امریکہ: صدر ٹرمپ کی صدارت کے آخری چند روز: 'انھیں ابھی بھی لگتا ہے کہ اُنھیں شکست نہیں ہوئی ہے'


Trump
جیسے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی مدت اپنے اختتام کی طرف جا رہی ہے اور ان کی جانب سے صدارتی انتخاب کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں، وائٹ ہاؤس پر ایک عجیب و غریب سی خاموشی چھا رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی کمیونیکیشن ڈائریکٹر برائن مورگن سٹرن وائٹ ہاؤس کے ویسٹ وِنگ حصے میں موجود ہیں۔ وہ وائٹ ہاؤس کے نشان والی جیکٹ پہنے ہوئے ہیں جو اوپر تک بند تھی، جیسے بس وہ ابھی روانہ ہونے والے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دفتر اوول آفس سے کچھ فاصلے پر واقع اس کمرے کے پردے بند تھے اور تاریکی کا سماں تھا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

ٹرمپ انتظامیہ کا اقتدار کی منتقلی کے عمل کا آغاز کرنے کا اعلان

جو بائیڈن: ٹرمپ کا شکست تسلیم نہ کرنا ’شرمندگی‘ کا باعث ہے

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کا عندیہ دے دیا

Trump returns to the White House after celebrating Thanksgiving with his family

برائن مورگن سٹرن کے باس، صدر ٹرمپ اس وقت اپنے دفتر کے بجائے وائٹ ہاؤس کے ایک دوسرے کمرے میں موجود تھے جہاں وہ اپنے وکیل روڈی گیولیانی سے محو گفتگو تھے، جو اُس وقت وکلا کی ٹیم کے ہمراہ ریاست پینسلوینیا میں موجود تھے۔

صدر ٹرمپ فون پر کہتے ہیں ‘ان انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے، اور ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔’

برائن مورگن سٹرن اپنے کمپیوٹر پر اس گفتگو کا جائزہ لے رہے تھے لیکن شاید ان کا دماغ کہیں اور تھا۔ اچانک ہی وہ اپنی کرسی پر گھومے اور کمرے میں موجود ایک ملاقاتی سے کالج، رئیل سٹیٹ، بیس بال اور تھوڑے توقف کے بعد، صدر ٹرمپ کی کامیابیوں کے بارے میں بات کرنے لگے۔

صدر ٹرمپ کی اپنے قانونی مشیروں سے اس میٹنگ کے کچھ دیر بعد ہی صدر کی پینسلوینیا میں انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کی کوشش جمعے کو ناکام ہوگئی۔ عدالت نے ان کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ریاست کی جانب سے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جیت کا سرٹیفیکٹ جاری کر دیا گیا جس کے مطابق انھیں 80 ہزار ووٹوں کی سبقت سے جیت حاصل ہوئی ہے۔

اس کے بعد ریاست ایریزونا نے پیر کو جو بائیڈن کو باضابطہ طور پر ریاست سے فاتح قرار دے دیا اور توقع ہے کہ ریاست وسکونسن بھی بہت جلد یہی فیصلہ سنا دے گی۔ حکام نے اقتدار کی منتقلی پر کام شروع کر دیا ہے اور نئے صدر اپنے امور 20 جنوری سے سنبھال لیں گے۔

صدر ٹرمپ ابھی بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جیت ہوئی ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ کام کرنے والا عملہ حقیقت سے آشنا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ویسٹ وِنگ میں اب وہ صرف گنتی کے چند روز کے ہی مہمان ہیں۔

اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ جب ان کے باس کا پارا چڑھا ہوا ہو تو ان سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

Brian Morgenstern, who started working at the White House in July

برائن مورگن سٹرن

برائن مورگن سٹرن کہتے ہیں کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ ‘ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم محنت سے کام کر رہے ہیں۔’

لیکن ویسٹ وِنگ کے دفاتر میں صرف وہی نظر آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چہرے پر پہننے والا ماسک تھا اور وہ اس کی ڈوری سے کھیل رہے تھے، جیسے وہ تسبیح پڑھ رہے ہوں، اور خاموشی کے اس ماحول میں صرف ایک دوسرے کمرے میں چلنے والے ٹی وی کی ہلکی سے آواز آ رہی تھی۔

عام طور پر ان کمروں میں پورا دن لوگ بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اس وقت یہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

ایک زمانے میں اٹلانٹک سٹی میں صدر ٹرمپ کے لیے کیسینو چلانے والے جیک او ڈونل کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کی سمجھ ہے کہ جو لوگ صدر کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ ایسے وقت میں دور کیوں رہنا چاہتے ہیں۔

‘آپ کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جو انھیں ناگوار گزرے۔’

جیک او ڈونل بتاتے ہیں کہ ایک بار صدر ٹرمپ ایک عمارت کا دورہ کر رہے تھے جس کی آرائش و مرمت ہو رہی تھی۔ وہ ایک کمرے میں موجود تھے جہاں کی چھت تھوڑی نیچی تھی۔

جیک بتاتے ہیں کہ وہاں کوئی مسئلہ تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً اسے بھانپ لیا۔

‘وہ اچھلے اور زور سے چھت کو مکا مار دیا۔ جب وہ اس قدر طیش میں ہوں تو کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ان کے قریب ہو۔’

صدر ٹرمپ کا غصہ، ان کا جذبہ اور ولولہ، سب ہی بہت مشہور ہے۔ ان کی کامیابی میں ایک عنصر ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں سے انکار کرتے ہیں۔ یہ قیادت کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو انھوں نے اپنے کرئیر کے آغاز میں ہی اپنا لیا تھا اور اب صدارت کے آخری مراحل میں اس کا عملی مظاہرہ ضرورت سے زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔

گذشتہ ہفتے وہ ویسٹ ونگ کے بریفنگ روم میں آئے اور وہاں امریکہ کے بازار حصص، ڈاؤ جونز کی بہتر صورتحال کے بارے میں بات کرنے لگے۔ ڈاؤ جونز گذشتہ ہفتے 30 ہزار سے زیادہ پر بند ہوا تھا جو کہ ایک نیا ریکارڈ تھا۔

برائن مورگن سٹرن کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ آئے اور ’مارکیٹ کی کامیابی کا جشن منانے لگے اور اشارہ کیا کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کیونکہ ان کی پالیسیاں، جیسے بہتر ’تجارتی معاہدے‘ اور ’توانائی میں خود مختاری‘ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے‘۔

لیکن مارکیٹ کے سرمایہ دار کہتے ہیں کہ مالیت بڑھنے کی وجہ جو بائیڈن کو اقتدار منتقلی کی باضابطہ تصدیق تھی۔

لیکن صدر ٹرمپ کا خیال پھر بھی وہی تھا کہ جیت ان کی ہے۔

صدر ٹرمپ کے جیت کے دعوے اور ہار ماننے سے انکار کرنا اصل نتیجے پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا موقف بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لاکھوں افراد ان کے حامی ہیں اور وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد بھی ان کے حامی رہیں گے، چاہے وہ 2024 کے انتخاب کے لیے دوبارہ امیدوار بنیں یا اپنا میڈیا قائم کریں۔

صدر ٹرمپ پر لکھی گئی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ انھیں جانتے ہیں، انھوں نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی صدارت کو اپنے لیے ایک سبق کے طور پر لیا ہے کہ جمی کارٹر صرف ایک مدت کے لیے صدر رہے اور 1980 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں وہ ہار گئے تھے۔

کتاب میں صدر ٹرمپ کے حوالے سے لکھا گیا کہ انھوں نے کہا ‘جتنی تیزی سے آپ اوپر جاتے ہیں، اتنی ہی تیزی سے نیچے جاتے ہیں۔’

جو لوگ صدر ٹرمپ کو جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے صدر ٹرمپ حقائق سے ہی منحرف ہو جاتے ہیں۔

ماضی میں بھی کئی بار اپنے کاروبار کی ناکامی کے باعث وہ دیوالیہ ہوئے لیکن انھوں نے تاثر ایسا دیا کہ یہی تو ان کا منصوبہ تھا۔

جیک او ڈونل یاد کرتے ہیں کہ ایک بار ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے کہا ‘میں نے تو یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔’ جیک او ڈونل کہتے ہیں کہ یہ ’بکواس‘ ہے۔

‘اپنے ذہن میں وہ ناقبل شکست ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی ہار تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ کہیں گے، یہ انتخاب مجھ سے چھینا گیا ہے۔’

صدر ٹرمپ اب سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے کنٹرول کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ جارجیا کا دورہ کر کے وہاں کے امیدواروں کی حمایت کریں جن کے انتخابات جنوری میں ہونے ہیں۔

دوسری جانب برائن مورگن سٹرن کے دفتر کے باہر کچھ میزوں پر پڑے سامان پر لکھا تھا ‘شکست راستہ نھیں ہے۔‘

یہ جملہ صدر ٹرمپ کے فلسفے اور ان کے طریقہ صدارت کو خوبصورتی سے سمو دیتا ہے، اس وقت تک کہ وہ وائٹ ہاؤس سے چلے نہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp