کمبوڈیا میں کاون کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں؟


دنیا کا ‘تنہا ترین’ ہاتھی کہلانے والا اسلام آباد کے چڑیا گھر کا ‘کاون’ کمبوڈیا پہنچ چکا ہے اور اب اپنی نئی اور آزاد زندگی شروع کرنے والا ہے۔ کاون کو کارگو جہاز کے ذریعے کمبوڈیا منتقل کیا گیا۔

کاون پیر کو کمبوڈیا کے دوسرے بڑے شہر سیئم ریئپ پہنچا جسے اتوار کی شام اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر سے روانہ کیا گیا تھا۔

کاون کی رہائش گاہ کمبوڈیا کے صوبے اوڈر میئنچی کی ایک سینکچری (جانوروں کی محفوظ پناہ گاہ) ہو گی جہاں اس کے ساتھ تین ہتھنیاں بھی رکھی جائیں گی۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق جانوروں کی فلاح اور ریسکیو کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘فور پاز’ کا کہنا ہے کہ کاون جب سینکچری میں پہنچے گا تو کمبوڈیا میں رات ہو چکی ہو گی۔ اس لیے اسے منگل کو دن کی روشنی میں آزاد ماحول میں چھوڑا جائے گا۔

‘فور پاز’ سے منسلک کاون کا علاج کرنے والے ویٹرنری ڈاکٹر عامر خلیل نے کہا ہے کہ کاون سفر کے دوران بالکل بھی پریشان نہیں ہوا۔ وہ کھاتا پیتا رہا اور اپنے پنجرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر کچھ دیر سویا بھی۔

انہوں نے کہا کہ دورانِ پرواز کاون کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ اکثر جہاز میں سفر کرتا رہا ہو۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق کمبوڈیا کے نائب وزیرِ ماحولیات نیتھ فیکٹرا نے کہا ہے کہ اُنہیں امید ہے کہ کاون سینکچری میں مقامی ہاتھیوں کے ساتھ گھل مل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سینکچری میں کاون کے ساتھ تین ہتھنیاں بھی رکھی جائیں گی۔ انہیں توقع ہے کہ کاون ہتھنیوں سے تعلق قائم کر لے گا اور اس کی نسل پروان چڑھے گی۔

اسلام آباد چڑیا گھر کا ہاتھی کاون کیوں روتا ہے؟

کاون کے استقبال کے لیے امریکی گلوکارہ شیر بھی سیئم ریئپ کے ایئرپورٹ پر موجود تھیں۔

خیال رہے کہ کاون پاکستان میں واحد ایشیائی ہاتھی تھا جس نے اپنی زندگی کے 30 سے زائد برس اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں قید رہ کر گزارے ہیں۔

اس چڑیا گھر میں کاون انتہائی نامساعد حالات اور برسوں زنجیروں میں جکڑے رہنے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو گیا تھا۔ جس کے بعد کاون کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی جاتی رہی۔

اس مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہیں اور انہوں نے مئی میں ٹوئٹر پر کاون کا معاملہ اُجاگر کیا تھا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاون کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa