیا! (ہم سب ایسا کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔

(بی بی سی فوڈ ٹیم کی ایک ممبر کا کہنا ہے کہ انھوں نے نوعمری میں رول کھاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’میں اب کاربز نہیں کھاؤں گی‘)۔

کھانے میں کاربز کو مختلف طرح سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ دن کے ایک خاص وقت کے بعد کاربز نہیں کھانا چاہتے۔

برطانیہ کے علاقے ایسیکس میں اس حوالے سے ایک جملہ بھی مشہور ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے ’چھٹیوں سے پہلے والے چند دنوں اور بیکینی پہننے والے کسی بھی موقعے سے پہلے کاربز نہیں کھانے چاہییں۔‘

کیا واقعی ہمیں ایسا کرنا چاہیے؟ کاربز کی تین اہم اقسام، چینی، نشاستہ اور فائبر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، اور ان تینوں کے جسم میں داخل ہونے پر ہمارا جسم مختلف انداز میں شوگر اور دوسرے غزائی اجزا خارج کرتا ہے۔

کاربز ہماری توانائی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ چاول، روٹی، پاستا، پھل اور سبزی جیسے ایسے کاربز کو منتخب کیا جائے جو دیگر غذائی اجزا اور فائبر بھی فراہم کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزن کم کرنے کے بارے میں پانچ مغالطے

کیا مائیکرو ویو میں گرم کیا ہوا کھانا صحت کے لیے محفوظ ہے؟

تنہا بیٹھ کر کھانا کھانے کے آٹھ فوائد

خوراک کو پکا کر کھانے میں کیا نقصانات چھپے ہیں؟

ہم میں سے بیشتر افراد بالغوں کے لیے (پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی جانب سے) تجویز کردہ 30 گرام فائبر نہیں کھا پاتے۔ آخر فائبر کے بارے میں ہچکچاہٹ کیا ہے؟

یہ ہضم ہونے میں مددگار ہیں اور آنت میں رہنے والے اچھے بیکٹیریا کو خوراک فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ بہت سے ایسے افعال انجام دے سکیں جو ہمارے جسم کے لیے مفید ہیں۔

‘تمام کیلوریز یکساں’

میں کسی بار ایسی بحث سن چکی ہوں کہ کھانوں کی ان میں موجود کیلوریز سے جانچا جاسکتا ہے۔

ایک بار جب ہر خوراک کو محض نمبر میں تبدیل کر دیا جائے تو لوگ اس کا موازنہ کسی دوسری خوراک سے کر پاتے ہیں۔

میں نے سنا ہے کہ ‘اس سے فرق نہیں پڑتا اگر میں مِلک چاکلیٹ کے دو ٹکڑے کھا لوں یا ایک کیلا ک کیونکہ دونوں میں کیلوریز کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے۔’

چاکلیٹ اور کیلے کی مثال ہی لے لیتے ہیں۔ شاید دونوں میں 90 کیلوریز ہوتی ہیں لیکن ممکن ہے کہ چاکلیٹ میں فیٹس کی مقدار زیادہ ہو۔ خاص کر سیچوریٹڈ فیٹس جو کولیسٹرول بڑھا سکتے ہیں۔

اور ان میں چینی بھی زیادہ ہوتی ہے جو خون میں چینی کی مقدار بڑھا سکتی ہے اور یہ مقدار اچانک گِرنے سے آپ کو دوبارہ بھوک لگ سکتی ہے۔

موازنہ کیا جائے تو کیلے میں فائبر ہونے کی وجہ سے چینی کے پھیلاؤ آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ یہ چینی خون میں بتدریج بڑھتی ہے اور آپ کو زیادہ عرصے تک دوبارہ بھوک نہیں لگتی۔ کیلے میں اضافی وٹامنز اور منرلز بھی قابلِ ذکر ہے۔

صرف کیلوریز کی جگہ غذائی اجزا کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ صرف کیلوریز گِن کر کھانا کھانے سے آپ کی غذائی عادات پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔

‘چینی کے قدرتی متبادل زیادہ صحت بخش’

لوٹی سیویج

شاید ہی کوئی ہوگا جسے مٹھائی ناپسند ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ ضرورت سے زیادہ چینی ہمارے لیے مضرِ صحت ہوسکتی ہے۔ تو ہم اس کے نتیجے میں ہم سمجھتے ہیں کہ چینی کے قدرتی متبادل زیادہ صحت بخش ہوتے ہیں۔

ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہ ‘چائے میں ریفائنڈ شوگر (سفید چینی) کی جگہ شہد ڈالتی ہیں کیونکہ یہ قدرتی ہے اور میرے لیے زیادہ بہتر ہے۔’ لیکن جسم اب بھی اسے چینی ہی تصور کرتا ہے۔

کِيوڑے یا میپل کا عرق اکثر دوستوں کی الماریوں میں موجود رہتا ہے۔ کسی نے حال ہی میں مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے پاس شہد یا کیوڑے کا عرق ہے جو وہ ادھار حاصل کرسکتے ہیں۔

جب میں نے نہ کہا تو انھوں نے براؤن شوگر مانگ لی۔ لیکن براؤن شوگر بھی سفید چینی میں گڑ ڈال کر بنتی ہے۔

ان میں سے چینی کے کچھ قدرتی متبادل میں چینی سے بھی زیادہ مائیکرو نیوٹرینٹس ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ اتنی کم تعداد میں ہوتے ہیں کہ ان سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یہ پھر بھی چینی ہی ہوتے ہیں۔

مسئلہ ناشتے کے سیریل میں آتا ہے۔ گرینولا یا دوسری سیریل بارز میں شہد کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن انھیں صحت مند آپشن کہہ کر بیچا جاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہمیں روز مرہ کی تجویز کردہ توانائی کی مقدار کے مقابلے چینی کو پانچ فیصد سے کم رکھنا چاہیے۔

اس کا مطلب ہے روز چھ سے سات چائے کے چمچ چینی کھانا۔ ان میں بنے بنائے کھانوں اور پھلوں کے جوس کو بھی گننا ہوتا ہے۔ اس لیے کھانوں پر لگے لیبل پڑھنا ضروری ہے۔

‘سبزیاں کھانے سے پروٹین نہیں ملے گا’

مشروبات کے بعد اکثر مجھے چکن نگٹس کھانے کی اکثر پیشکش کی جاتی ہے۔ دوست کہتے ہیں ‘گوشت یا مچھلی کھائے بغیر تمھاری غذا میں پروٹین تو نہیں ہوگی نا۔’ جب میں کچھ دیر تک صرف سبزیاں کھاتی تھی تو یہ مشورہ اکثر دیا جاتا تھا۔

اکثر سبزی خور اپنی پروٹین کی ضروریات دودھ، انڈوں، دالوں یا میوؤں سے پوری کر لیتے ہیں۔ غذا میں یہ ذرائع شامل کرنا اچھا ہے تاکہ نئی خلیات بنیں اور باقیوں کی مرمت ہوسکے۔

سبزیاں پھل

پروٹین دراصل امینو ایسڈ سے بنا ہوتا ہے اور ہمارا جسم نو طرح کے امینو ایسڈ نہیں بنا سکتا، تو یہ ضروری ہے کہ ہم انھیں غذا میں حاصل کریں۔

جانوروں سے پروٹین دودھ یا انڈے کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان میں یہ تمام امینو ایسڈ ہوتے ہیں۔

جبکہ پودوں میں یہ تمام امینو ایسڈ نہیں ہوتے تو ہم ان کے ساتھ ضروری پروٹین والی غدا کو شامل کر سکتے ہیں۔ ٹوسٹ یا ڈبل روٹی کے ساتھ پھلیاں ایک اچھی مثال ہوسکتی ہے۔

کچھ مائیکرو نیوٹرینسٹ سبزیوں میں نہیں ہوتے کیسے وٹامن بی 12 اور آئرن۔ یہ دونوں کسی دوسری غذا سے حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے ناشتے کے سیریل میں بی 12 ہوتا ہے اور گہرے رنگ سبز رنگ والی سبزیوں میں آئرن ہوتا ہے۔ تو آپ پھلیوں کے ساتھ ٹوسٹ پر کیل کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔

صحتمند کھانے مہنگے ہوتے ہیں‘

یہ کوئی غلط تصور نہیں کہ صحتمند خوراک کھانا مہنگا ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا ضروری بھی نہیں۔ میں ایسے کئی لوگوں سے ملتی ہوں جو ‘صحت مند خوراک’ پر ہفتہ وار کافی پیسے خرچ کرتے ہیں اور گوشت کی جگہ خاص اجزا کا استعمال کرتے ہیں، جیسے سبزیاں۔

لیکن کبھی کبھار بنیادی چیزوں کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔ مثلاً آپ جو خرید سکتے ہیں (جسے آپ صبح کے وقت ناشتے میں دلیے کی صورت میں کھاتے ہیں)، بجائے ناشتے کے سیریل خریدیں جن میں چینی زیادہ مقدار میں ہوتی ہے۔

پھل اور سبزیاں سستی ہوتی ہیں، خاص کر اگر آپ انھیں فروزن یعنی جمی ہوئی حالت میں خریدیں۔ میری پسندیدہ چیز جمی ہوئی پالک ہے۔ اس سے آپ کو زیادہ ساری پالک خریدنے کی مایوسی نہیں ہوتی جو کٹ کر کم ہوجاتی ہے۔

صحت بخش

پھلیوں اور دالوں کے ٹِن پروٹین سے بھرے ہوتے ہیں اور ان سے آپ کے خانے میں فائبر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ آپ کسی سالن یا کھانے میں گوشت کی جگہ چنے کی دال کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ہول گرین کھانوں (جیسے براؤن ڈبل روٹی) کی قیمت اپنے بہتر متبادل (جیسے سفید ڈبل روٹی) سے ذرا سی زیادہ ہوتی ہے۔

‘فری فرام (کسی چیز سے پاک) ہے تو زیادہ صحت مند’

میں یہ اکثر سنتی ہوں کہ ‘میں فری فرام بسکٹ خریدتی ہوں، یہ زیادہ صحتمند ہوتے ہیں کیونکہ ان میں دودھ یا گندم نہیں ہوتی۔’

یا ‘میں گلوٹن فری پاستا خرید رہی ہوں کیونکہ میں فی الحال گلوٹن سے پرہیز کر رہی ہوں۔’

ایسے لوگوں کو ہاضمے سے متعلق کوئی مسائل نہیں ہوتے۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ کئی لوگوں کو دودھ یا گندم بُرے اجزا لگتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ ہر سپر مارکیٹ میں ’فری فرام پراڈکٹس‘ یعنی کسی چیز سے پاک کھانوں کی وسیع تعداد ہوتی ہے۔ انھیں ہرے رنگ کے پیکٹس میں بیچا جاتا ہے جو ’قدرتی‘ محسوس ہوتی ہے۔ ان کھانوں پر ایسی تصاویر بنی ہوتی ہیں جو ان کے زیادہ صحت مند ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

اس سے ہمیں لگتا ہے کہ وہ چیزیں جو دودھ، گلوٹن یا دودھ سے پاک ہیں یہ زیادہ صحت مند ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کے لیے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔

گلوٹن ایک ایسا پروٹین ہوتا ہے جو گندم میں پایا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں اس کے بارے میں بہت بُرا تاثر قائم ہوچکا ہے۔

ایسے لوگ جنھیں گلوٹن سے الرجی ہو، خاص کر سیلیک کی بیماری میں مبتلا افراد، ان کے لیے گلوٹن ایک دشمن ہے اور ان کی زندگی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ اسی طرح لیکٹوز کی عدم برداشت کے شکار افراد کے لیے دودھ سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ دودھ میں لیکٹوز ایک اہم جزو ہوتا ہے۔

اگر آپ کو کسی اجزا سے الرجی کا عدم برداشت ہے تو یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ماہر صحت یا جی پی سے چیک اپ کروائیں۔ کسی آن لائن ٹیسٹ سے یہ پتا کرنا درست نہیں۔

اس کا متبادل یہ ہوسکتا ہے کہ آپ تجربہ کریں کہ آیا گلوٹن یا لیکٹوز سے پرہیز کرنے سے آپ کو بہتر محسوس ہوتا ہے۔

لوٹی سیویج سنہ 2020 میں یونیورسٹی آف لیڈز سے نیوٹریشن میں فارغ التحصیل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp