کچھ گانوں کے بول ہم کبھی نہیں بھول پاتے مگر اس کی سائنسی توجیح کیا ہے؟


یاداشت (کو محفوظ رکھنے) کے لیے دنیا نے موسیقی تخلیق کی۔

انسانی تہذیبوں کی ابتدا میں تخلیق کیا گیا بنیادی علم زبانی روایت کے ذریعہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوا تھا۔ اور اس زبانی روایت کا انحصار یاداشت پر تھا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر ڈیوڈ سی روبن نے اپنی کتاب ’میموری اِن اورل ٹریڈیشن‘ میں لکھا ہے کہ ’بیانات کو باقاعدہ ضبط تحریر میں لائے جانے کی ابتدا سے قبل ان کو (یاد رکھنے کے لیے) پڑھا یا گایا جاتا تھا۔‘

یہی وجہ ہے کہ زبور سمیت دیگر قدیم ابتدائی تحریری نسخے شعر یعنی نظمیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا گیت گانے سے کوکین جیسا مزا آتا ہے؟

مہدی حسن: موٹر مکینک سے شہنشاہ غزل بننے کا سفر

جگجیت سنگھ کے سُر پر مشرف نے طبلہ بجایا

پاکستانی موسیقی کے 50 یادگار گانے

موسیقی

پھر دیکھتے ہی دیکھتے موسیقی نے اس کی جگہ لے لی۔ اور اب ہم اپنے بزرگوں کی آواز میں کہانیاں نہیں سنتے مگر ایسے گانے ہیں جو ہمیں کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں۔

اور یہ جانے بغیر کہ ایسا کیوں ہے مگر موسیقی ان چند ہتھیاروں میں سے ایک ہے جو معالجین الزائمر کے مرض میں مبتلا افراد کی یاداشت کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

لیکن موسیقی کا اثر یاداشت پر کیسے پڑتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ یاداشت کھونے کے مرض میں مبتلا افراد اپنی آخری پسندیدہ چیز جو بھولتے ہیں، موسیقی ان میں سے ایک ہے؟

بی بی سی منڈو کو بیونس آئرس یونیورسٹی کے ماہر نفسیات اور محقق لوسیا اوموروسو نے بتایا کہ ’موسیقی میں دماغ کے اندر نئی یادوں کے دریچے کھولنے اور بھولی بسری یادوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی دوہری صلاحیت ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب لوگ ڈیمینشیا یا الزائیمر میں مبتلا ہوتے ہیں تو بہت سے معاملات میں موسیقی ہی اُن یادوں کے دریچے کھولنے کے لیے واحد کلید رہ جاتی ہے۔‘

موسیقی

زچگی کا موسیقی سے تعلق

اگرچہ اس حوالے سے بہت سے نظریات موجود ہیں، لیکن قطعی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ موسیقی انسان کی زندگی کا حصہ کب بننا شروع ہوئی۔

ان حوالے سے دستیاب مفروضوں میں سے ایک مفروضہ کافی حیرت انگیز ہے اور اس کے مطابق موسیقی کی سب سے پہلے ابتدا ان ماؤں نے کی جو اپنے چھوٹے بچوں کو پُرسکون کرنے کے لیے گنگناتی تھیں۔ ایک مفروضہ اور ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انسانی زندگی میں موسیقی کی ابتدا کا مقصد جانوروں کی ’گائیکی‘ کی تقلید کرنا تھا۔

یونیورسٹی آف فلوریڈا سے منسلک ماہر بشریات اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے میں ماؤں کو گھر کے کام کاج نمٹانے کے لیے اپنے بچوں کو باقاعدہ وقفوں سے چھوڑنا پڑتا تھا، اور بچوں کو دور سے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے وہ بچوں سے انھیں کی زبان میں کلام کرتیں۔‘

ٹونیلیٹی، یعنی وہ میوزک جس کے ساتھ ہماری مائیں ہم سے اس وقت بات کرتی ہیں جب ہم چھوٹے بچے ہوتے ہیں، ہماری یادوں میں اپنا ابتدائی قدم جماتی ہے۔

لوسیا اوموروسو کہتی ہیں کہ ’متعدد تجزیوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ الفاظ کے ذریعے بات چیت کا ربط قائم ہونے سے پہلے ہی بچوں کے دماغ میں موسیقی کا جواب دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘

’اس طرح سے موسیقی ہمیں اپنا پہلا معاشرتی تعلق قائم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور ہمارا یہ ابتدائی معاشرتی تعلق اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور پھر مستقبل میں بھی ہمارے اور معاشرتی بندھنوں میں بھی یہی عمل جاری رہتا ہے۔‘

موسیقی

لہذا جب ہم اپنے دماغ میں موجود پروگرامننگ کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور جب جب ہم کسی راگ یا گانے کو سنتے ہیں تو ہمارے دماغ میں ایک حیرت انگیز عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔

بی بی سی منڈو کو ماہر نفسیات اور موسیقار رابرٹ زٹورے نے بتایا کہ ’جب ہم موسیقی سنتے ہیں جو ہمارے دماغ میں موجود ’خوشی کا مرکز‘ کہلانے والا حصہ سب سے پہلے متحرک ہوتا ہے اور اس کے متحرک ہونے سے ڈوپامائن نامی ہارمونز خارج ہوتے ہیں۔ ان ہارمونز کا اخراج ہمیں خوشی کا احساس دیتا ہے۔‘

عام طور پر ان گانوں کو جنھیں ہم حفظ کر لیتے ہیں وہ ہمارے دماغ کے مینٹل ’ڈسکو‘ کہلائے جانے والے حصے میں محفوظ ہو جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ موسیقی ہمیں خوشی دیتی ہے اور ہم اسے اپنی یادوں میں محفوظ رکھتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں۔‘

جب ہم کوئی موسیقی سنتے ہیں تو ہمارا دماغ اس کا موازنہ اپنے اندر پہلے سے محفوظ موسیقی سے کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں نئی موسیقی یا گانے کے ابتدائی سُر سُن کر ہی اس گانے کی پہچان میں آسانی ہوتی ہے۔

رابرٹ زٹورے کہتے ہیں کہ ’ایک اور عمل جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دماغ چلنے والی موسیقی کو باہر ہونے والے شور سے علیحدہ کرتا ہے۔ یہ عمل بھی کافی پیچیدہ ہے۔‘

پسندیدہ گانے

لیکن اس وقت کیا ہوتا ہے جب ایک گانا سُن کر ہمیں ناصرف خوشی ہوتی ہے بلکہ ہمارے جذبات بھی بہل جاتے ہیں۔ یہ گانا غمگین بھی ہو سکتا ہے مگر یہ کیسے ہمارے احساسات کو بیدار کرتا ہے؟

موسیقی

حال ہی میں الزائمر کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے اپنے قارئین سے اُن گانوں کے بارے میں پوچھا جو انھیں لگتا تھا کہ وہ کبھی نہیں بھول پائیں گے؟

اگرچہ اُن میں سے بہت سارے گانوں کا تعلق محبت سے تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر زندگی کے ایک اہم لمحے سے متعلق تھے جیسا کہ بچے کی پیدائش، بیرون ملک کا پہلا سفر، دوست کی موت یا جیل سے رہائی۔

سائنس کی رُو سے یاداشت کے ساتھ دھنوں کا تعلق اس سے بھی واضح ہوا ہے۔

لوسیا اوموروسو کہتی ہیں کہ ’یاداشت میں بہت سارے سسٹم بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی ایک گانا کسی خاص لمحے کے ناقابل فراموش سفر کا حصہ بن جاتا ہے، جیسا کہ کوئی یادگار سیر، ایک اہم کامیابی، کسی کی محبت میں گرفتار ہو جانا۔ اور ایسا ہوتے وقت ناصرف گانا بلکہ اس گانے کی ترجمانی کرنے والے فنکار یا گانے کی دھن بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘

اسے دوبارہ چلاؤ

رابرٹ زٹورے کہتے ہیں کہ موسیقی کے ساتھ دہرائے جانے کا رجحان بھی وابستہ ہے۔

’جب ہمیں کوئی گانا بہت زیادہ پسند آتا ہے؟ ہم اسے دہراتے ہیں۔‘

’اور ایسا صرف ایک مختصر مدت کے لیے نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک گانا جسے ہم نے 15 سال کی عمر میں سُنا ہوتا ہے، ہم اسے اپنی باقی زندگی میں کئی بار سُن سکتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی انداز میں ہماری یادوں میں موجود رہتا ہے۔‘

موسیقی

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایسی چیز جو دوسری چیزوں کے ساتھ یکسانیت نہیں رکھتی اور ہمیں خوشی دیتی ہے وہ ہمیں یاد رہتی ہے، جیسا کہ اپنا پسندیدہ کھانا یا اپنی پسندیدہ جگہ کا دورہ کرنا۔‘

اور یہاں ایک اور عنصر سامنے آتا ہے: موسیقی نہ صرف یادوں کو جنم دیتی ہے اور جذبات کو ابھارتی ہے بلکہ یہ ہمارے طرز عمل اور ہماری یادوں کو تشکیل بھی دیتی ہے۔

ایک اہم تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ موسیقی کے ذریعے لوگ دوسروں کی شخصیت کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں۔

لوسیا اوموروسو نے اپنی ایک تحقیق میں لکھا کہ وہ افراد جنھوں نے برسوں تک ٹانگو، جنوبی امریکہ کی میلوڈی جس پر مخصوص ڈانس کیا جاتا ہے، سُن رکھا ہو وہ ان لوگوں کے برعکس، جنھوں نے یہ دھن نہ سنی ہو اور اس پر ڈانس نا دیکھا ہو، ایک سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں پہلی مرتبہ ٹانگو کرنے والے شخص کی غلطی پکڑ لیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ دماغ میں جو ردعمل ہمیں اس غلطی کا اندازہ لگانے میں مدد کرتا ہے وہ اس تجربے کی بنیاد پر ہے جو ٹانگو کو برسوں سننے اور اس پر رقص کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔

آخری سانس تک

حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک بوڑھی خاتون ایک وہیل چیئر پر بیٹھی ہیں، اسی دوران کوئی مشہور بیلے سانگ ’سوان لیک‘ پلے کر دیتا ہے۔

موسیقی

یہ گانا شروع ہونے کی دیر تھی کہ اپنی وہیل چیئر میں بیٹھی یہ بوڑھی خاتون آنکھیں بند کر کے ایک روشنی محسوس کرتی ہیں اور اپنی ہاتھوں کو مخصوص بیلے ڈانس کے انداز میں حرکت دیتی ہیں اور اس وقت وہ ایسا محسوس کر رہی ہوتی ہیں کہ جیسے وہ لوگوں سے بھرے کسی آڈیٹوریم کے سامنے پرفارم کر رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ بوڑھی خاتون کسی آڈیٹوریم کے بجائے ایک نرسنگ ہوم میں موجود تھیں۔ ان کا نام مارتھا گونزالیز ہے اور وہ الزائمر کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ وائرل ہونے والی اپنی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی روز بعد سنہ 2019 میں وہ وفات پا گئیں تھیں۔

مارتھا نے نوجوانی میں کیوبا میں بیلے سیکھا تھا اور الزائمر کی بیماری کے خطرناک حد تک پہنچ جانے کے باوجود ’سوان لیک‘ ان کے ذہن سے محو نہیں ہو پایا تھا۔ اور وہی پرانی یادیں اس وقت تازہ ہو گئیں جب کسی نے ان کے قریب اس گانے کو بجایا۔

اموروسو کہتے ہیں کہ ’موسیقی اور یاداشت کا آپس میں جذباتی لگاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یاداشت کھو دینے والے بہت سے مریض موسیقی کی بدولت اپنی پرانی یادوں تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ در حقیقت بعض مریضوں میں پرانی یادوں تک رسائی کا آخری راستہ موسیقی ہی کے ذریعے بچتا ہے۔‘

رابرٹ زٹورے اور اموروسو دونوں ہی کے نزدیک تنہائی سے نمٹنے میں بھی میوزک ایک بنیادی عنصر کا کام کرتا ہے۔

’میں نے جن مریضوں کا علاج کیا ہے ان میں سے بہت سے لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ تنہائی سے نمٹنے میں نہ تو کوئی مخصوص کھانا اور نہ شراب مددگار ثابت ہوئی بلکہ موسیقی ان کی بہترین حلیف رہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp