لگ بھگ سات دہائیوں قبل لی گئیں تصاویر کا معمہ جنھیں دیکھنے میں 70 سال لگے
آج اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ آپ اپنی ایک تصویر لیں اور اسے فوراً نہ دیکھ سکیں۔ آج ڈیجیٹل کیمرے اور سمارٹ فونز سے ہم نہ صرف تصویر بناتے ہی اس کو فوراً دیکھ پاتے ہیں بلکہ دوست احباب کے ساتھ اسی وقت شیئر بھی کرتے ہیں۔
لیکن گھڑی کو سوئیوں کو ذرا پیچھے کی طرف لے جائیں، یعنی اس وقت جب فوٹو گرافی ڈیجیٹل کے بجائے اینالاگ پر مشتمل عمل کا نام تھا اور تصویر لینے کے بعد اسے دیکھنے میں کئی دن، مہینے اور یہاں تک کہ کئی سالوں کی وقت بھی لگ جاتا تھا۔
یہاں ہم ان تصاویر کی کہانی بیان کریں گے جنھیں بنایا تو سات دہائی قبل گیا تھا مگر انھیں دیکھنے میں تقریباً 70 سال کا عرصہ لگا۔
پرانے کیمروں کو اکٹھا کرنے والے ولیم فیگن نے چند سال قبل جب ’لیکا ایلا‘ کیمرہ حاصل کیا تو اس کے ساتھ انھیں کچھ کیمرہ رول بھی ملے، یعنی تصاویر کے نیگیٹیوز۔
انھوں نے حال ہی میں کیمرہ رول پر موجود تصاویر کو ڈیویلپ اور پرنٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکا کمپنی نے ان تصاویر کو اس وقت بنایا تھا جب فوٹوگرافی کے شوقین انھیں تھوک میں خریدتے تھے اور وہ اس میں اپنے دوبارہ استعمال کرنے والے کیسٹ بھرتے تھے۔
چونکہ یہ بلک فلم تھی اس لیے اس کی رفتار کی نشاندہی کا کوئی طریقہ تھا۔ لہذا مسٹر فاگن نے اپنے تجربے کی بنیاد پر اسے ڈیویلپ کرنے کے وقت کا اندازہ لگایا۔
اس کے باوجود ڈیویلپ کرنے سے پہلے انھوں نے ماہرین کی رائے لینا مناسب سمجھا۔ اُن کا منصوبہ کام کر گیا اور اب ان کے پاس پرنٹ کے قابل 20 نیگیٹیوز تھے۔
پرانی کاریں
انھوں نے بتایا کہ ’عام طور پر جب میں فلم کا رول ڈیویلپ کرتا ہوں تو مجھے اس کے بارے میں کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کیا ہے۔ ڈارک روم (جہاں فلم تیار کی جاتی ہے) میں میں پرانی کاروں کو دیکھ سکتا تھا۔‘
‘لیکن جب تک میں نے ان تصاویر کو سکین نہیں کیا مجھ پر پوری طرح واضح نہیں ہوا کہ اس میں کیا تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس لیکا کیمرے سے میں نے وہ فلم نکالی تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ یہ سنہ 1930 کی دہائی کے وسط کے ایک کیمرے سے نکالی گئی تھی۔‘
’پہلے نیگیٹیو کو میں نے سکین کیا تو اس میں مجھے سنہ 1930 کے دہائی کے وسط کی ایک بی ایم ڈبلیو کار نظر آئی جس پر باویرین پلیٹ (AB 523287) تھی اور وہ کار ایک پہاڑی کے برفیلے راستے پر کھڑی تھی۔‘
ایک دوسرے فریم میں سوئٹزر لینڈ میں واقع ’لا ویدوٹا‘ ہوٹل نظر آ رہا تھا۔
اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ کار بی ایم ڈبلیو 315 ہے۔
دوسرے مقامات میں شمالی اٹلی کی کومو جھیل کے ساحل پر بیلاجیؤ کی ایک ہائی سٹریٹ اور زیورچ کا بہنوفسٹراس (نیچے) شامل تھا جس کی وجہ سے مسٹر فاگن نے اندازہ لگایا کہ یہ تصویریں سنہ 1950 کی دہائی کی ہیں۔
لیکن اس میں جو لوگ ہیں ان میں فاگن کی زیادہ دلچسپی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’اصل جھٹکا اس وقت لگا جب میں نے سوئٹزر لینڈ اور شمالی اٹلی کے آس پاس کے سفر پر ایک خاتون اور ایک پالتو جانور کے ساتھ ایک شخص کی ذاتی تصاویر دیکھیں۔‘
وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا پتا لگا پائیں تاکہ انھیں ان کی تصاویر لوٹا سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس طرح کی تصویروں کو عام طور پر خوش کن لمحات کی بہت زیادہ ذاتی یادگار سمجھا جاتا ہے۔ اور مجھے احساس ہے کہ ایک اجنبی کی حیثیت سے مجھے ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
’پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے رول کو پھینک دیا ہوتا اور اسے تیار نہیں کرتا تو کسی نے بھی ان فوٹوز کو کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’پھر میں نے تصاویر میں موجود لوگوں کی عمر کا اندازہ لگایا اور غالب امکان یہ ہے کہ اب ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔‘
’میں نے محسوس کیا کہ اگر وہ اب ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تاہم ان کے اہلخانہ کو ان کی تصاویر کو دیکھنے کی خواہش ہو سکتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پھر دوسرے خیالات بھی ذہن میں آئے کہ آخر ان خوبصورت تصاویر کو کبھی ڈیویلپ یا پرنٹ کیوں نہیں کیا جا سکا؟‘
’فوٹوگرافی میں گہری دلچسپی رکھنے والے فوٹوگرافر کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ کسی وجہ سے تصاویر کھینچتے ہیں اور وہ تصاویر ایسے وقت میں ایسے لمحوں کو ریکارڈ کرتی ہیں جو کبھی دوبارہ ریکارڈ نہیں کی جا سکتی ہیں، کیونکہ ایسے لمحات خود کو دہراتے نہیں ہیں۔‘
لہذا اگر کوئی ان تصاویر میں جو لوگ ہیں ان کو پہچان سکتا ہے تو مسٹر فاگن ان سے بات کرنا چاہیں گے۔
آپ ان سے مائیک ایوانس کی ویب سائٹ کے ذریعے اس پتے پر info@macfigs.com رابطہ کر سکتے ہیں۔
فلم کے رول سے کچھ اور تصاویر ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
- مبینہ امریکی دباؤ یا عقلمندانہ فیصلہ: صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران ’ایران، پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا؟ - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).