جامعہ بلوچستان کے لاپتا پروفیسر لیاقت سنی بھی گھر واپس پہنچ گئے


جامعہ بلوچستان کے لاپتا پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی دو روز بعد بازیاب ہو کر مستونگ میں اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

پیر کی علی الصباح لیاقت سنی کی بازیابی کی خبر سنتے ہی اُن کے عزیز و اقارب اور ساتھی پروفیسرز کی بڑی تعداد اُن کے گھر خیریت دریافت کرنے پہنچی۔

پروفیسر لیاقت کے قریبی ساتھی پروفیسر منظور بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لیاقت سنی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اُن کے پاس موبائل فون بھی نہیں اور وہ زیادہ بات چیت بھی نہیں کر سکتے۔

پروفیسر لیاقت سنی ایسے موقع پر واپس گھر پہنچے ہیں جب ان کی بازیابی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا۔ ان کے ساتھ لاپتا ہونے والے دیگر دو پروفیسرز گزشتہ روز اپنے گھر پہنچے تھے۔

منظور بلوچ نے پروفیسر لیاقت سنی پر گزرے واقعے کے حوالے سے بتایا کہ اغوا کاروں کا رویہ ابتدا میں پُرتشدد رہا اور وہ وقتاً فوقتاً لیاقت سنی کو ذہنی اور جسمانی ٹارچر کرتے رہے لیکن بعد میں اچانک اُن کا رویہ تبدیل ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ بظاہر تینوں پروفیسرز کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا مگر اغوا کار بار بار اُن سے تاوان کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اغوا کا واقعہ کب پیش آیا؟

ہفتے کی صبح جامعہ بلوچستان کے تین پروفیسرز ڈاکٹر لیاقت سنی، شبیر شاہوانی اور پروفیسر نظام شاہوانی امتحانات کے حوالے سے کوئٹہ سے خضدار ایک سرکاری دورے پر جا رہے تھے کہ مستونگ میں نامعلوم افراد نے انہیں اغوا کر لیا تھا۔ بعدازاں پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کیا تھا۔

حکام کے مطابق جس گاڑی میں تینوں پروفیسرز سوار تھے اسے مستونگ کے علاقے غلام پڑنز سے برآمد کیا گیا جب کہ دو پروفیسرز کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار سے منظر عام پر آئے مگر اغوا کار پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

واقعے کے بعد ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے اپنے ایک بیان میں دو پروفیسرز کی بازیابی کی تصدیق کی۔

پروفیسر لیاقت سنی کون ہیں؟

یاد رہے کہ پروفیسر لیاقت سنی کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ سے ہے اور وہ جامعہ بلوچستان میں شعبہ براہوی کے چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے براہوی زبان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور براہوی ادب میں ان کی اب تک چھ کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

وہ شاعری کے علاوہ براہوی ادبی تنظیموں میں بھی کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

جامعہ بلوچستان کی اساتذہ تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے بازیاب ہونے والے دو پروفسرز کے ہمراہ اتوار کو واقعے کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی کی۔

ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر کلیم اللہ اچکزئی نے صحافیوں کو بتایا کہ اغوا کار دو پروفیسرز کو کوئٹہ نوشکی شاہراہ کے قریب کانک اور پھر چلتن کے پہاڑی علاقوں سے اغبرگ اور نوحصار کے علاقوں میں گھماتے رہے اور اس دوران ان پر تشدد بھی کیا گیا۔

ان کے بقول نوحصار میں اغوا کاروں نے دونوں پروفیسرز کو چھوڑ دیا جس کے بعد وہ پیدل چار گھنٹے کی مسافت طے کر کے کوئٹہ پہنچے۔

بازیاب ہونے والے ایک پروفیسر شبیر شاہوانی نے صحافیوں کو بتایا کہ “ہفتے کی صبح صبح چھ بجے ہم تینوں پروفیسرز خضدار روانہ ہوئے تو کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مستونگ کے قریب پہنچے ہی تھے کہ مسلح افراد نے ہماری گاڑی کو روک کر اپنی گاڑی میں بٹھا دیا۔”

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کہ اغوا کار کون تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa