حالات اپنے مگر نہیں بدلے!


موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور منصوبے عوام کے حالات بہتر نہیں کر سکے لگ رہا ہے آئندہ بھی ان کے لئے کوئی آسانیاں نہیں پیدا کر سکیں گے کیونکہ اس کے زہادہ تر وزیر و مشیر غیرمنتخب ہیں جنہیں ذرا سا بھی لوگوں کا خیال نہیں انہیں اپنے مناصب کے مزے لوٹنا ہے اور اپنے محسنوں کے مفادات کو ملحوظ رکھنا ہے جیسا کہ مشیر خزانہ ’انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ غریب لوگ کیسے گزارہ کرتے ہیں اور کیسے جیتے ہیں انہیں تو بس نئے نئے ٹیکس لگانے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کو بر وقت قسطیں ادا کرنا ہیں جبکہ ایسے حالات میں کہ جب وبا پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح سے متاثر کر چکی ہے کر رہی ہے وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہی ہے جن ممالک نے ان اداروں کا قرضہ واپس کرنا تھا انہیں رعایت دینے کو کہہ رہے ہیں مگر یہاں اس پہلو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے ہا ہا کار مچی ہوئی ہے عوام دہائی دے رہے ہیں مہنگائی و بے روزگاری نے وائرس سے زیادہ خوف پھیلا رکھا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی ہر روز قیمتیں بڑھتی ہیں مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت اس کا مافیاز کو ذمہ دار ٹھراتی ہے چلئے مان لیتے ہیں مگر کیا انہیں قابو میں کرنا کس کا کام ہے ظاہر ہے حکومت کا کہ اس کے پاس پوری مشینری موجود ہے یہاں بھی وہ یہ کہتی ہے کہ بیوروکریسی اس سے تعاون نہیں کرتی؟

اب جب عوام حفاظت خود اختیاری کے نظریے کے تحت کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو بھی حکومت کو قبول نہیں یوں مایوسی تیزی سے بڑھ رہی ہے نا امیدی کے سائے ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں معاشی ’سیاسی اور سماجی حالات ٹھیک ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے اگر عدل و انصاف کا ترازو مضبوطی سے تھام لیا جاتا ہے کہ جس کسی نے بھی ملکی دولت کو ذاتی تجوریوں میں ٹھونسا اسے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔ ملاوٹیوں‘ ذخیرہ اندوزوں ’ناجائز منافع خوروں‘ کمیشن مافیا اور قبضہ گیروں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے کہ دنیا دیکھے پھر ایک ایسا نظام لایا جائے جس میں ریاست اپنے شہریوں کو تعلیم ’صحت اور روزگار فراہم کرنے کی پابند ہو یہ جو ایک آدھ سہولت دے کر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے اس سے عوام مطمئن ہونے والے نہیں۔ ہم اپنے متعدد کالموں میں اس بات کا رونا رو چکے ہیں کہ یہ پہلی حکومت آئی ہے جسے اپنے کارکنوں سے کوئی دلچسپی نہیں اگر ہوتی تو آج پیرا شوٹر نظر نہ آتے اور نہ ملک کی معاشی وسماجی حالت اتنی خراب ہوتی!

مکرر عرض ہے کہ جب عمران خان کے قریبی دوست یہ کہتے ہیں کہ وہ خود دیانت دار ہیں اور عوام کے لئےکچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے بعض ساتھی گڑ بڑ کرتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے اگر وہ عوام کے لئے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں تو وہ کیوں محض اقتدار کی خاطر غیر منتخب مشیروں وزیروں کے مشورے مانتے ہیں جو ان پر پہاڑ بن کر ٹوٹتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم عوام میں سکت باقی نہیں رہی آپ کی کمزور گورننس نے آپا دھاپی کی کیفیت کو جنم دیا ہے یہ درست ہے کہ بعض عناصر ان کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی کرنا آپ کی ذمہ داری ہے مگر وہ تقریریں اور بھاشن دے کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں اس طرح لوگوں کو نہیں اپنا بنایا جا سکتا انہیں عمل چاہیے بنیادی حقوق چاہیں اور انصاف چاہیے۔

وہ دور بیت گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ یہ نئی دنیا ہے اس کے نئے تقاضے ہیں لہذا تہتر برس گزرنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ لوگ روایتی سیاست سے کوئی امید بانھ لیں گے تو یہ اس کی حماقت ہے!

بہرحال چند روز پہلے وزیر اعظم نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ گڈ گورننس کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں گے بالخصوص قبضہ مافیا کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے جا رہے ہیں وہ اس کے مظالم سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اگر واقعی وہ کچھ کرنے کا پکا ارادہ کر چکے ہیں اور اس پوزیشن میں ہیں تو یک طرفہ نہ چلیں قانون کی گرفت میں سب کو آنا چاہیے ویسے ہمیں نظر نہیں آ رہا کہ وہ اتنا بڑا کام کر گزریں گے؟

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کے کرنے کرانے کا وقت گزر گیا یعنی وہ خوشحالی وبہتری سے متعلق اب کچھ نہیں کر سکتے؟ ہمارے دوست جاوید خیالوی کا بھی اسی طرح کا خیال ہے کہ اب تو عمران خان کے لئے تباہ حال معیشت کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے لہذا عوام کی فلاح وبہبود کیسے کر پائیں گے ادھر ان کے مشیر خزانہ انہیں پے اینڈ پنشن سے متعلق جو ”مفید“ مشورہ دے رہے ہیں اس کے ردعمل میں ملک بھر کے ملازمین میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے لہذا آنے والے دنوں میں وہ سژکوں پر آ سکتے ہیں ان کے علاوہ بیورو کریسی بھی اپنے جذبات کا اظہار لازمی کرے گی لہذا ملکی صورت حال میں ٹھہراؤ نہیں ابال آئے گا اور حزب اختلاف (پی ڈی ایم) اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اب بھی وہ پیش گوئی کر رہی ہے کہ حکومت جنوری تک ہے اس کے بعد گھر ہو گی؟

حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ حکومت کو اس کی مدت پوری کرنے دے کہ وہ بہتر کارکردگی نہیں دکھاتی تو عوامی حمایت سے مکمل طور سے محروم ہو سکے مگر اسے بہت جلدی ہے جبکہ یہ بات بھی اہم ہے کہ حزب اختلاف میں شامل دو بڑی جماعتیں عوام کو بنیادی حقوق دینے میں ناکام رہیں لہذا جب تک یہ نظام نہیں تبدیل کیا جاتا عوامی خدمت کا خواب پورا نہیں ہو سکتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).