’دلی کرائم‘ کے لیے ایمی ایوارڈ سے انڈیا کے لیے کیا بدلے گا؟


گذشتہ سوموار کو 48ویں انٹرنیشنل ایمی ایوارڈز کی تقریب نیویارک شہر کے خالی تھیئٹر میں منعقد کی گئیاور لائیو نشر ہوئی اور انڈیا کے لیے اس میں خوش کی خبر یہ تھی کہ بین الاقوامی بہترین ڈرامہ سیریز کے زمرے میں ویب سیریز 'دلی کرائم' کو فاتح قرار دیا گیا۔

اس زمرے میں دیگر نامزدگیاں جرمنی کی سیریز ‘چیریئٹ’، برطانیہ کی سیریز ‘کریمنل’ اور ارجنٹائن کی سیریز ‘دی برونز گارڈن -2’ تھیں۔ لیکن ان سب کے مقابلے میں انڈین سیریز کو فاتح قرار دیا گیا۔

اس کی اطلاع ملتے ہی اس سیریز میں مرکزی کردار ادا کرنے والی شیفالی شاہ نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ شیفالی شاہ نے کہا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ ‘دلی کرائم’ نے ایمی ایوارڈ جیتا ہے۔

شیفالی شاہ نے کہا ‘میں خوش ہوں، پرجوش ہوں ۔۔۔ اور لغت کے تمام مبالغہ آمیز الفاظ، جو ذہن میں آرہے ہیں وہ محسوس کر رہی ہوں۔۔۔ یہ حیرت کی بات ہے۔ مجھے بہت فخر ہے کہ میں ‘دلی کرائم’ کا حصہ ہوں۔ یہ جیت سونے پر سہاگہ ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

دلی بس ریپ کیس سے جڑی دوسری عورت کون ہیں؟

‘لکشمی بم‘ کے اکشے: ’میں اس ایریا کی رانی ہوں‘

امیتابھ کی فلم کی ریلیز پر ہنگامہ کیوں؟

رنویر سنگھ کے لیے ایوارڈ بھی اور مومی مجسمہ بھی

انھوں نے کہا ‘جب میں اس سیریز میں کام کر رہی تھی اس وقت سے ہی میرے لیے ‘دلی کرائم’ فاتح تھی۔ میں جانتی تھی کہ یہ شو خاص ہے۔ ایمی ایوارڈ نے ہمیں بین الاقوامی سٹیج پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے اس پر بہت فخر ہے۔’

‘دہلی کرائم’ ویب سیریز میں کیا ہے؟

22 مارچ سنہ 2019 کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی ویب سیریز ‘دلی کرائم’ دلی میں سنہ 2012 میں ایک چلتی بس میں ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کے مجرموں کو پکڑنے کی تحقیقات پر مبنی کہانی ہے۔ سیریز میں اس کیس کی سربراہی خاتون پولیس افسر ورتیکا چترویدی (شیفالی شاہ) کرتی ہیں۔

اس سیریز کی ہدایت کاری انڈین نژاد کینیڈیئن ہدایت کار رشی مہتا نے کی ہے۔ فلم سازوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی برسوں کی تحقیق کے بعد تیار کی گئی اور اس کے لیے دلی کے مختلف اور دیگر کئی مقامات پر شوٹنگ کی گئی۔

اس سیریز میں شیفالی شاہ، رسیکا دُگل، عادل حسین اور راجیش تیلنگ سمیت متعدد اداکاروں نے عمدگی کے ساتھ اپنے کردار ادا کیے۔

دلی کرائم کے لیے ایمی ایوارڈ جیتنے پر ہدایتکار رشی مہتا نے کہا ‘میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ہم یہاں آجائیں گے۔ یہ بہت سے لوگوں کے کئی برسوں کے کام کا نتیجہ ہے۔

سیریز میں طاقتور اور حساس پولیس اہلکار نیتی سنگھ کا کردار ادا کرنے والی رسیکا دگل نے کہا ‘یہ میرے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ دلی کرائم شو کا حصہ بنی۔ انڈیا میں جرات مندانہ اور حساس کہانی کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ ایمی ایوارڈ ملا۔’

سیریز کے اداکار عادل حسین نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیریز کا یہ کارنامہ بہت اہم ہے کیونکہ انڈین فلم سازوں کو یہ بین الاقوامی سطح پر لے جاتا ہے۔

انھوں نے کہا ‘یہ سیریز انتہائی نفرت انگیز واقعے پر مبنی ہے لیکن پوری سیریز میں ایک بار بھی اسے دکھایا نہیں گیا ہے، جبکہ بہت سارے لوگ اسے دکھانے کا موقع ضائع نہیں کرتے۔

‘سیریز میں کوئی فحاشی یا غیر ضروری گالی گلوچ یا زبردستی کے مکالموں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ سیریز دیکھنے والوں کو متاثر کرتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں اتنا بڑا ایوارڈ ملا۔’

دلی کرائم کا دبدبہ کیوں رہا؟

فلم ناقد مینک شیکھر اس سیریز کی کامیابی پر کہتے ہیں ‘سیریز کا موضوع ایوارڈ جیتنے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن دوسری خاص وجہ اسے سنجیدگی کے ساتھ پیش کرنا ہے۔’

نربھیا گینگ ریپ ایک انتہائی خوفناک مجرمانہ واقعہ تھا جس کے بعد سڑکوں پر عام لوگوں خصوصاً دلی کے نوجوانوں کا غصہ پھوٹ پڑا تھا۔

اس سیریز میں پولیس کے کردار کو نہایت ہی ہمدردی سے دکھایا گیا ہے کہ دلی جیسے بڑے شہر میں محض پانچ دن میں مفرور مجرموں کو کس طرح پولیس نے پکڑا۔

مینک شیکھر کہتے ہیں ‘دلی کرائم سیریز ایک ایسی کہانی ہے جسے دو خواتین کرداروں (شیفالی شاہ اور رسیکا دگل) نے سنبھالا ہے۔

‘اس طرح کے خوفناک واقعے کو بہت احتیاط، ہمدردی اور وثوق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ شو میں قابل ذکر جانچ پڑتال ہوئی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ کہانی بیان کرتے ہوئے اس موضوع سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔’

انڈین سیریز کی گونج

او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی آمد کے بعد انڈیا میں بہت ساری ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ ناظرین بھی اس نئے پلیٹفارم پر انڈین مواد کو پسند کر رہے ہیں۔ انڈیا میں کئی بین الاقوامی سیریز پسند کی جا رہی ہیں جن میں سپین، جرمنی، کوریا، اسرائیل اور ترکی کی مختلف سیریز شامل ہیں۔

فلم ناقد مینک شیکھر کا خیال ہے کہ یہ سیریز نصف انڈین سیریز ہے کیونکہ اس کے ہدایتکار انڈین نژاد کینیڈیئن شخص ہیں اور ٹیم کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی تھا۔ تاہم سیریز میں کام کرنے والے اداکار انڈین تھے اور کہانی بھی دلی کی ہی ہے۔

مینک شیکھر نے کہا ‘اس جیت سے ایک بات یقینی ہے کہ بین الاقوامی ناظرین انڈین مواد میں دلچسپی لیں گے۔ یہ سیریز نیٹ فلکس پر دستیاب ہے اور نیٹ فلکس 200 ممالک میں دستیاب ہے۔’

مینک شیکھر کا کہنا ہے کہ ‘جب کوریائی فلم ‘پیراسائٹ’ کو آسکر ملا تو دنیا نے پیراسائٹ فلم کو دیکھا۔ اگر آسکر نہ ہوتا تو کسی نے پیراسا‏ئٹ کے بارے میں سنا بھی نہ ہوتا۔ پیراسائٹ کے بعد لوگوں نے ہدایتکار بونگ جون کی دوسری فلمیں بھی دیکھیں۔ انڈیا میں کورین فلموں کو تھیئٹر میں ریلیز کیا جا رہا۔ مجھے امید ہے کہ انڈین مواد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔’

اداکار عادل حسین نے بھی ایسی ہی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس کے بعد بھی اگر بین الاقوامی سطح پر انڈین مواد کے بارے میں لوگوں کا رویہ نہیں بدلا تو یہ بدقسمتی ہوگی۔’

ایسا نہیں ہے کہ ‘دلی کرائم’ سے قبل کوئی اور سیریز بین الاقوامی ایوارڈز تک نہیں پہنچی۔ اس سے قبل ‘سیکریڈ گیم’ اور ‘لسٹ سسٹوریز’ جیسے شوز بین الاقوامی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے تھے۔

رواں سال ایمزون پرائم کی اوریجنل سیریز ‘فور مور شارٹس’ کو بھی مزاحیہ زمرے میں نامزد کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ انڈین اداکار ارجن ماتھر کو اس سال ‘میڈ اِن ہیون’ اور رادھیکا آپٹے کو ‘لسٹ سٹوریز’ کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن ‘دلی کرائم’ نے جیت حاصل کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp