انڈیا کے نئے زرعی قوانین: ہزاروں انڈین کسانوں کا احتجاج جاری، پولیس سے چھڑپیں اور حکومت سے بات کرنے سے انکار


کسان
انڈیا کے دارالحکومت دہلی کی سرحد پر ملک کی کئی ریاستوں سے آنے والے کسان گذشتہ چار دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور آج ان کی تحریک کا پانچواں دن ہے۔

انھوں نے ستمبر میں مرکزی حکومت کے ذریعے متعارف کروائے جانے والے زرعی قانون کی مخالفت میں ’دہلی چلو‘ نعرے کے ساتھ دارالحکومت کا رخ کیا ہے۔

وہ مختلف مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی روز کا راشن ساتھ لائے ہیں اور اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔

حکومت کی جانب سے انھیں دہلی میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ زراعت کا نیا قانون ان کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

تین لاکھ خودکشیاں: ’کوئی اورجگہ ہوتی تو ملک ہل جاتا‘

31 لاکھ کسانوں کے قرضے معاف کرنے کا فیصلہ

سرحد پر روکے جانے کی وجہ سے کسانوں اور پولیس میں مختلف جگہ تصادم بھی ہوئے ہیں۔ کسانوں کے خلاف ہریانہ دہلی سرحد پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے گئے۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے متعدد ٹویٹس کے ذریعے یہ قرار دیا ہے کہ احتجاج کرنا کسانوں کا حق ہے اور کانگریس بھی اس قانون کی پارلیمان سے لے کر سڑکوں تک مخالفت کر رہی ہے۔

کسان

نیا قانون کیا کہتا ہے؟

انڈین پارلیمان نے ستمبر کے تیسرے ہفتے میں زراعت کے متعلق یکے بعد ديگرے تین بل متعارف کرائے جنھیں فوراً قانونی حیثیت دے دی گئی۔

ان میں ایک ’زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020‘ ہے جکہ دوسرا ’کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی سروس قانون 2020‘ ہے جس میں قیمت کی یقین دہانی اور معاہدے شامل ہیں۔ تیسرا قانون ’ضروری اشیا (ترمیمی) قانون‘ ہے۔

پہلے قانون میں ایک ماحولیاتی نظام بنانے کے لیے ایک دفعہ موجود ہے جہاں کسانوں اور تاجروں کو مارکیٹ کے باہر فصلیں فروخت کرنے کی آزادی ہو گی۔

ان کی دفعات میں ریاست کے اندر اور دو ریاستوں کے مابین تجارت کو فروغ دینے کے بارے میں کہا گیا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹنگ اور نقل و حمل کے اخراجات کو کم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی قانون 2020 میں زرعی معاہدوں پر قومی فریم ورک مہیا کیا گیا ہے۔

اس بل سے کاشتکاروں کو زرعی مصنوعات، فارم خدمات، زرعی کاروباری کمپنیوں، پروسیسرز، تھوک فروشوں، بڑے خوردہ فروشوں اور برآمد کنندگان کی فروخت میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا ہے۔

معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانا، تکنیکی مدد اور فصلوں کی صحت کی نگرانی کے ساتھ معاہدہ کرنے والے کسانوں کو قرض کی سہولیات اور فصلوں کی انشورنس فراہم کی جائے گی۔

ضروری اشیا (ترمیمی) قانون 2020 کے تحت اناج، دالیں، خوردنی تیل، پیاز آلو کو اشیائے ضروریہ کی فہرست سے نکالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔

ان قوانین پر ملک میں منقسم رائے پائی جاتی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ ان قوانین سے جو اصلاحات کی جا رہی ہے وہ زراعت کے شعبے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوں گی۔ دوسری طرف ملک کی حزب اختلاف نے ان قوانین کو کسان مخالف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسانوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوں گے۔

کسان

ملک میں کسانوں کی تنظیمیں بھی ان پر احتجاج کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ’غیر منصفانہ‘ ہیں اور ان سے کسانوں کا استحصال ہو گا۔

قانونی اصلاحات کے حامی معاشی ماہرین نے جزوی طور پر ان کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے اور اس سے متوقع نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ وہ دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں یکجا ہو کر اپنا پرامن مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ دہلی کے مضافاتی علاقے براری جائیں پھر ان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔

نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی ہریانہ کی سنگھو بارڈر پر کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ اسی کے ساتھ سخت سکیورٹی انتظامات کے درمیان کسان دہلی، یوپی کی غازی پور، غازی آباد سرحد پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دراصل وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کسانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے لیکن پہلے انھیں سنگھو اور ٹیکڑی سرحدوں سے دہلی کے براری میدان میں آنا ہو گا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق کسانوں کے معاملے پر بی جے پی پارٹی رہنماؤں کا ایک اجلاس اتوار کی شام پارٹی صدر جے پی نڈا کے گھر پر ہوا جس میں وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر زراعت ریندر سنگھ تومر نے شرکت کی۔

اس سے قبل امت شاہ نے کسانوں کے مظاہرے کو غیر سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔

اتوار کے روز انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پروگرام ’من کی بات‘ میں زراعت کے قانون کو ایک بار پھر کسانوں کے حق میں بتایا ہے جبکہ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ حکومت ان سے اس شرط پر تین دسمبر سے پہلے بات کرنے کے لیے تیار ہے کہ پہلے وہ براری میں یکجا ہوں۔

خیال رہے کہ حکومت نے کسانوں کے ایک وفد سے تین دسمبر کو ملاقات کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔

ہریانہ حکومت نے کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام رہی اور اب وہاں کی کھاپ برادری نے بھی کسانوں کی تحریک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کھاپ برادری دہلی کے نواح میں جاٹوں پر مشتمل بہت بااثر برادری ہے۔

کسان

دوسری جانب ریاست اترپردیش کے کسان رہنما نے بھی پنجاب کے کسانوں کا ساتھ دینے کی بات کہی ہے۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ حکومت کو کسانوں سے بغیر شرط فوری طور پر بات کرنی چاہیے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنی بات کہی۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی بھگونت مان نے کہا: ’ہم اس جدوجہد کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہم مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔‘

انھوں نے کہا کہ کسان جہاں مجتمع ہیں انھیں وہیں رہنا دینا چاہیے۔ حکومت کو انھیں وہیں سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔ انھوں نے کہا ’فرض تو یہ ہے کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر زراعت ان کے پاس جاتے اور ان سے ملتے۔ ان کے پاس میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے لیے وقت ہے ان کے لیے نہیں۔ اس سے ان کی نیت کا پتا چلتا ہے۔‘

خیال رہے کہ ان دنوں بی جے پی کے بہت سے رہنما حیدرآباد میں ہونے والے میونسپل انتخابات کے لیے جلسے کر رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما کا اسی جانب اشارہ تھا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp